سُن تو سہی شکستگی جس میں بلا کی ہے
وہ بازگشت ساری تو اپنی صدا کی ہے
کس کس کے دل چمن میں لہو رنگ ہیں گلاب
کس کس کی خاک میں ابھی خوشبو وفا کی ہے
یہ حسنِ کائنات تو مٹتا چلا گیا
تصویر دل پہ نقش جو ا پنی انا کی ہے
یہ بھاگ دوڑ ساری یہ ہنگامِ صبح و شام
یہ جنگ جس قدر ہے وہ اپنی بقا کی ہے
دشمن کی ہے عطا مرا زخموں کا پیرہن
یہ روح پر جو چوٹ ہے دستِ وفا کی ہے
موقع ملا تو وار کرے گی یہ بادِ تُند
جلتا ہوا دیا جو علامت ضیا کی ہے
یہ کون ہے جو درد پہ میرے ہے مضطرب
لایا یہ کون حبس میں ٹھنڈک ہوا کی ہے
اکرم کنجاہی