- Advertisement -

پریشانیاں اور آزمائش اور اس میں اللہ کی حکمت

محمد یوسف برکاتی کا کالم

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سب سے پہلے تو ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ یہ دنیا ہمارے لیے ایک عارضی جگہ ہے جبکہ موت کے بعد کی زندگی ہماری اصل اور آخری منزل ہے اس لئے یہ عارضی زندگی وہ زندگی ہے جس کے بارے میں ہمیں بہت زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا فیصلہ ابدی زندگی کے اقدامات کے خلاف کیا جانا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ یہاں زمین پر جو کچھ ہوتا ہے وہ صرف آدھی کہانی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ روئے زمین پر بہت سی جگہوں پر انصاف کا غلبہ نہیں ہوتا لیکن مومن کے لیے اس بات کا پختہ یقین اس کا ثبوت ہے کہ ایک ایسا وقت اور ایسی جگہ آئے گی جہاں یہ نامکمل اکاؤنٹس دوبارہ کھولے جائیں گے اور ہر ایک کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یقیناً خدا غالب ہے اور ایسا کرنے پر قادر ہے۔ صرف اس لیے کہ وہ ظالم کو وقت دیتا ہے ڈھیل دیتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے حساب کتاب کو نظر انداز کر دیا جائے گا۔ درحقیقت اس رب العالمین کی رحمت اس قدر محیط ہے کہ ظالم کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے یہ اس کی کرم نوازی ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی غلطیوں کو اپنی مرضی سے درست کرنے اور قیامت کے دن نجات پانے کے بہت سے مواقع فراہم کرتا ہے لیکن اس روئے زمین پر ہمارے معاشرتی نظام کے اصولوں میں تاخیر سے انصاف بالکل بھی نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ تصور خدائی انصاف پر لاگو نہیں ہوتا۔ درحقیقت، خدائی انصاف میں شاید اس لیے تاخیر ہوتی ہے اور ہمیں یہ اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں کمزور اور غریب کے خلاف اپنی غلطیوں کی تلافی کا موقع مل سکے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ہمیں اس تصور کی اچھی طرح سے سمجھ ہونی چاہئے کہ "برائی کی تخلیق برائی نہیں ہے، بلکہ برائی کو چننا ہے۔” جب تک ہم زمین پر رہتے ہیں خدا نے ہمیں آزادی دی ہے۔ ہم بعض اوقات اس آزادی کو منصفانہ فیصلہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف ہم اپنی جسمانی خواہشات کی پیروی متعصبانہ آراء کے ساتھ کرتے ہیں جو ہمارے نفس کے حق میں ہیں۔ اس وقت ہم ناانصافی اور برائی کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن عمل کی تخلیق اور اس کے نتائج خالق کے اختیار میں ہیں۔ بحیثیت انسان ہمارا اپنے جسم میں جو کچھ ہوتا ہے اس پر ہمارا کنٹرول نہیں ہے، لیکن ہماری آزادی ایک بہت ہی لطیف ہستی ہے جس کا فیصلہ سازی کے عمل میں ایک محدود علاقہ ہے۔ ایک بار جب ہم فیصلہ کر لیتے ہیں، تو اصل عمل اللہ تعالی کی طرف سے پیدا ہوتا ہے، جو ہر چیز پر قادر ہے۔ اس کی وضاحت ایک سادہ سی بات سے کی جا سکتی ہے: کہ باپ اپنے بچے کو اپنے کندھوں پر اٹھاتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ وہ اسے جہاں بھی جانا چاہے لے جائے گا۔ باپ بچے کو واضح ہدایات بھی دیتا ہے کہ کون سی جگہیں اس کے لیے نقصان دہ ہیں اور کون سی محفوظ ہیں۔ پھر بچہ ایک دکان میں جانے کا فیصلہ کرتا ہے جہاں اسے چاکلیٹ نظر آتی ہیں اور پھر وہ اپنے پیٹ کو چاکلیٹ سے بھرتا ہے، خود کو بیمار کرتا ہے۔ جی ہاں، یہ باپ ہی ہے جو بچے کو چاکلیٹ ملنے والی دکان پر لے گیا، لیکن یہ بچے کا باخبر فیصلہ تھا کہ وہ جا کر نقصان دہ مقدار میں چاکلیٹ کھائے۔ اس غلطی کا ذمہ دار کون ہے؟ اسی طرح خدا ہمیں فیصلہ کرنے کی صلاحیت دیتا ہے اور پھر وہ ہمارے لیے ہمارے انتخاب کے مطابق اعمال پیدا کرتا ہے۔ اگر اس کے نتائج برے ہیں تو اس برائی کا ارتکاب اس نے نہیں کیا جس نے اسے پیدا کیا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب اسی طرح اس مشکل وقت سے گزرنے کے بارے میں سوچنے کے لیے تیسرا نکتہ خدا کے بھیجے گئے انبیاء کرام علیہم السلام کی مثالیں اور ان کی زندگی بھر کی تکالیف ہیں۔ انہیں دنیا میں لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے چنا گیا تھا اور وہ اپنے دور میں خدا کی خدمت اور لگن کے ساتھ بہترین لوگ تھے۔ اس کے باوجود بہت سے مواقع پر ان پر آنے والی مصیبتیں اس قدر شدید تھیں کہ بلاشبہ کسی بھی عام آدمی کے ایمان کو جھنجھوڑ دیتی تھیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام اور حضرت یونس علیہ السلام کی مثالیں لیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سوچیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر غور کریں۔ خدا کے ان چنے ہوئے لوگوں کو زمین پر سب سے بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ قرآن مجید اس حقیقت کی طرف بہت سی آیات میں اشارہ کرتا ہوا نظر آتا ہے اور کتنے ہی نبیوں کو خدا کی راہ میں لڑنا پڑا ہے ان انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد خدا کے متقی، سرشار بندوں کی ایک بہت طویل تعداد ہے کہ جن پر خدا کی راہ میں جو مصیبتیں آئیں اس سے نہ وہ دل شکستہ ہوئے، نہ کمزور جیسے قرآن مجید کی سورہ العمران کی آیت نمبر 146 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَۙ-مَعَهٗ رِبِّیُّوْنَ كَثِیْرٌۚ-فَمَا وَ هَنُوْا لِمَاۤ اَصَابَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَكَانُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ ۔
ترجمعہ کنز العرفان :
اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا، ان کے ساتھ بہت سے اللہ والے تھے تو انہوں نے اللہ کی راہ میں پہنچنے والی تکلیفوں کی وجہ سے نہ تو ہمت ہاری اور نہ کمزور ی دکھائی اور نہ (دوسروں سے) دبے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔

انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں پر ایک مختصر نظر ڈالنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کسی کی زندگی میں سختی نہ تو خدا کی طرف سے عذاب ہے اور نہ ہی یہ رحمت الٰہی سے متصادم ہے۔ دوسری صورت میں، خدا کے چنے ہوئے پیارے، رسولوں کو سب سے آسان اور آرام دہ زندگی گزارنی چاہیے تھی۔ لیکن، تمام رسولوں کو بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا، خاص طور پر ان مظالم سے جو ان پر ان کے اپنے لوگوں نے مسلط کیے تھے۔ اللہ باری تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ البقرہ کی آیت 155 سے 157 تک میں ارشاد فرمایا کہ
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ[155]
الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ 156.
أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ157۔
ترجمعہ کنزالایمان :
اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو 155
کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا 156
یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی درودیں ہیں اور رحمت اور یہ ہی لوگ راہ پر ہیں 157

در حقیقت مومن کو جو بھی مشکل پیش آتی ہے اس کے لیے آخرت میں ان کے لیے ایک اجر ہے بشرطیکہ وہ اپنے رب کے سامنے مشکل کی اس گھڑی میں صبر کریں اور اس مشکل گھڑی پر بھروسہ نہ کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مومنین کے لیے درج ذیل بشارت دیتے ہیں: ”مومن کو کبھی تکلیف، بیماری، پریشانی، رنج یا ذہنی پریشانی یا کانٹا چبھنا نہیں پڑتا لیکن اللہ تعالیٰ کفارہ دیتا ہے۔ اس کے صبر کی وجہ سے اس کے گناہ معاف کرتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ پہلے چند دنوں تک روزہ رکھنا تھوڑا مشکل ہو سکتا ہے جب تک کہ جسم اس کے مطابق نہ ہو جائے۔ کچھ مبالغہ آرائی کے ساتھ، ہم پیٹ میں ہونے والے احساس کو درد اور تکلیف سمجھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر افطار کے وقت کے قریب یہ زیادہ ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ پھر کھانے کی میز پر ہمیں احساس ہوتا ہے اس وقت سوکھی روٹی کا ایک ٹکڑا بھی رمضان سے پہلے کے شاندار کھانوں سے زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ روزہ دار دسترخوان پر کھانے سے اس قدر لطف اندوز ہوتا ہے کہ وہ کہتا ہے "میں آج جس تکلیف اور تکلیف سے گزرا میں کیا اس کے قابل تھا۔ اب میں نہ صرف اس دسترخوان پر کھانے کا صحیح معنوں میں مزہ لے سکتا ہوں بلکہ مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوتی ہے کہ خدا مجھ سے خوش ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی طرح ہم بھی زندگی میں مشکل وقت سے گزرتے ہیں اس سے پہلے کہ ہمیں نعمتوں کی میز سے نوازا جائے جو ہمارے رب تعالیٰ نے ہمارے لیے تیار کیا ہے۔ جب ہم ان انعامات کو جان لیں گے جو اس نے ہمارے لیے زمین پر اس زندگی کی مشکلات کے ساتھ صبر کرنے کے لیے تیار کیے ہیں تو ہم مغلوب ہو جائیں گے اور جو کچھ ہوا اسے بھول جائیں گے۔ ہم کہیں گے "اے خدا، میں ہر اس چیز کے لئے بہت شکر گزار ہوں جو تو نے مجھے دیا ہے۔ میں نے زمین پر جو بھی مصائب اور تکلیفیں برداشت کیں، میں اصل میں اس ہی کے قابل تھا۔ مجھے یہاں جو کچھ ملتا ہے وہ میری توقعات اور تخیل سے کہیں زیادہ ہے! آئیے خدا کے انصاف اور رحمت پر یقین رکھیں آئیے ہم آگاہ رہیں کہ وہ رب ہر وقت ہر لمحہ ہماری نگرانی کر رہا ہے یہاں تک کہ خاص طور پر جب ہمارے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا جاتا ہے اور بعض اوقات جب ہم اپنا دفاع نہیں کر سکتے۔
دعا کریں کہ ہمارے رب نے ہمارے لیے جو انعامات تیار کیے ہیں ان کے بارے میں قرآن کے نور کی روشنی ہمیشہ ہمارے دلوں کو منور کرتی رہے اور اس عارضی زندگی میں آنے والی تکالیف اور پریشانیوں پر صبر کرنے میں ہماری مدد کرے اور ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ تکالیف اور پریشانیاں اور ان پر صبر کرنا ہمارے لئے بروز محشر اجروثواب کا باعث ہوگا ۔

محمد یوسف برکاتی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
محمد یوسف برکاتی کا کالم