آپ کا سلاماردو نظمسلمیٰ سیّدشعر و شاعری

المیہ 

ایک اردو نظم از سلمیٰ سیّد

المیہ 

آگہی کا عذاب سہنے دو

جو بھی آتا ہےجی میں کہنے دو

بے ردائی کہوں یا گھونگھٹ ہے

صرف چہرے نقاب کے پیچھے

ایک امید کی کرن تھی کوئی

ٹمٹما کے بھی اب ہے بجھنے کو

بے لباسی کی کوئی تازہ شکل

احترام احترام کرتی ہوئی

یوں دکھاتی ہے اپنے چال چلن

ہے گماں یہ شریف زادی کوئی

آبرو کے شکستہ زینے پر

اوڑھنی سر سے جب گراتی ہے

اس کی آنکھوں میں ایک رات کے ساتھ

نسل سازی کے سارے عیب وہنر

بند کمروں کی بے نوا چیخیں

عصمتوں کے تمام نقش کہن

چند سکوں کے دام بکتے ہیں

اور معصومیت کے سارے گن

قید خانوں میں جا نکلتے ہیں

برہنہ بے کسی کی تفسیریں

کتنی مقبول ہیں شریفوں میں

پیٹ کی آگ سے سلگتے بدن

راحتوں کی فضاء کے ماتم گر

اپنی پرہول زندگی سے جڑے

دوبدو زندگی سے لڑتے ہوئے

ٹاٹ بھی مخملوں سے گھائل ہیں

ہے عجب پھر بھی سارے مائل ہیں

جلتی رنگین روشنی سے پرے

بوڑھی کھانسی کی ایک لمبی گلی

اس طرح نرم ماس کھاتی ہے

کتنی شبنم سی سرخ رو کلیاں

زر کی چادر تلے بلکتے ہوئے

اپنی سانسوں کو ہار جاتی ہیں

سلمیٰ سیّد

سلمیٰ سیّد

قلمی نام سلمیٰ سید شاعری کا آغاز۔۔ شاعری کا آغاز تو پیدائش کے بعد ہی سے ہوگیا تھا اسوقت کے بزرگوں کی روایت کیمطابق گریہ بھی خاص لے اور ردھم میں تھا۔۔ طالب علمی کے زمانے میں اساتذہ سے معذرت کے ساتھ غالب اور میر کی بڑی غزلیں برباد کرنے کے بعد تائب ہو کر خود لکھنا شروع کیا۔ناقابل اشاعت ہونے کے باعث مشق ستم آج تلک جاری ہے۔اردو مادری زبان ہے مگر بہت سلیس اردو میں لکھنے کی عادی ہوں۔ میری لکھی نظمیں بس کچھ کچے پکے سے خیال ہیں میرے جنھیں آج آپ کے ساتھ بانٹنے کا ایک قریبی دوست نے مشورہ دیا۔۔ تعلیمی قابلیت بی کام سے بڑھ نہ سکی افسوس ہے مگر خیر۔۔مشرقی گھریلو خاتون ایسی ہی ہوں تو گھر والوں کے لیے تسلی کا باعث ہوتی ہیں۔۔ پسندیدہ شعراء کی طویل فہرست ہے مگر شاعری کی ابتدا سے فرحت عباس شاہ کے متاثرین میں سے ہوں۔۔ شائد یہی وجہ ہے میری نظمیں بھی آزاد ہیں۔۔ خوبصورت شہر کراچی سے میرا تعلق اور محبت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button