جدید غزل کا درخشندہ ستارہ شہزاد نیّرؔ
ندیم ملک کی ایک اردو تحریر
ہر دور اپنے اندر کچھ قدریں رکھتا ہے جن کی جھلک ہم آئینے میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ادب اپنے دور کا آئینہ کہلاتا ہے پس اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب کا وقت اور حالات سے گہرا تعلق ہے اور یہ وقت اور ماحول ہی کی دین ہے اس روشنی میں جب ہم جدید ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جدید ادب بھی ماحول اور حالات ہی کی پیداوار ہے شاعری کا منصب یا فن خوب سے خوب تر بنانا بھی ہے دکھانا بھی اور کوئی شاعر اس منصب کا اہل نہیں اگر وہ عظیم سے واقف ہو اور حقیر پر اکتفا کرے دوسرا سبب اس کی مقبولیت کا یہ ہے کہ اچھی اور اعلی غزل کے پیمانے میں جذبات یا فکر کی صہبا ہوتی ہے وہ دو آتشہ سہہ آتشہ سے بھی زیادہ ہوتی ہے جہاں آبگینہ تندی صبا پگھلنے لگتا ہے ظاہر ہے اس صہبا کا طبائق پر کیا اثر ہوتا ہوگا غزل کہنے میں جتنی سہولت ہے اتنی ہی مشکلات بھی ہیں کیونکہ جو بات کہنی ہوتی ہے مختصر سے مختصر اور جلدی سے جلدی کہہ کر ختم کر دی جاتی ہے دوسری طرف یہ بھی ہے کہ غزل کا شعر بڑے سے بڑے پیمانے پر پلان کرتے ہیں اور چھوٹے سے چھوٹے پیمانے پر مصرع مکمل کرتے ہیں غزل میں ہر شعر مختصر ترین اور ایک مکمل کہانی ہوتا ہے اب زندگی کی مصروفیات اور مطالبات اس قدر دگر گوں ہوچکے ہیں کہ طویل رزمیہ یا بزمیہ لکھنا ناممکن ہوگیا ہے شہزاد نئیر سے میرا تعلق دوہزار سترہ سے ہے میری ان سے پہلی ملاقات دینہ میں ہوئی اردو ادب کے بہت بڑے نظم نگار اور انڈیا فلم انڈسٹری کے گیت نگار گلزار بھی اسی سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں دینہ کی سرزمین بہت زرخیز ہے اس مٹی نے بہت سے نامور لوگ پیدا کیے آج بھی بہت سے شاعر اس سرزمین میں ادب کی خدمت میں شب و روز سرگرداں ہیں میری خوش قسمتی ہے کہ شہزاد نئیر میرے اچھے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں شہزاد نئیر ماہرِ عروض ہونے کیساتھ بہت عمدہ نقاد ہیں بہت کم گو ہیں مگر جب بولتے ہیں تو جی چاہتا ہے ان کی گفتگو سنتے جائیں جدید غزل کے حوالے سے معروف شاعر اور نقاد احمد ندیم قاسمی نے ایک مضمون میں یوں قلمبند کیا ہے
جدید اردو غزل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس غزل میں باطن اور ظاہر کے درمیان ایک عجیب ناقابل شکست قسم کا رابطہ قائم ہوگیا ہے اور یوں داخلیت اور خارجیت کی پرانی بحث کی گنجائش ہی ختم ہوگئی ہے ۔ معرو ض اور موضوع ان کے یہاں ایک جان ہوگئے ہیں ۔ باہر کی کائنات اندر کی کائنات کا انعکاس بن گئی ہے اور یوں شاعری کر تے ہوئے ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ سننے والا بظاہر ششد ر بھی رہ جاتا ہے مگر اندر سے ثروت مند بھی ہوجاتا ہے
بقولِ میر تقی میر
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
تین سو برس سے اب تک غزل کے اسلوب میں برابر تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں لیکن اس کی بنیادی حقیقت میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوا اس سے صاف طور پر یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ صنف اپنی اصل حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے مختلف حالات سے مطابقت کی صلاحیت رکھتی ہے غزل ایک ایسا فن ہے جس میں اختصار کے ساتھ حیات و کائنات کے رمز بیان ہوتے ہیں غزل ہماری کئی دہائیوں سے پسندیدہ صنف ہے تعجب کی بات یہ ہے کہ پاکستان ہندوستان بننے سے پہلے اور اس کے بعد بھی کچھ عرصے تک غزل کے اہم اور بڑے شاعر فراق گورکھپوری ،جگر مراد آباد وغیرہ اس عہدے پر مانے گئے ان کے بعد اس کے آگے ترقی پسند تحریک کے انقلاب آفریں شاعر فیض احمد فیض،سردار جعفری،مجروح سلطان پوری،نے غزل کا پورا حق ادا کیا آج غزل کا دامن کئی حوالوں سے پہلے سے زیادہ وسیع وعریض ہے شہزاد نئیر کی شاعری امیجری کی شاعری میں سمجھتا ہوں کہ آج کے دور میں اگر نظم کی بات کی جائے تو شہزاد نئیر کی نظم بھی ویسی ہی پختہ نظر آتی ہے جیسی غزل ان کی شاعری سے چند پسندیدہ اشعار جو میرے پسند ہیں
دم بہ دم گردش دوراں کا گھمایا ہوا شخص
ایک دن حشر اٹھاتا ہے گرایا ہوا شخص
میں تو خود پر بھی کفایت سے اسے خرچ کروں
وہ ہے مہنگائی میں مشکل سے کمایا ہوا شخص
آپ دل جوئی کی زحمت نہ اٹھائیں جائیں
رو کے بیٹھا ہوں نہ اب اور رلائیں جائیں
حجرۂ چشم تو اوروں کے لئے بند کیا
آپ تو مالک و مختار ہیں آئیں جائیں
مرا نہیں تو وہ اپنا ہی کچھ خیال کرے
اسے کہو کہ تعلق کو پھر بحال کرے
نگاہ یار نہ ہو تو نکھر نہیں پاتا
کوئی جمال کی جتنی بھی دیکھ بھال کرے
ملے تو اتنی رعایت عطا کرے مجھ کو
مرے جواب کو سن کر کوئی سوال کرے
کلام کر کہ مرے لفظ کو سہولت ہو
ترا سکوت مری گفتگو محال کرے
وہ تن کا تماشائی رہا من نہیں دیکھا
دہلیز پہ آیا بھی تو آنگن نہیں دیکھا
اس سمت سمیٹوں تو بکھرتا ہے ادھر سے
دکھ دیتے ہوئے یار نے دامن نہیں دیکھا
دروازے پہ آ کر جو کسی نے بھی صدا دی
دل کھول دیا دوست کہ دشمن نہیں دیکھا
ندیم ملک