آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزعابد ضمیر ہاشمی

غزہ میں رمضان

قیامت اور اُمت کی بے حسی!

اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر اپنے فضل و کرم سے ہمیں رمضان المبارک کا برکتوں‘ سعادتوں اور بے پناہ رحمتوں والا مہینہ نصیب فرمایاہے۔ ماہِ رمضان المبارک میں جہاں اور بہت سی سعادتوں کا نزول ہوتا ہے وہیں پر اللہ تعالیٰ مومنوں کے دِلوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی و محبت کا جذبہ بھی بڑھا دیتے ہیں۔ حدیث میں رحمت العالمین ﷺنے اسے ”شھرالمواساہ“ ہمدردی کا مہینہ کہا ہے۔ ہمدردی کا مطلب اپنے نفس کو مارنا اور غربا‘ فقراء اور نادار لوگوں کا خیال رکھنا ہے‘تاکہ ان کی سحری و افطاری بھی قدرے اچھی ہو سکے اور وہ نعمتیں جو مالدار طبقہ کو قدرت نے نصیب فرمائیں ان سے غرباء کا دستر خوان بھی سج سکے۔
اُمت مسلمہ جسد ِ واحد کی مانند ہے۔ لیکن ہمیں رمضان المبارک جیسے غمخواری کے مقدس ماہ میں بھی غزہ‘ فلسطین‘مقبوضہ کشمیر میں ان بے بسوں کی آہیں کیوں سنائی نہیں دیتیں۔ فلسطین‘جہاں قرآن کی تلاوت کے لیے کوئی گھر رہا نہ تراویح کی محافل سجانے کے لئے مساجد باقی رہیں‘ نہ ہی خاندان باقی رہے‘ نہ ہی سحر و افطار کی پر رونق محافل سجانے والے یار دوست اور رشتہ دار باقی رہے۔
اسرائیلی حملوں‘ گنوں کی گن گرج‘ گولہ باری اور فائرنگ کے خوف کے باوجود فلسطینیوں نے رمضان المبارک کی آمد کی خوشی منانے کی کوششیں تو کیں‘ لیکن ہر چہرہ درد اور کرب سے دوچار‘ ہر آنکھ اشکبار ہے۔ گزشتہ رمضان کی خوشیاں سمیٹنے والا ہر ایک خاندان اپنے پیاروں کو اسرائیلی بمباری میں کھو چکا ہے۔غزہ کے دِل چھلنی کرنے والے الفاظ بھی ہمیں جگانے میں ناکام ہیں‘تو پھر شاید ہم کبھی نہ جاگ سکیں۔ غزہ سے اُٹھتی آوازیں‘ یا اللہ اب تیرے سوا کوئی بھی نہیں رہا ہے۔کوئی جو ہماری مدد کرے اور اَب ماہِ مقدس میں جب غزہ کی رہائشی چھ بچیوں کی ماں سے سوال پوچھا گیا کہ ’آپ اس سال رمضان کی تیاری کیسے کر رہی ہیں؟تقریباً ایک منٹ کی خاموشی کے بعد انھوں نے مختصر جواب دیا کہ ’کاش اس سال غزہ میں رمضان نہ آتا۔سہام نے کچھ دیر سانس روکی‘ پھر گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’رمضان کیسے آ سکتا ہے جب ہم اس حالت میں ہیں اور ہم کھا، پی بھی نہیں سکتے؟‘۔
ایک طرف بھوک اور جنگ میں گھِرے فلسطینیوں نے رمضان کا آغاز خوف و ہراس کی فضا میں کیا ہے تو دوسری طرف بیت المقّدس کے اطراف سخت حفاظتی اقدامات کے ساتھ اسرائیلی پولیس کی بھاری نفری تعینات کی جا رہی ہے۔ بہت سے فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے‘ جو کہ اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
مقبوضہ کشمیر‘ غزہ میں قیامت سا منظر ہے‘ اقوام عالم کی روایتی بے حسی تو ہے ہی لیکن اس وقت ساری دُنیا میں اُمت مسلمہ پُر آشوب دور سے گزر رہی ہے‘ ہر جگہ انہیں ذلیل وخوار کیا جارہاہے‘ پوری اُمت کمزوری ولاغری‘ انحطاط وپسپائی اورعاجزی وبے بسی کی علامت ہے۔ ایک وقت تھا جب مسلمان تصور تک نہیں کرسکتا تھا اورنہ پوری اسلامی تاریخ میں مسلمانوں نے کبھی اتنی ذلت اٹھائی تھی اورنہ وہ اس قدر کمزور ولاچار اورعاجز وبے بس ہوئے تھے۔
مسلمانوں کو ہر جگہ نشانہ بنارہا ہے‘سب کے سب مسلمانوں کے شیرازے کو منتشر کرنے ہمارے جسم کے ٹکڑے کرنے‘ ہماریتانے بانے کو بکھیرنے‘ ہماری ہڈیاں توڑکر اپاہج بنانے اور بے جان کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں تاکہ مسلمان اس قدر کمزور ولاغر اورناتواں وبے بس ہوجائے کہ وہ کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہوسکے‘ہم کبھی اپنی عظمت رفتہ کو واپس لانے کا تصور تک نہ کرسکیں۔ہر میدان میں مسلمانوں کو نشانہ بنایاجارہا‘ہمارا شیرازہ منتشر ہوچکاہے‘بے حسی‘ بے بسی اورلاغری ہم پر مسلط ہوچکی ہے‘بزدلی عفریت کی طرح چھاچکی ہے‘ہماری باتیں بے وزن‘ دبدبہ ختم ہوچکاہے‘ ہوا اکھڑ چکی ہے اوراس کی جگہ ہم ذلیل سے ذلیل‘کمزور سے کمزور اورملعون سے ملعون قوموں کی ہیبت بیٹھ چکی ہے‘ہم دوسروں سے مرعوب ہوچکے ہیں۔
اس کمزوری وپسپائی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی کتاب‘اپنی شریعت‘اپنے رب کے احکام اوررسول للہﷺ کی سنت وتعلیمات سے منہ موڑ لیاہے‘ ہم قوم‘ قبیلوں میں بٹ گئے اورپھوٹ وانتشار کا شکار ہوگئے ہیں جبکہ ہمیں معلوم تھا کہ اتحاد واتفاق کمزوروں کو بھی طاقتور بنادیتا اورطاقتوروں کی قوت کو دوبالا کردیتاہے۔
اتحاد ہی کسی قوم کی سر بلندی کا ذریعہ ہوا کرتاہے‘ مسلمانوں کی عزت وسربلندی بھی اسی اتحاد واتفاق کی مرہون منت ہے۔ اینٹ خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو اوراس کی تعداد لاکھوں میں کیوں نہ ہو اگر منتشر اوربکھری ہوتی ہے تو کمزور ہے‘ معمولی سے معمولی شخص بھی اسے اِدھر سے اُدھر اٹھاکر پھینک سکتا اوراسے توڑ کر ریزہ ریزہ کرسکتاہے، مگر یہی اینٹیں اگر دیوار میں چن دی جائیں تو وہ آپس میں مل کر اتنی مضبوط ہوجاتی ہیں کہ اسے توڑنا اورمنہدم کرنا آسان نہیں ہوتا۔اسے توڑنے کیلئے بڑے بڑے بلڈوزوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ اسی کو رسول اللہﷺ نے مثال سے سمجھایا اورفرمایاہے: ”مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کا بعض حصہ دوسرے بعض کو تقویت دیتاہے۔“ اسے فرمانے کے بعد رسول اللہ نے اپنی دونوں ہاتھ کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا۔

آج نفاق نے ہماری جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔اس لئے ہم پر زمین تنگ کردی گئی۔عراق پر امریکی اور اس کے اتحادی افواج کا سلسلہ ظلم و ستم جاری ہے۔ افغانستان پر استعمار قابض ہے۔ افریقہ کے مسلم ممالک عالمی طاقتوں کے ہاتھوں بے بس ہیں۔ نائجیریا‘ مالی‘ تیونس‘سوڈان‘مصر‘ مراکش وغیرہا سازشوں کے نرغے میں ہیں۔ یمن میں بد امنی ہے اور خود ہمارا اپنا ملک پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردی کا شکار ہو رہا ہے۔ بے روزگاری‘ غربت‘ مہنگائی‘ رمضان المبارک جیسے مقدس ماہ کا احترام تک ہم میں نہ رہا۔جب غیر مسلم رمضان میں قیمتیں کم، جب کہ ہماری چار گنا ہو جاتی ہیں۔ جھوٹ‘ دھوکہ‘ فریب ہمارا نصابِ زندگی بن گئے ہیں۔ ان تمام تر سانحات سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ ہم پھر بھی بیدار ہونے کے لیے تیار نہیں۔غزہ میں قیامت کا منظر ہے اور ہم خاموش ہیں۔

 

عابد ضمیر ہاشمی

عابد ضمیر ہاشمی

عابد ضمیر ہاشمی مصنف کتاب (مقصدِ حیات) ایڈیٹر صدائے اَدب کالمسٹ / رائٹر/ بلاگر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button