- Advertisement -

تم نےحاتم طائی کا قصہ سنا ہو گا؟

سیّد محمد زاہد کا ایک اردو افسانہ

”ہاں بچپن میں سنا تھا۔ پھر کالج پہنچے تو ’آرائش محفل‘ پڑھی۔ یہ ایک دیو مالائی داستان ہے۔ اس میں حاتم طائی کی بہادری اور اس کی دریا دلی کے قصے ہیں۔ “
”اس میں خاص بات کیا ہے؟“ میں نے پوچھا۔

”جنات و بشر کی کہاوتیں اور حور پریوں کے تذکرے ؛ پند و نصائح اور کچھ سبق آموز کہانیاں۔ سب نے مل کر اس عظیم قصے کو ’گوہر نایاب اردو‘ بنا دیا۔“

جواب ظاہر کرتا ہے کہ اس نے یہ قصہ تفصیلاً پڑھا ہے۔
”کیا یہ صرف ایک داستان ہے یا کچھ اور بھی؟“
”تم کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ تمھارے خیال میں یہ قصہ کیا بیان کرتا ہے؟“
پھر میں نے خود ہی بیان کرنا شروع کر دیا۔

”حسن بانو صرف ایک عام سی لڑکی نہیں وہ آغاز افرینش سے روز حشر تک کے لیے عورت کی جنس کی نمائندگی کرتی ہے۔ حسن بانو بارہ برس کی تھی جب اس نے خود کو دولت دنیا سے مالا مال پایا۔ اس بالی سی عمر میں اسے اپنے باپ کی وراثت کو سنبھالنا تھا اور جو خزانہ اسے خدا کی طرف سے ودیعت ہوا اس کی بھی حفاظت کرنا تھی۔ سات بادشاہتوں کا خزانہ جس میں سات کنویں اشرفیوں سے بھرے تھے، اسے جنگل میں ایک درخت کے نیچے دفن ملا۔ اس میں سب سے اہم وہ موتی تھا جو جواہر سے معمور صندوقوں میں موجود تھا، جس کا سائز مرغابی کے انڈے برابر تھا۔“

”اس حجم کا موتی تو صرف خیالاتی دنیا میں ہی پایا جاتا ہو گا، حقیقتاً تو ناممکن ہے۔“

صدف ایک ذہین لڑکی ہے۔ بات چیت میں برابر کی شریک رہتی ہے۔ وہ سارے قصے کو سمجھتی ہے لیکن شرارتی مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھری ہوئی تھی۔ ہماری شادی کو ایک ہفتہ ہی ہوا تھا۔ اس ایک ہفتہ میں پوری دنیا بدل گئی۔ بہت سی مبہم حقیقتیں بامعنی لطافتوں کی صورت میں عیاں ہو گئیں۔ اس کا سوال میری بات کو آگے بڑھانے میں مددگار تھا۔

”یہی موتی تو اصل کہانی ہے۔ حسن بانو کو اس خزانے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ تو خود کو آلائش دنیا سے پاک رکھ کر یاد خدا میں روز و شب مشغول رہنا چاہتی تھی۔

ایک شیطان سے بھی ابلیس تر، بزرگ صورت، فقیر نے جو کہ بادشاہ کا پیر تھا اس خزانے کو لوٹنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا۔ بادشاہ بھی حسن بانو سے ہمدردی جتلا کر خزانہ کا مالک بننے لگا لیکن جب زر سرخ سے مالا مال کنویں کے پاس پہنچا تو وہ زر سانپ بچھو کی صورت ہو گیا۔ بادشاہ بھی ناکام ہوا۔ ”

صدف کی دلچسپی بڑھ گئی۔ وہ سوال پر سوال کیے جا رہی تھی۔ میں اصل بات کو سمجھانے کے لیے تمام تفصیلات بیان کرنے لگا۔

شادی سے اگلے روز ہی ہم ہنی مون کے لیے چلے آئے تھے۔ ان دنوں میں ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوئی۔ میں ڈاکٹر ہوں اور نیچرل ہسٹری کا طالب علم؛ لالہ و گل، ماہ و انجم سمیت صناع طلسم کار کی سب تخلیقات کا ثنا خواں۔ انسان اس عظیم صانع کی سب سے بڑی اختراع، بحیثیت ڈاکٹر میں نے جب بھی اس تخلیق کا مطالعہ کیا نئی سے نئی جہتیں سامنے آئیں۔ عورت، قبیل آدم کی بہترین اور جامع صنف، پرت در پرت کھلتے اس کے جمال کی دوشیزگی نکھرتے جا رہی تھی۔ میں پچھلے ایک ہفتے سے اسے پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

”تم اس قصے کی تفصیلات بیان کر رہے ہو، جو کہ میں پڑھ چکی ہوں لیکن کیا کہنا چاہتے ہو وہ ابھی بھی اوجھل ہے؟“

میرا دھیان اس کے چہرے کی طرف تھا۔ اس کے کندھوں کی سرخ رنگت میری آنکھوں میں اتر آئی۔ لال لال ڈورے دیکھ کر شرارتی مسکراہٹ جو غائب ہو گئی تھی پھر لوٹ آتی ہے۔

میں نے آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھ دیے۔ وہ کسمسائی،
”میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تمہارے شانوں کا رنگ تتلیوں کی طرح انگلیوں کو تو لگ کر نہ رہ جائے گا۔“
اس کے دونوں شانے پھڑپھڑائے۔
ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں،
”اتنی چست جلد تمہارے اعضا پر دباؤ نہیں ڈالتی؟“
”کیسے ڈال سکتی ہے، یہ چست ہونے کے باوجود آرام دہ اور فراخ بھی ہے۔“
وہ نخرے سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔

میں نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے سامنے کر لیا، اس کے اندر نیلی نیلی رگوں کے جال ہیں۔ یہ کہیں سے دبیز اور کہیں سے باریک ہے۔ میں نے اس کی چٹکی لی تو حیران رہ گیا اتنی نرم و ملائم اور انتہائی شفاف۔ دباؤ سے اس کی رنگت بدل گئی، خوبصورت بنفشی اور دلفریب گلابی۔

”عورتوں کی جلد مردوں کی نسبت زیادہ دلآویز ہوتی ہے۔“
”ہاں! لیکن کوئی ایسا رہنے بھی تو دے۔“ اس شوخ و چنچل نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
”ہم حاتم طائی بات کر رہے تھے اور پھر تم اپنے موضوع سے اکھڑ گئے۔“

”میں تو حسن بانو کی بات کر رہا تھا، جو عورت جاتی کی نمائندگی کرتی ہے اور تم بھی۔“ تھوڑی دیر خاموشی طاری رہی۔ وہ شوخی کو سنجیدگی میں بدل کر مجھے گھور رہی تھی۔

”شہزادہ منیر شامی جس کے رخسار نازنیں پر جوانی کا سبزہ ابھی لہکا ہی تھا حسن بانو کی تصویر دیکھ کر غش کھا گیا اور آہیں سرد دل درد سے کھینچنے لگا۔ حسن بانو اس کو ایک جھلک دکھانے کو بھی تیار نہ تھی۔ اس جیسے کئی شہزادے سات سوالوں میں کھو کر کافور ہو گئے اور بہتیرے مر مٹے تھے۔ حسن بانو نے وہی سوال اس کے سامنے رکھ دیے اور کہا ’ان سوالوں کے جواب ڈھونڈ کر لاؤ ورنہ خاک ہو کر ہوا میں اڑتا پھرے گا تب بھی میرے ایک رونگٹے تک نہیں پہنچے گا۔‘

اس قصے میں یہی سب سے اہم موڑ ہے۔ جس نے بھی حسن بانو کو اس تمام زر و جواہر سمیت حاصل کرنا ہے وہ ان سوالوں کے جواب ڈھونڈ کر لائے۔ ”

”یہ تو عام سی بات ہے۔ کہانی شروع ہی یہاں سے ہوتی ہے۔ “ وہ میری بات کاٹ کر بولی۔

”جسے تم قصہ گوئی کا عام پہلو کہہ رہی ہو وہی سب سے اہم بات ہے۔ بس تم مجھے ایک جواب دو۔ قصے کو خوش رنگ بنانے کے لیے اکیلی حسن بانو ہی کافی نہیں تھی، ساتھ زر و جواہر کو کیوں شامل کیا گیا؟ سات پشتوں کا خزانہ جو کہ اسے وراثت میں ملا تھا۔ سات بادشاہتوں کا خزانہ، جو حق تعالیٰ نے اس کے واسطے چھپا کر رکھا تھا اور ان میں سب سے اہم مرغابی کے انڈے کے برابر کا سچا موتی بھی۔“

وہ پورے انہماک سے سن رہی تھی۔ کہنے لگی

”جب تمہاری طرف سے شادی کا پیغام ملا تو میں تمہیں ایک عام مرد سمجھی تھی۔ میرے بھائی نے کہا تھا کہ تم بہت گہرے انسان ہو۔ مجھے اس کی بات سچ محسوس ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ تم عورت جاتی کو بہت اچھی طرح جانتے ہو۔ اس قصے سے کیسا عجیب سوال نکال لائے ہو۔ سات سوالوں سے بھی خطرناک۔ اس سوال کا تم ہی جواب دو۔“

”جنگل جہاں حسن بانو کو زر و جواہر کا وہ خزانہ ملتا ہے جس کی حفاظت سانپ بچھو کر رہے ہوتے ہیں، جہاں کبھی کسی انسان کا داخلے کا اذن نہیں ملا، شہزادی کا دل ہے۔ اس بالی عمر کی لڑکی کا دل ناداں خزائن عامرہ سے بھرا ہوا ہے لیکن اس میں کوئی ارمان نہیں بستا۔ اس کا جسم بھی ایک خزانہ ہے جس میں اسے خود کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ حسن بانو کو اس کی قیمت کا اندازہ ہی نہیں۔ یہ حسن و جمال سات پشتوں سے اس کے ساتھ چلا آ رہا ہے اور ہفت اقلیم کے قیمتی خزانے بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ سات سلطنت کی یہ دولت قدرت کا دیا ہوا مرصع جوبن ہے۔

جب شیطان صفت لوگوں کو اس خزانے کا علم ہوتا ہے وہ اس بھولی بھالی لڑکی کو مختلف روپ دھار کر لوٹنے چلے آتے ہیں۔

وہ سارا خزانہ سمیٹ کر خود کو اپنے باپ کے گھر میں مقید کر لیتی ہے۔ خود کو محفوظ کر لیتی ہے کہ اس تک کسی شیطان کا ہاتھ نہ پہنچ سکے۔ اب وہ سمجھدار ہو گئی ہے۔ دنیا بھر سے شہزادے اور امرا دولت حسن کی تعریف سن کر دوڑے چلے آتے ہیں۔ اس کی شرط بڑی کڑی ہے کہ وہ یہ خزانہ اس کے حوالے کرے گی جو سات مشکل سوالات کے جواب ڈھونڈ کر لائے گا۔ ”

وہ مست نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں خاموش ہوا تو پوچھنے لگی،

”تم نے تو کہا تھا کہ خزانے میں سب سے اہم وہ موتی تھا جس کا سائز مرغابی کے انڈے برابر تھا۔ اس حجم کا موتی کہاں سے ملتا ہے؟ کیا یہ بھی کوئی علامت ہے؟“

”حسن بانو ہو یا تم یا کوئی بھی عورت، یہ حسن، یہ جوانی، یہ چست جلد، یہ بنفشی رنگ و رونق سب خزانے ہیں۔ یہ مردوں کی نسبت زیادہ دلآویز جلد جس کے بارے میں تم نے بھی کہا تھا

’کوئی اسے ایسا رہنے بھی تو دے‘
سب زر و جواہر ہیں۔ وہ بڑا سا موتی جس کے برابری کوئی گوہر آبدار نہیں کر سکتا، عورت کی عصمت ہے۔

وہ منہ کھولے میری طرف تک رہی تھی۔ مکمل خاموشی سے۔ کافی دیر کے بعد اٹھی اور میرا بازو تھام لیا۔ کہنے لگی
”تم اتنی دیر کے بعد مجھے کیوں ملے ہو! مجھے تو اپنے بارے میں علم ہی نہیں تھا۔ تم نے مجھے انمول بنا دیا۔“

”بالکل صحیح کہا، آغاز شباب میں حسن بانو یا کسی بھی لڑکی کو اس دولت کا علم نہیں ہوتا۔“

پھر وہ خاموش ہو گئی۔ چپ چاپ، کچھ سوچ رہی تھی۔ اس کے چہرے کے رنگ بدل رہے تھے، آہستہ آہستہ افسردگی کی پیلاہٹ حاوی ہو رہی تھی۔

کہنے لگی، ”مجھے تو کچھ علم نہیں تھا۔ لیکن ان سب باتوں کا تمہیں کیسے علم ہوا؟ کیا تم مجھ سے پہلے بھی؟“

وہ خاموش ہو گئی۔ ماحول پر یکم دم اداسی چھا گئی۔
میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا، صرف یہ کہہ سکا
”تم غلط سمجھی ہو۔“
وہ افسردہ سی کھڑی رہی۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کی کمر کو اپنے حلقے میں لے لیا۔

”کہانی کا اختتام ابھی نہیں ہوا اور تم سوگوار ہو گئی ہو۔ تمہیں علم ہونا چاہیے کہ دیو مالائی داستانوں کا اختتام المیہ نہیں ہوتا۔ ہماری کہانی بھی رنگ طرب میں ڈوب کر چلنی ہے۔ تم کیوں ملول ہو رہی ہو؟“

تھوڑی اداسی کم ہوئی۔ وہ نظریں اٹھا کر میری آنکھوں میں جھانکنے لگی، جیسے سچ جھوٹ کی پہچان کر رہی ہو۔ پوچھنے لگی،

” تمھاری کھانی کا اختتام کیا ہے؟“
”حسن بانو کا سب سے اہم سوال ہی تھا۔
’وہ موتی جو مرغابی کے انڈے کے برابر بالفعل موجود ہے اس کی جوڑی پیدا کرے۔ ‘

اسے پکا یقین ہے کہ اس موتی کا جوڑ موجود ہے۔ تم بھی جان لو، یہ موتی شہزادہ منیر شامی کی محبت ہے جو اسے خاک چھانتے، فقط آرزوئے وصال لیے اس کے در تک لے آتی ہے۔ حاتم طائی یہ موتی حسن بانو کے سامنے رکھتا ہے تو وہ کہتی ہے

’اب تم میرے باپ کی جگہ ہو اگر وہ میرے شوہر ہونے کے لائق ہو تو مجھے کچھ عذر نہیں۔ ‘

میری پیاری صدف! منیر شامی کی طرح میری محبت بھی تمہاری عصمت کے طول و عرض اور ارتفاع میں تو برابر نہیں لیکن بالفعل ہم پلہ ہے۔ ”

وہ خوش ہو کر میرے ساتھ چمٹ گئی۔ تھوڑی دیر بعد جدا ہو کر منہ چڑانے لگی اور بولی

”مجھے اس بات کا پھر بھی دکھ ہے کہ میرا شوہر مجھے جاننے سے پہلے بھی جیتا تھا۔ اسے رشک کہہ لیں یا حسد، میں تمہارے علم کو نا انصافی پر مبنی قرار دیتی ہوں۔ تم کو یہ موقع ملنا ہی نہیں چاہیے تھا کہ مجھ سے پہلے بھی جیو اور تمہیں مجھ سے پہلے بھی ایسی باتوں کا علم ہو۔“

سیّد محمد زاہد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
خوشبوئے قلم محمدصدیق پرہار