بڑے اصول بڑے ضابطے سے ملتا ہے
وہ جب بھی ملتا ہے اک فاصلے سے ملتا ہے
ترے خیال سے غزلیں کشید کرتا ہوں
ترا جمال مرے قافیے سے ملتا ہے
مرید بن کے عقیدت سے پیش آتا ہوں
مجھے جو شخص ترے واسطے سے ملتا ہے
کبھی جو ملتا تو بانہوں میں قید کر لیتا
ابھی ملے تو زرا فاصلے سے ملتا ہے
یہی بچا ہے تعلق بھی درمیاں اپنے
کہ تیرا رستہ مرے راستے سے ملتا ہے
دکاں کی جیسے کمائی مرمتوں میں لگے
مجھے خسارہ مرے فائدے سے ملتا ہے
لرزتے ہاتھ سے لکھا گیا سخن ہوں میں
مرا وجود کسی حاشیے سے ملتا ہے
جو سرمہ ڈال کر آتی ہے تیرے گھر میں کرن
اُسے وہ سرمہ مرے طاقچے سے ملتا ہے
نہیں ہے کوئی ضرورت کسی دوا کی مجھے
مجھے سکون مرے عارضے سے ملتا ہے
غزل سرائی کہاں سیکھنے سے آتی ہے
یہ وہ شعور ہے جو حادثے سے ملتا ہے
احمد آشنا