منعقد کاش مجلس مل ہو
درمیاں تو ہو سامنے گل ہو
گرمیاں متصل رہیں باہم
نے تساہل ہو نے تغافل ہو
اب دھواں یوں جگر سے اٹھتا ہے
جیسے پرپیچ کوئی کاکل ہو
نہ تو طالع نہ جذب پھر دل کو
کس بھروسے پہ ٹک تحمل ہو
لگ نہ چل اے نسیم باغ کہ میں
رہ گیا ہوں چراغ سا گل ہو
ادھ جلا لالہ ساں رہا تو کیا
داغ بھی ہو تو کوئی بالکل ہو
طول رکھتا ہے درد دل میرا
لکھنے بیٹھوں تو خط ترسل ہو
ہوجو مجھ بادہ کش کے عرس میں تو
جبکہ قلقل سے شیشے کی قل ہو
دیر رہنے کی جا نہیں یہ چمن
بوے گل ہو صفیر بلبل ہو
مجھ دوانے کی مت ہلا زنجیر
کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر غل ہو
منکشف ہو رہا ہے حال میر
کاش ٹک یار کو تامل ہو
میر تقی میر