- Advertisement -

جاگتا رہتا ہوں اور کھڑکی کھلی رہتی ہے

مقصود وفا کی ایک اردو غزل

جاگتا رہتا ہوں اور کھڑکی کھلی رہتی ہے

کیا خوشی ہے کہ مصیبت ہی پڑی رہتی ہے

اتنی دیواریں گرا کر بھی یہی دیکھا ہے

ایک دیوار مری رہ میں کھڑی رہتی ہے

باغ میں بکھرے ہوئے رنگ بہت ظالم ہیں

بعض گوشوں میں تو ویرانی پڑی رہتی ہے

ہجر میں وصل کے پھل پھول کھلے رہتے ہیں

شاخ بچھڑے ہوئے موسم سے بھری رہتی ہے

ایک ویرانہ ہے جو شہر کو کھا جاتا ہے

ایک بستی ہے جو جنگل میں بسی رہتی ہے

اب وہ خوش چہرہ سی خاتون کہاں پر ہوگی

فکر سی کوئی مرے جی کو لگی رہتی ہے

حد سے بڑھتی ہوئی وحشت بھی عجب شے ہے وفاؔ

میرے چہرے پہ کسی غم کی ہنسی رہتی ہے

موسم گریہ گزر جاتا ہے مقصود وفاؔ

میری دیوار پہ بارش کی نمی رہتی ہے

 

مقصود وفا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
مقصود وفا کی ایک اردو غزل