میری زندگی کا سفر محرومیوں سے شروع ہوا۔
میں انور علی، ضلع لاڑکانہ کے تعلقہ قمبر کے ایک چھوٹے سے گاؤں راضی دِیرو میں 15 مارچ 1983 کو پیدا ہوا۔ راضی دِیرو ایک بہت ہی چھوٹا گاؤں تھا، صرف پندرہ گھر تھے۔ وہاں نہ کوئی سکول تھا، نہ علم کے حصول کے مواقع، اور بدقسمتی سے اندھی عقیدت کا راج تھا۔ لوگ مذہبی پیشواؤں کو اپنا مسیحا سمجھتے اور خود کو ان کے آگے جھکا دیتے۔ میں بچپن سے ہی ایسی غلامی سے نفرت کرتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ سب انسان برابر ہیں، پھر کچھ لوگوں کو دوسروں پر فوقیت کیوں دی جائے؟
میارا خاندان بھی اسی ماحول کا حصہ تھا، لیکن میرے والد علی گوہر (اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے) اس وقت سعودی عرب کے مقدس شہر مکہ میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ وہاں رہ کر انہیں تعلیم کی اہمیت کا ادراک ہوا۔ چنانچہ انہوں نے مجھے چند رشتہ داروں کے پاس بھیجا، جو موانجودڑو کے قریب گاؤں ٻلھڑيجی میں رہتے تھے۔
میں نے 1988 سے 1998 تک اپنی ابتدائی تعلیم ٻلھڑيجی، موئن جو دڑو سے حاصل کی۔ تعلیم کے لیے مجھے اپنا گاؤں چھوڑ کر وہاں جانا پڑا، لیکن اس سے میری سوچ کشادہ ہوئی اور مجھے دنیا کو ایک نئی نگاہ سے دیکھنے کا موقع ملا۔
ٻلھڑيجی میں تعلیم کے دوران ایک المیہ پیش آیا۔ میرا پورا خاندان شیخ ذات سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ صرف بلھڑجی کے رشتہ دار ماچھی/سولنگی ذات کے تھے۔ چونکہ 1988 میں اساتذہ سرٹیفیکیٹ پر ذات درج کرتے وقت انہیں یہی ذات دکھائی دیتی تھی، میرے تعلیمی سرٹیفیکیٹ پر بھی ماچھی/سولنگی لکھا گیا۔
اس بات نے بہت سے سوالات اور بحثیں جنم دیے، اور کچھ کم فہم لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ موئن جو دڑو ہائی اسکول میں ایک استاد ہر بار کلاس میں آکر پوچھتا: "تم ماچھی ہو یا شیخ؟” اور سب ہنستے۔ ایک چھوٹا بچہ ہونے کی وجہ سے مجھے برا لگتا اور میں اسکول کم آنے لگا۔
میں آٹھویں کلاس تک ہمیشہ پوزیشن ہولڈر رہا، لیکن اس استاد کے رویے اور ذات کے سوالات نے میری پڑھائی سے دل اُٹھا دیا۔ نائن اور ٹینتھ کلاس میں میں صرف نام کا سکول جاتا رہا اور محنت ادھوری رہ گئی۔ بعد میں 2009 میں جب مجھے مکلی میں نیا موقع ملا، تو میں نے دوبارہ پوری لگن سے محنت جاری رکھی اور وہاں بھی پوزیشن ہولڈر رہا۔ میں نے اس واقعے کو ایک آرٹیکل میں تفصیل سے بیان کیا تها ۔
یہ صرف ذاتی کہانی نہیں، بلکہ ایک اہم سماجی و نفسیاتی نکتہ بھی واضح کرتی ہے: استاد کا رویہ اور معاشرتی تعصب تعلیم پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ ایک ذہین اور پسماندہ معاشرے میں ذات کی بنیاد پر تفریق طالب علم کی نفسیات کو دبا سکتی ہے، اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا سکتی ہے اور صلاحیت کے اظہار میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
اب اس بات کا کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ مجھے سمجھ آگئی ہے کہ ذات پات کا کوئی فرق نہیں، انسان کی اصل شناخت اس کے ارادوں اور کردار سے ہوتی ہے۔
1996 میں ذات پات کے جھگڑوں کے باعث ہمارا خاندان اپنا گاؤں چھوڑ کر خیرمحمد اریجا تعلقہ باقرانی منتقل ہوا۔ اس وقت تک میں آٹھویں جماعت پاس کر چکا تھا اور محسوس کیا کہ یہاں بھی میرے رشتہ دار اور پڑوسی تعلیم سے ناواقف ہیں۔ تب میرے ذہن کا دروازہ کھلا: ہم دنیا سے کیوں پیچھے ہیں؟ بنیادی وجہ کیا ہے؟ سمجھ آیا کہ دوسری قومیں ترقی کی راہ پر ہیں کیونکہ وہ تعلیم یافتہ اور باشعور ہیں۔
2003 میں میں نے سروے فیلڈ جوائن کیا۔ اس دوران میں نے بہت سے لوگوں سے ملاقات کی—کچھ مثبت سوچ کے حامل، کچھ منفی۔ پھر میں نے دنیا کو سمجھنا شروع کیا: قومیں کیسے ترقی کرتی ہیں، کامیاب لوگ کون سے اصول اپناتے ہیں، اور علم انسان کو کتنی بیداری دیتا ہے۔ میں نے موٹیویشنل کتابیں پڑھیں، رہنماؤں کی کہانیاں سنی، اور کامیاب لوگوں کے قصے سمجھنے کی کوشش کی۔
میرے خاندان میں پہلے کوئی بھی پڑھا لکھا نہ تھا۔ میں نے ٹھان لیا کہ سب سے پہلے خود کامیاب بنوں، پھر اپنے خاندان کی تعلیم کا خیال رکھوں۔ جب میرے بہن بھائیوں کے بچے چھوٹے تھے تو میں نے انہیں پڑھانا شروع کیا، حوصلہ دیا کہ بڑے خواب دیکھیں۔ اور اب 2025 تک میرا پورا خاندان تعلیم یافتہ ہو چکا ہے۔
میری بڑی بہن کے بیٹے سراج علی نے 2015 میں سندھ یونیورسٹی سے ریاضی میں داخلہ لیا اور 2020 میں گریجویشن مکمل کر کے گریڈ 14 میں پرائمری اسکول ٹیچر بنے۔
میری دوسری بہن کے بیٹے امجد علی نے 2024 میں قائدِ عوام یونیورسٹی نوابشاہ سے آئی ٹی میں گریجویشن کی اور اب زیبسٹ کالج لاڑکانہ میں عارضی استاد ہیں۔ اصغر 2025 میں گریجویشن مکمل کریں گے اور سمران بھی گریجویشن کر رہا ہے۔
میرے دونوں بیٹے بھی تعلیم کی راہ پر ہیں: عدیل احمد قائدِ عوام یونیورسٹی سے کیمیکل انجینیئرنگ کے آخری سال میں ہے، اور عادل حسین ماحولیات میں دوسرے سال میں۔
میرے ذہن میں ہمیشہ یہی خیال رہتا تھا: اگر میں خود کو بدل سکتا ہوں تو دوسروں کے لیے بھی کچھ کر سکتا ہوں۔ میں نے پڑھا تھا کہ انقلاب ہمیشہ خود سے شروع ہوتا ہے، پھر خاندان، پھر پڑوس اور اس کے بعد جہاں تک ممکن ہو۔ یہی میری چھوٹی سی کوشش ہے کہ میں کچھ الگ کروں۔
2019 میں میں نے اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ان بچوں کے لیے کچھ کرنے کا ارادہ کیا جن کے پاس نہ وسائل تھے، نہ راستہ، نہ رہنما۔ میں نے خواب دیکھا کہ ایک فاؤنڈیشن بناؤں تاکہ انہیں مفت تعلیم کے ساتھ مستقبل کے لیے حوصلہ افزائی بھی ملے۔
بدقسمتی سے کوئی مدد نہ ملی—جو لوگ وعدے کرتے تھے، وہ پورا نہیں کرتے تھے۔ لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ آخرکار اکتوبر 2022 میں میں نے "Growing Wings Foundation” کی بنیاد رکھی۔
شروع میں صرف میرے خاندان کے 25–30 بچے تھے، لیکن آج اپریل 2025 تک 275+ بچے اس فاؤنڈیشن سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ان میں سے صرف 15–20 بچے فیس دیتے ہیں، باقی سب کے لیے تعلیم مفت ہے۔ یہاں 130+ لڑکیاں اور 145+ لڑکے شامل ہیں۔
میرا خواب ہے کہ میں ان بچوں کے لیے روشنی کا چراغ بنوں جنہیں علم کا راستہ نظر نہ آئے۔ میں ہمیشہ محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے گاؤں سے کوئی کامیاب ہوتا ہے تو لاڑکانہ، حیدرآباد یا کراچی چلا جاتا ہے، لیکن گاؤں کی حالت کا کون خیال کرتا ہے؟
تو یہ کوشش میں نے خود سے شروع کی۔
"اس دنیا میں آنے کا اصل مقصد دوسروں کے لیے جینا ہے۔”
میں نے ارادہ کیا ہے کہ ان غریب بچوں کو ایک اچھا، باصلاحیت اور ذمہ دار انسان بناؤں جو مستقبل میں معاشرے کے لیے بہترین کردار ادا کریں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ جب نیت صاف، مقصد سچا اور ارادہ نیک ہو تو اللہ کی مدد ضرور ملتی ہے۔
"ہمت مردا، مدد خدا!”
مجھے امید ہے کہ میری انسانیت کے لیے کی گئی کوشش میں نیک دل دوست اور ہمدرد میرا ساتھ دیں گے۔
انور علی