پاکستان میں فری لانسنگ کا شعبہ گزشتہ چند برسوں میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور آن لائن پلیٹ فارمز نے نوجوانوں کے لیے نئے روزگار کے مواقع کھول دیے ہیں۔ آج پاکستانی فری لانسرز نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر اپنی مہارت اور محنت سے اپنا نام روشن کر رہے ہیں۔ یہ شعبہ اب ملکی معیشت کے لیے ایک قیمتی اثاثہ بن چکا ہے۔
پاکستان میں فری لانسرز کی تعداد تقریباً تئیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور یہ کمیونٹی عالمی سطح پر سالانہ ایک ارب ڈالر سے زائد کمانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان فری لانسرز ایسوسی ایشن (PAFLA) کے چیئرمین ابراہیم امین نے "AI Beyond Border Summit 2025” میں کہا کہ اگر حکومت، مالی ادارے اور تعلیمی شعبہ اس کمیونٹی کی بھرپور معاونت کریں تو یہ ملکی معیشت میں مرکزی کردار ادا کر سکتی ہے۔
دنیا کے پانچ بڑے فری لانسنگ مارکیٹس میں پاکستان کا شمار ہوتا ہے۔ یہاں نوجوان ویب ڈویلپمنٹ، گرافک ڈیزائن، مواد کی تخلیق، ترجمہ اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ جیسے شعبوں میں خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ ان کی محنت نہ صرف ملکی زرمبادلہ میں اضافہ کر رہی ہے بلکہ نوجوان نسل کے لیے معقول روزگار کے مواقع بھی پیدا کر رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فری لانسرز کو جدید ٹیکنالوجی، تربیت اور AI ٹولز تک رسائی دی جائے تو یہ شعبہ تیزی سے ترقی کر سکتا ہے۔ بین الاقوامی کلائنٹس تک آسان رسائی اور حکومتی معاونت پاکستانی فری لانسرز کو عالمی سطح پر مضبوط مقام دلانے میں مددگار ثابت ہو گی۔ یہ شعبہ صرف ڈیجیٹل برآمدات بڑھانے کا ذریعہ نہیں بلکہ ملکی معیشت کو مستحکم بنانے کا بھی موقع ہے۔
پاکستانی فری لانسرز نے ثابت کیا ہے کہ محنت، مہارت اور عزم کے ذریعے محدود وسائل کے باوجود عالمی مارکیٹ میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان کی کامیابیاں نہ صرف ذاتی کاوشوں کا نتیجہ ہیں بلکہ ملک کے لیے بھی قیمتی سرمایہ ہیں۔ اگر حکومت، تعلیمی ادارے اور نجی شعبہ مزید سہولتیں فراہم کریں تو پاکستان فری لانسنگ کے شعبے میں دنیا کے صفِ اول کے ممالک میں شامل ہو سکتا ہے۔
چند برس قبل فری لانسنگ کو صرف اضافی آمدنی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، مگر آج یہ نوجوانوں کے لیے ایک مستحکم کیریئر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پاکستانی نوجوان اپنی صلاحیتوں کو نکھار رہے ہیں اور بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کی پہچان مضبوط کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ شعبہ ملک میں ڈیجیٹل مہارت اور تکنیکی تعلیم کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ حکومت اور تعلیمی ادارے اس شعبے کی ترقی کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ مالیاتی سہولتیں، آسان بینکنگ نظام، قانونی تحفظ، اور معیاری تربیتی پروگرام نوجوانوں کے لیے مزید مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی مارکیٹ کے لیے تربیت یافتہ فری لانسرز تیار کرنا پاکستان کے لیے اقتصادی فوائد کے ساتھ عالمی سطح پر مثبت ساکھ بھی قائم کرے گا۔
پاکستانی فری لانسرز کی کامیابی ایک روشن مثال ہے کہ کس طرح محنت، ٹیکنالوجی کی سمجھ اور ہنر کے امتزاج سے نوجوان عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔ یہ شعبہ نہ صرف زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہے بلکہ نئی نسل کے لیے ترقی، خود اعتمادی اور جدت کے راستے بھی کھول رہا ہے۔
حرفِ آخر ؛اگر حکومت، نجی شعبہ اور تعلیمی ادارے مشترکہ طور پر اس شعبے کی ترقی میں کردار ادا کریں تو پاکستانی فری لانسرز ملک کے لیے فخر کا باعث بن سکتے ہیں اور ملکی معیشت میں ایک نیا باب رقم کر سکتے ہیں۔ یہ وقت پاکستان کے لیے سنہری موقع ہے کہ فری لانسنگ کے میدان میں قائدانہ مقام حاصل کرے اور اپنی نوجوان نسل کی صلاحیتوں کو عالمی معیار پر منوائے۔
یوسف صدیقی






