- Advertisement -

سیاہ جھیل سی آنکھیں

بینا خان کے ناول محبت سے محبت ہے سے اقتباس

آج کی صبح اس کے لیے بہت ہی خاص تھی اور آج وہ کسی بھی قیمت پہ لیٹ نہیں ہونا چاہتا تھا۔
وہ آفس پہنچا اور انٹرکام اٹھایا
” نبیل ہماری نئی امپلوئے مس روشانے آ گئی ہیں؟؟؟ ”
” جی سر”
” گڈ ان کو میرے آفس میں بھیجو اور مسٹر مراد حسن کو بھی”
” اوکے سر”
اب وہ بے صبری سے اس کا انتظار کرنے لگا اسے اس انتظار میں بھی مزا آرہا تھا
” مے آئی کم ان سر” ایک نسوانی آواز آئی
” یس کم ان” وہ سیدھا ہو بیٹھا وہ اندر آئی
آج وہ بے حد حسین لگ رہی تھی بلیک کلر کے ڈریس میں سیاہ گھنے بالوں کی پونی بنائے جیولری کے نام پہ صرف کانوں میں ائیررنگ اور ہاتھ میں بریسلیت پہنے میک اپ کے نام پر صرف نیچرل پنک لپسٹک لگائے اور آنکھوں میں کاجل ڈالے وہ بے انتہا حسین لگی۔
"بیٹھیں ” اس نے خود کو کمپوز کیا
” تھینک یو” وہ بیٹھی۔
کہ اتنے میں مسٹر مراد بھی آگئے
مس روشانے یہ مسٹر مراد حسن ہیں اور یہاں کے انچارج ہیں اور مسٹر مراد یہ مس روشانے ہیں اس کمپنی کی نیو امپلائے”
” مس روشانے یہ آپ کو یہاں کا سارا کام سمجھا دیں گے اور اگر پھر بھی کوئی پرابلم ہو تو آپ مجھ سے پوچھ سکتی ہیں”
” اوکے سر تھینک یو” وہ مسکرائی اور وجدان اس کی مسکراہٹ ہر مسکراہٹ سے خوبصورت لگی وہ اسے دیکھتا رہ گیا۔
**********
آج جینی اور روشنی آؤٹنگ پہ آئیں تھیں اور یہ آؤٹنگ کا پروگرام جینی نے صرف روشنی کے لیے پلان کیا تھا۔
وہ لوگ گھومنے پھرنے کے بعد ایک ریسٹورنٹ میں آئے آرڈر دے کر جینی پوچھنے لگی
” کیسا رہا آج کا دن ”
روشنی مسکرائی ” بہت اچھا جینی کیونکہ یہ تم نے میرے لیے کیا اور میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ اب صرف اپنے سے جڑے لوگوں کے لیے جیوں گی ماما بابا بھائی اور تم اب جو بھی ہے یہ ہی ہے”
” ہممم گڈ بٹ اپنے لیے بھی جیو کسی کی بے وفائی کا بدلا خود سے تو نہ لو ”
” ہممم ٹھیک کہتی ہو ”
پتا ہے جب بھی ماما بابا کی کال آتی ہے وہ مجھے پاکستان آنے کا کہتے ہیں بٹ میں نہیں جا سکتی”
” کیوں پاکستان کیا اس کا خریدا ہوا ہے جو تم اس کے منع کرنے پہ وہاں نہیں جاؤ گی”
” ایسی بات نہیں ہے وہ چاہتا تھا میں اس سے دور چلی جاؤں پتا اس نے مجھے کہا تھا کہ میں ایسے جزیرے پہ چلی جاؤں جہاں میرے علاوہ کوئی اور نہ ہو”
وہ پھر افسردہ ہونے لگی
” سو تم کیا اس کی وجہ سے اپنی فیملی چھوڑ دو گی ؟؟؟ پاگل ہو تم بالکل اور ہاں اب اداس ہونے کی ضرورت نہیں ورنہ اب کی بار میں نے ناراض ہو جانا ہے” وہ منہ بنا کے بولی تو روشنی مسکرائی "اوکے بابا نہیں ہوتی موڈ ٹھیک کرو اب تمہیں پتا نا مجھے منانا بالکل نہیں آتا ”
” تم نہ مناؤ پھر بتاتی میں تمہیں” وہ مسکرا کے بولی تو روشنی بھی مسکرادی۔
*********
وہ گھر آئی "اسلام و علیکم ماما بابا ”
"وعلیکم السلام ”
"کیسا رہا دن میری بیٹی کا” وہ جاوید آفندی کے پاس آکے بیٹھی تو وہ بولے
” بہت بہت اچھا بابا وہاں کا اسٹاف بھی بہت اچھا ہے ایک دو سے تو میری دوستی بھی ہوگئی اور باس بھی اچھی نیچر کے ہیں ” وہ تفصیلاً بتانے لگی تو ماما نے ٹوکا
” روشی جاکے فریش ہوجاؤ پھر باقی کہانی سنانا اٹھو شاباش”
"اوکے ماما” وہ فوراً اٹھی اور فریش ہونے چل دی۔
**********
روشانے جاوید آفندی اور شانزہ آفندی۔کی اکلوتی بیٹی تھی اس سے بڑا ایک بھائی تھا جو کہ آرمی میں تھا جاوید آفندی بھی آرمی میں کرنل کے عہدے پر فائز تھے اور اب ریٹائر ہوچکے تھے۔ روشانے بے حد خوبصورت تھی خاص کر اس کی سیاہ جھیل سی آنکھیں۔ سرخ و سفید رنگت، لمبے سیاہ ریشمی بال، اور خوبصورت سراپے کی مالک۔ وہ ظاہری طور پہ ہی نہیں باطنی طور سے بھی بہت خوبصورت تھی۔
**************
وعدے کے مطابق آج اسے وانیہ کو شاپنگ پہ لے کر جانا تھا وہ آفس سے آیا تو بےحد مسرور تھا۔ وانیہ اسے کب دے نوٹ کر رہی تھی وہ گاڑی میں آکے بیٹھی تو بولی
” کیا بات ہے بھائی بڑے خوش لگ رہے ہیں آج تو”
” آج سے مطلب میں تو ہمیشہ خوش رہتا ہوں”
” پر آج کچھ الگ ہے ”
” کیا الگ ہے ” وجدان ڈرائیو کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر بولا
” پتا نہیں پر۔۔۔۔۔۔ کچھ تو ہے”
” تم اپنے چھوٹے سے دماغ پہ زیادہ زور نہ دو اور چپ کر کے بیٹھو” وجدان نے کہا۔ وانیہ پھر منہ بنا کے بیٹھ گئی وجدان ہنس دیا۔
غزلیں شروع سے اس کی پسندیدہ رہی تھیں آج بھی وہ ایک پوئٹری بک کی ورک گردانی کر رہا تھا کہ محسن نقوی کے ایک شعر پہ اس کی نظریں رک گئیں
مجھے آج ایک اور بار دیکھ کے آزاد کر دے محسن
کہ میں تو آج بھی تیری پہلی نظر کی قید میں ہوں
وہ شعر اسے بہت بھلا لگا وجدان نے کئی بار اس شعر کو پڑھا اور ہر بار یہ شعر پڑھنے پر اسے وہ یاد آئی۔۔۔
آج روشانے کو آفس آتے ایک ہفتہ ہوگیا تھا اور تین دنسے اس سے بات بھی نہ ہو پائی تھی کیونکہ وہ آؤٹ آف سٹی تھا کل اس نے روشانے سے بات کرنے کا فیصلا کیا اور بیڈ پہ آکے آنکھیں موند لیں اسے پتا تھا کہ اب اس کا چہرہ اس اس کے خیالوں میںں آنا ہے اب تو اسے عادت ہوگئی تھی اسے یوں دیکھنے کی اسے یوں محسوس کرنے کی۔
**********
وہ صبح آفس آئی لنچ بریک ہونے میں ابھی آدھا گھنٹہ تھا کہ وجدان اس کے آفس میں آیا وہ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھی۔
” اسلام و علیکم سر ”
” وعلیکم السلام مس روشانے کیسی ہیں آپ؟؟؟”
” الحمداللٰہ سر بلکل ٹھیک ” وہ خوشدلی سے بولی اس کے ہونٹوں پر دل موہ لینے والی مسکراہٹ تھی۔
وجدان مسکرایا ” گڈ ”
” اس ایک ہفتے میں آپ نے اپنے آپ کو منوا لیا ہے بہت محنتی ہیں آپ ”
” تھینک یو سر ”
"ایک بات پوچھوں آپ سے؟؟؟” وجدان سوچ کے بولا
” جی سر”
"آپ کو اپنا آفس کیسا لگا؟؟؟”
"سر بہت اچھا۔۔۔”
” آپ کو اپنے آفس کے لوگ کیسے لگے؟؟؟”
"سر بہت اچھے۔۔۔ "وہ خوشی سے بولی
” آپ کو اپنے باس کیسے لگے؟؟؟”
” سر بہت اچھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی جی سر؟؟؟ وہ یک دم بوکھلائی
اس نے اپنی مسکراہٹ دبائی ” کچھ نہیں ” اور چل دیا پیچھے وہ بوکھلائی بوکھلائی سی اس جاتا دیکھتی رہ گئی۔۔۔۔۔۔۔
********
وجدان اپنے آفس روم میں آیا وہاں شہیر پہلے سے موجود تھا وجدان اپنی دھن میں مگن تھا کہ شہیر کھنکھارا تو وجدان چونکا
” تم کب آئے ” وہ ریوالونگ چئیر پہ بیزٹھتے ہوئے بولا
” جب آپ اس روم سے غائب تھے اور مزید اطلاع کے لیے عرض ہے کہ تمہیں تب سے نوٹ کرہا ہوں جب سے آپ چلتے ہو-مئے مراقبے میں پہنچے ہوئے تھے” وجدان جھینپا
"کیا تم بھی۔۔۔کہو کیسے آنا ہوا ”
” بس یار سوچا اپنے غدار یار کو یاد کر لوں جو کسی دوشیزہ کے پیچھے اپنے پرانے دوست کو بھول گیا ”
وجدان ہنسا ” تم کیا لڑکیوں کی طرح کمپلیکس کا شکار ہو رہے ہو”
” تو نہ ہوؤں؟؟؟ ”
” ہاں خود کی تو شادی ہونے والی ہے اور ہمیں روک رہا ہے”
” تو تو بھی کرلے نا منع کس نے کیا ہے تجھے بھجوادے رشتہ اس کے گھر پہ ”
” ابھی نہیں یار کچھ ٹائم بعد”
” وجدان تو سریس ہے اس ریلیشن کے لیے یا جسٹ فار انجوائیمنٹ لے رہا ہے”
” are u crazy shaheer???”
” تم جانتے ہو میری نیچر کو کہ میں نے کالج اور یونی کے زمانے میں بھی اس طرح کے کام نہیں کیے”
” میں یہ رشتہ دل سے نبھانا چاہتا ہوں رشتوں کے معاملے میں بہت ٹچی اور تھوڑا خودغرض بھی ہوں میں کہ جو میرا ہے وہ بس میرا ہے اور جو صرف میرا ہے اس کے اوپر پڑتی ہوئی ایک چھینٹ بھی برداشت نہیں کرسکتا”
” اور اگر وہ لڑکی کہیں اور انگیجڈ ہوئی تو؟؟؟”
” اس کے بارے میں کبھی سوچا نہیں میں نے نا میں سوچنا چاہتا ہوں”
” پھر بھی یار۔۔۔ اور اگر وہ کسی اور کو لائک کرتی ہو؟؟؟ اکثر لڑکیاں ہوتی ہیں جو امیر آدمیوں کو پھنسانے کے لیے ان سے چکر چلاتی ہیں اور۔۔۔۔”
” بس شہیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وجدان نے ہاتھ اٹھا کہ اسے چپ کروایا "وہ اور لڑکیوں جیسی نہیں ہے آئیندہ اس کے لیے کچھ بولنے میں احتیاط برتنا۔”
شہیر خاموش ہوگیا۔
**********

بینا خان

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
بینا خان کے ناول محبت سے محبت ہے سے اقتباس