آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعریمحمود کیفی

یہ کوئی داستاں نہیں

ایک اردو غزل از محمود کیفی

یہ کوئی داستاں نہیں ، یہ کوئی ماجرا نہیں
پیار کی اِنتہا نہ کہہ ، پیار کی اِنتہا نہیں

کون ہے مجھ میں سوچتا ، کون ہے مجھ میں بولتا
کِتنا عجیب شخص ہوں ، خود سے بھی آشنا نہیں

راز ہے میری زندگی ، راز ہے میری موت بھی
عُمر تمام ہو گئی ، راز مگر کھُلا نہیں

وہ مجھے ڈھونڈتا رہا ، میں اُسے ڈھونڈتا رہا
میں اُسے مِل سکا نہیں ، وہ مجھے مِل سکا نہیں

مجھ پہ پڑی مُصیبتیں میرے عمل کے ہی سبب
مجھ پہ کرے گا ظُلم وہ ، ایسا مِرا خُدا نہیں

قلب ہے میرا ایک گُل ، یاد ہے تیری بُوئے گُل
ہاں گُل و بُو کے درمیاں کوئی بھی فاصلہ نہیں

رنج تھا یہ کہ دوست نے میرا مزاق اُڑایا تھا
خُوش ہوں کہ میرے حال پر میرا عدُو ہنسا نہیں

جِتنے پُرانے دوست تھے چہرے سبھی کے یاد ہیں
نام بھی رکھتا یاد میں ، اِتنا تو حافظہ نہیں

یارو قرارِ قلب کو ڈھونڈو نہ مال و زر میں تُم
دُنیا کے مال نے کبھی سُکھ کسی کو دِیا نہیں

کِتنے ہی شعر کہہ گیا ، پھر بھی ہے کیفی کہہ رہا
یہ تو سُخن کی مشق ہے ، شعر ابھی ہُوا نہیں

( محمود کیفی )

محمود کیفی

" مختصر تعارف " شاعر : محمود کیفی نام : محمودالحسن ولدیت : ظفراقبال تاریخ پیدائش : 23 فروری 1986ء گاؤں : گھُمنال ضلع : سیالکوٹ تحصیل : پسرور شعری مجموعے : " اِقرار محبت کا " اشاعت 2011ء / " کیفیت " اشاعت 2014 ء ۔ سینئر نائب صدر : بزمِ دوستانِ ادب سیالکوٹ ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button