- Advertisement -

فرانس کے مشہور مصور

ہنری روسو عادی مجرم تھے

ہنری جولین فیلکس روسو کو چہروں کے انتہائی بھونڈے اور مکروہ شخصیت کے عکاس پورٹریٹ بنانے سے شہرت ملی

مصور ہنری روسو 21 مئی 1844ءکو پیدا ہوئے تھے اور 2 ستمبر 1910ءکو ان کا انتقال ہوا۔ ان کا برج جوزا تھا اور ان کی قومیت فرانسیسی تھی۔ ان کی مصوری کا نمایاں فن پارہ سلیپنگ جپسی تھا۔ یہ فن پارہ اس نے 1897ءمیں تخلیق کیا تھا۔ ہنری روسو کا طرز مصوری کینوس پر روغنی مصوری یا آئل پینٹنگ تھا۔ ان کا مصوراتی طرز تصنع سے پاک پُرتکلف ماحول کی پیداوار ہے۔ اس کی روغنی تصاویر یا آئل پینٹنگز میوزیم آف ماڈرن آرٹ نیویارک میں آویزاں ہیں۔ مصور ہنری روسو کا مشہور مقولہ تھا ”مجھے تصویر بنانے، خاکہ کھینچنے، شبیہ اتارنے اور ہر شے کی ہو بہو نقل اتارنے کا فن لازماً سیکھنا چاہیئے“۔

ہنری روسو اپنے دور کے فرانسیسی آرٹ سکھانے والے انسٹی ٹیوٹس سے دور رہے اور روایتی مصوری کے برعکس انہوں نے اپنے فن کو دھیمی رفتار سے لگاتار محنت کرکے ترقی دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پیرس میں ان کا اپارٹمنٹ جس طرح شہر کی آبادی سے بالکل الگ تھا، بالکل اتنا ہی فاصلہ انہوں نے اس دور کے آرٹسٹک خیالات سے بھی رکھا ہوا تھا۔

روسو انتہائی خلاف معمول اور انوکھی تخلیقات پر توجہ دیتے تھے۔ وہ خود اپنا استاد تھے۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں سے دنیا بھرکو حیران و ششدر کر دیا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ انہوں نے کبھی بھی آرٹ کی کوئی ایک کلاس بھی نہیں لی تھی اور اپنی مصوری اور فن پارے تخلیق کرنے کا کام بھی اس وقت شروع کیا تھا کہ جب ان کی عمر چالیس برس ہوگئی تھی، لیکن ان کے فن پاروں نے شائقین کو حیرت زدہ کر دیا اور ان کی پینٹنگز سے پبلو پکاسو جیسے انقلابی آرٹسٹ تک متاثر ہوئے۔ یوں ہنری روسوکے فقید المثال فن پارے اور ان کے ویژن نے میوزیم میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا۔

ہنری روسو شمالی فرانس کے شہر لاول میں 1844ء میں پید ہوئے۔ 1863ء میں انہوں نے ایک مقامی لاءآفس میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے بعد انہوں نے ملٹری سروسز میں بھی کام کیا۔ ہنری کے مداحوں نے ان کے آرمی کیریئرکو بھی رومانٹک قرار دیا اور ان کی نوساختہ اور انوکھی مہماتی فن پاروں کی سیریزکو بہترین قرار دیا۔ ہنری روسو نے دراصل ریجنل ٹریننگ کے غیر معروف مناصب پر چار برس تک کام کیا اور 1868ء میں ان مناصب سے فارغ ہونے کے بعد وہ پیرس پہنچ گئے، جہاں انہوں نے بیلف کے کلرک کی حیثیت سے کام کیا اور کلیمنسس بوئیٹارڈ سے شادی کرلی۔

اس نوجوان جوڑے کو فرانس اور یوریشیا کے درمیان جنگ چھڑ جانے سے بہت سی مشکلات کا سامنا رہا اور پیرس کے محاصرے کے دوران خوراک اور ایندھن کی بے حد قلت پیدا ہو گئی۔ اس دوران ان کا پہلا بچہ مر گیا۔ جنگ کے بعد روسوکو پیریسٹین کسٹمز سروس میں جاب مل گئی جس کے بعد روسو کو ان کے دوست Le Lovanice یعنی کسٹم ایجنٹ کہنے لگے۔

روسوکو نچلے طبقے سے جس چیز نے علیحدہ رکھا، وہ ان کی تخلیقی صلاحیت تھی۔ انہوں نے غیر پیشہ ور شوقین وائلنسٹ کی حیثیت سے 1885ء میں فرنچ میوزک اکیڈمی سے ڈپلومہ حاصل کیا۔ روسو نے متعدد ڈرامے بھی لکھے، جن میں A Visit to the 1889 World Fair قابل ذکر ہے، لیکن روسو کو ان سارے کاموں کے باوجود سب سے زیادہ دلچسپی پینٹنگ سے تھی۔ انہوں نے خود ہی پینٹ اور کینوس خریدے اور کسی بھی نوعیت کی کسی سے کوئی ٹریننگ لیے بغیر ہی فن پارے تخلیق کرنا شروع کر دیئے۔ انہیں اپنی صلاحیتوں پر بے حد اعتماد تھا۔

انہوں نے1886ء میں سرکاری کنٹرول سے آزاد نمائش میں اپنے چار فن پاروں کی نمائش کی۔ سرکاری کنٹرول سے آزاد فن پاروں کی نمائش کی راہ، ایک سال قبل ہی آرٹسٹوں کی بھرپور کوششوں کے نتیجے میں ہموار ہوئی تھی۔ اس تحریک میں ممتاز آرٹسٹ جارج سیورٹ بھی شامل تھے۔ دراصل یہ فن پاروں کی نمائش کے حوالے سے سرکاری جکڑ بندی کے خلاف ایک تحریک تھی۔ یوں ہنری روسوکو اپنے فن پارے ایسی آزاد نمائش میں رکھنے کا موقع ملا کہ جہاں حکومتی نقادوں نے اس کے فن پاروں کی تعریف کی۔ اس نمائش میں سالانہ ایک معمولی فیس دینے کے بعد ہر ایک کو اپنے فن پاروں کی نمائش کی اجازت تھی۔

1890ء میں روسو نے اپنے سب سے اہم موضوع "The Jungle” پر فن پارے تخلیق کیے۔ ان فن پاروں کو حیرت انگیز قرار دیا گیا۔ ایک فن پارے میں غضب ناک شیرکی عکاسی کی گئی تھی اور اس پینٹنگ میں غراہٹ کے سبب اس کے دانت صاف نظر آ رہے تھے۔ اس پینٹنگ میں شیر کے اردگرد کانٹے دار پتوں، ہوا میں لہراتی گھاس اور درختوں کی قطاروں کے ذریعے ہوبہو جنگل کی عکاسی کی گئی تھی۔ روسو نے اس مقصد کیلئے پیرس کے بوٹنیکل گارڈن میں کئی گھنٹے گزارے تھے۔

اپنی پینٹنگز میں روسو نے پودے، جھاڑیاں، درخت اور سرسبز و شاداب قطعات کے علاوہ جنگلی درندے بھی دکھائے تھے۔ انہوں نے جنگل کے مناظر پر مشتمل درجنوں فن پارے تیار کیے تھے اور ان میں سے متعدد فن پاروں میں جنگل کے حسین مناظر کے پس منظر میں درندوں کی اس طرح عکاسی کی گئی تھی کہ ان پر نظر ڈالتے ہی بعض اوقات خود روسو بھی خوفزدہ ہو جاتے تھے۔

روسو کی سب سے مشہور پینٹنگ یا فن پارہ ان کے باقی کام کے مقابلے میں غیر معمولی استثنیٰ اور قابل ذکر امتیاز کا حامل ہے۔ یہ فن پارہ اتنا خلاف معمول اور انوکھا ہے کہ اس کے بارے میں یہ افواہ اڑا دی گئی تھی کہ اس فن پارے کی تخلیق دراصل جعلسازی ہے۔

(1897 The Sleeping Gypcy) میں ایک سیاہ فام خاتون کی عکاسی کی گئی ہے، جس نے رنگ برنگی پٹیوں سے بنا گاﺅن پہن رکھا ہے، وہ زمین پر سو رہی ہے اور ایک شیر جس کی دم کافی لمبی اور طرحدار ہے، اس سوئی ہوئی عورت کو سونگھ رہا ہے جبکہ پس منظر میں پہاڑیاں اور ویران جنگل دکھایا گیا ہے۔ یہ ویران جنگل روسوکے عمومی جنگل کے بالکل متضاد ہے، لیکن رنگوں کے بہترین امتزاج نے اس فن پارے کو بھرپور تاثرات سے آراستہ کردیا۔

1888ء میں روسوکی بیوی کلیمنس کا انتقال ہو گیا، جس کے نتیجے میں ان پر اپنی کم سن بیٹی کی پرورش کا بوجھ بھی آن پڑا۔ روسو کے آٹھ بچوں میں سے یہ واحد بیٹی تھی جو سن شعور کو پہنچی۔ 1893ء میں روسوکسٹم کی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوگئے اور انہیں بہت قلیل پنشن ملنے لگی۔ جبکہ وائلن سکھانے کے عوض انہیں جو کچھ ملتا تھا، اس سے ان کا گزارا ہونے لگا۔

1899ء میں روسو نے جوزیفائن نوری نامی ایک بیوہ سے شادی کر لی۔ انہوں نے سرکاری مقابلوں میں شرکت کرکے بھی کچھ کمانے کی کوشش کی، لیکن ان کی قسمت نے کبھی یاوری نہ کی۔ خوش قسمتی سے ان کے پیرس کے پڑوسیوں نے فیملی ممبرز کے پورٹریٹ بنانے کے لیے انہیں معاوضے کے طور پر پیشگی ہی کچھ رقم دے دی، لیکن روسو نے جو پورٹریٹ بنائے ان میں سختی کا تصور شدید تھا۔ تاہم وہ اسے سراہنے پر مجبور تھے۔ اگرچہ پڑوسی اپنے پسندیدہ پورٹریٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے، لیکن اب روسو نے چہروں کے انتہائی بھونڈے پورٹریٹ بنانے شروع کر دیئے۔ یہ پورٹریٹ افراد کی شخصیت کی عکاسی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

اگر “اوانٹگریڈ” کے مصوروں نے اچانک روسوکو صدی کے ایک اہم موڑ پر دریافت نہ کیا ہوتا تو شاید روسو گمنامی میں ہی مر جاتے۔ ہوا یوں کہ ممتاز مصور پبلو پکاسو نے ردی کی ایک دکان میں ڈھیر کی صورت میں رکھے روسوکے فن پاروں کو دیکھا تو ایک فن پارے میں انہوں نے دلچسپی کا اظہار کیا۔ ردی کی دکان والے نے انہیں یہ پینٹنگ بہت ارزاں قیمت پر دے دی اور کہا کہ جناب آپ اس پر جو چاہیں پینٹ کر سکتے ہیں۔ ان سے کافی پہلے پکاسو اور اس کے بوہیمیا کے دوستوں نے روسو کے اسٹوڈیوکو دیکھا ہوا تھا۔ انہوں نے جب روسوکے فن پارے دیکھے تو انہیں وہ بے حد پسند آئے اور انہوں نے روسوکے تصنع سے پاک اور روایتی طرز سے ہٹ کر سادہ فن پاروں کو آزاد مصوری قرار دے کر ان کی قدرو منزلت بڑھا دی۔

بہرحال 1910ء میں ایک آزاد و خودمختار فن پاروں کی نمائش میں روسو نے بڑے کینوس پر بنائی گئی اپنی ایک پینٹنگ رکھی، جسے ان کے نوجوان دوستوں نے بہت سراہا۔ مگر انہیں جب نئی شہرت ملی، اس کے بہت ہی کم عرصے بعد اسی موسم خزاں میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کی ٹانگ میں جو زخم آیا تھا وہ ناسورکی شکل اختیار کر گیا اور وہی ان کی موت کا سبب بن گیا۔ روسوکے دوستوں اور بہی خواہوں نے ان کی یاد کو باقی رکھنے کے لیے ان کا ایک مقبرہ بنایا۔

ہنری روسو کی زندگی کے دوسرے پہلو بھی ہیں جن میں ان کی مجرمانہ سرگرمیاں شامل ہیں۔ انہوں نے ابتدا میں جس قانونی فرم میں شمولیت اختیار کی تھی، وہ اسکول سے نکالے جانے کے بعد ایک نوجوان کی حیثیت سے ان کا پہلا کام تھا، لیکن یہاں سے انہوں نے نقد رقم اور بڑی تعداد میں مہریں چوری کر لیں، جس پر1846ءمیں انہیں کچھ عرصے کی جیل بھی ہوئی تھی اور پھر رضاکار بننے پر جیل سے نکال کر فوجی خدمات ان کے سپردکردی گئی تھیں۔

اس کے کئی برس بعد 1907ء میں انہوں نے دوسرا مجرمانہ کام کیا۔ اس بار وہ ایک بینک فراڈ میں ملوث تھے۔ انہوں نے بینک میں ملازمت کرنے والے اپنے ایک دوست کی مدد سے مجرمانہ اسکیم بنائی اور ایک جعلی نام سے بینک اکاﺅنٹ کھولا اور جعلی بینک سر ٹیفکیٹ حاصل کیے۔ یہ جرم بھی جلد ہی فاش ہو گیا اور انہیں دوبارہ جیل جانا پڑا۔ روسو کے وکیل نے ان کی سادہ لوحی کو بنیاد بنایا اور عدالت میں یہ موقف اپنایا کہ انہیں ان کے دوست نے بے وقوف بنایا تھا۔ جیوری نے اس کہانی پر یقین تو نہیں کیا۔ تاہم ان پر جرمانہ عائد کر کے باقی سزا معطل کر دی۔ اس قسم کے جرائم وہ کرتے رہتے تھے، اسی لئے انہیں عادی مجرم کہا جاتا تھا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از سلیم فائز