گناہ بے لذت اور معصوم کا خون
سیّد محمد زاہد کا ایک اردو افسانہ
ڈاکٹر شبانہ میرے سامنے کھڑی تھی۔ ہسٹری اس نے لی تھی۔ اور وہ ہی انہیں حوصلہ دے رہی تھی۔ لڑکیوں کو جانے کی جلدی تھی اور ڈاکٹر شبانہ کہہ رہی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس مریضوں کی بہت بھیڑ ہے وہ چھٹ جائے تو تمہیں دکھاؤں گی۔
وہ دونوں بہنیں بمشکل چودہ پندرہ سال کی ہوں گی ۔ میں بھی ان کی بے چینی دیکھ رہا تھا۔ جلدی جلدی مریض فارغ کیے اور شبانہ کو پاس بلایا۔ اس معاشرے کی بے دردی اور ظلم کی وہی پرانی داستان۔
جھوٹی یا سچی؟ ہمارا مسئلہ نہیں۔
دونوں بے دھڑک بول رہی تھیں۔ درد نے انہیں نڈر بنا دیا تھا یا ایک دوسرے کے سہارے نے انہیں حوصلہ دیا تھا ورنہ اس عمر کی لڑکیاں تو بدن چرا کے چلتی ہیں، خود کو بھی سب سے نظر بچا کے دیکھتی ہیں۔
لوگ کیسے کیسے درد چھپائے بیٹھے ہیں۔
نامکمل معاشرے کے مکمل طور پر الجھے ہوئے مسائل، مسیحاؤں کے بندھے ہوئے ہاتھ، اس کے ساتھ حاذق اطبا کے ذاتی تصورات اور خوف سزا و جزا کی طمع خام مریضوں کی مشکلات کو حل کرنے کی بجائے مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔
ہاں! ہمارے ہاتھ بھی بندھے ہیں، ہم نے بھی ایک حلف اٹھایا تھا۔ وہی حلف جو صدیوں پہلے عظیم فلسفی، طبیب بقراط نے تیار کیا تھا جس کی تجدید شدہ شکل ہمارے ہاتھ میں تھی جب ہم سفید کوٹ پہن کر کالج کے عظیم اساتذہ کے سامنے کھڑے تھے اور ان کی آواز میں آواز ملا کر اقرار کر رہے تھے،
”بیماروں کا علاج کرتے وقت میں اپنی عقل اور علم کے مطابق بہترین طریقہ وضع کروں گا اور اس بات کا خیال رکھوں گا کہ یہ ان کے لیے کسی آزار یا صدمے کا باعث نہ ہو۔“
یہ حلف اب بھی میرے کمرے میں آویزاں ہے۔
ہمارے نام سے پہلے ڈاکٹر لگا تو ہم دنیا میں سب سے اعلیٰ ہو گئے۔ خود ہی فیصلہ کریں اور خود ہی تشریحات، اپنے شعبے کے متعلقہ امور اور مذہبی مسائل کی بھی۔ اب ہمیں اختیار حاصل ہوا کہ ہم لوگوں کی زندگیوں کے پیچیدہ مسائل سنیں ان کی وہ باتیں بھی جانیں جو وہ خود کو بھی سناتے وقت سہم اٹھتے ہیں۔ ہمیں یہ اختیار بھی حاصل ہوا کہ ان کے مستور اعضا دیکھیں، چھوئیں اور ان پر نشتر بھی چلائیں۔ وہ اعضا جنہیں ان کے ماں باپ بہن بھائی، خونی رشتہ دار بھی نہیں دیکھ سکتے۔
خونی رشتہ دار نہیں دیکھ سکتے!
کیا یہ بات سچ ہے یا سچ اس نعرے کے پیچھے کہیں کھو گیا ہے۔ زیادہ تر مظلوم لڑکیاں ان خونی بندھنوں کی اسیر ہوتی ہیں اور قفس میں اسیران سے کیا سلوک کرنا ہے یہ صیاد کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔
یہ درد بھی صیاد کا دیا ہوا تھا۔ دونوں بے دھڑک بتا رہی تھیں۔ سیدھی بات کہتے شرم آتی ہے، ان میں حوصلہ کہاں سے آیا؟ مجھ میں تو ہمت نہیں کہ اس کا نام لے سکوں۔ جاہلیت کے دور میں کہا جاتا تھا کہ مالی کو اس پودے کے پھل سے لطف اندوز ہونے کا پورا حق ہے جو اس نے خود لگایا ہو۔ عورت تو پودا ہی ہے، گھر میں اگا ہو خود رو بیری کا پودا، جس کو آبیاری کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس سے کیوں پوچھیں؟
اس کی کون بات کرے؟
مالی کہہ لیں، صیاد یا جیلر، قیدی کو تو اس کی مرضی پر ہی چلنا پڑتا ہے۔
اب جسم کے اندر پھن کاڑھے بیٹھے اس ناگ سے کیسے نجات ملے گی؟
ناگ کے زہر کا تریاق زہر میں ڈھونڈیں یا نشتر چلائیں؟
یہ نشتر چلانے والی عجیب بات ہے! آزار کا چارہ کرنا ہے، جلتے ہوئے بدن اور گپت پڑے درد کے پھوڑے پر چاقو چلانا ہے اور یہ شرط بھی ہے کہ صدمہ نہ پہنچے۔
ہمارے ہاتھ بندھے ہیں۔
ہمارے قانون کے مطابق ماں کی جان کو خطرہ ہو تو اس دکھ سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔
کون فیصلہ کرے گا کہ حادثاتی ماں کی جاں کو خطرہ تھا؟
پولیس کے سامنے یا عدالت میں اس بات کا کیسے دفاع کیا جائے گا؟ جبکہ نقصان ہونے کی صورت میں لاوارث عورت کے کئی وارث سامنے آ جاتے ہیں اور سفید پوش ڈاکٹر کو بلیک میل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
ہزاروں عورتیں ہمارے سامنے دکھ روتی ہیں۔ پچکے پیلے گال، اجڑے بدن اور بن بیاہی ماں کے بے ہمت جسم جن میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ کوکھ میں آسن جمائے بن بلائے مہمان کو گھر سے باہر نکال سکیں۔
ہم گناہ بے لذت کا دکھ سہیں یا بدنامی مول لیں۔ اپنا حلف یاد کریں یا مذہب کو سامنے رکھیں۔ مذہب جو کہتا ہے، ”بچہ گرانا مطلقاً گناہ ہے۔“
حلف جو کہتا ہے کہ میں ہمیشہ یہ کوشش کروں گا کہ میرے علاج سے کسی مریض کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ان کے لیے کسی صدمے کا باعث نہ ہو۔
کون سا صدمہ؟
صدمہ حاملہ ہونے کا، خطرہ بچہ جننے کا۔
نقصان کون سا ؟
معاشرتی، جسمانی، یا ذہنی؟
کیا کیا جائے؟
اس حلف نے یہ بات بھی ہم پر چھوڑ دی ہے۔ بچے کا نقصان یا بن بیاہی ماں کا نقصان؟
کنواری ماں! وہ جو اپنوں کی ڈسی ہوئی ہے یا جس کی معصومیت اعتبار کے دھوکے میں، پیار کے بھروسے میں لٹ گئی ہے۔ ایسی ماں جس کی کوکھ سے ممتا نہیں بدنامی نے جنم لینا ہے۔
شاید یہ جھوٹی کہانی ہو، الزام جھوٹا ہو، خود کو مظلوم ظاہر کرنے کے لیے۔ دوستی خود لگائی ہو اور جو بھی ہوا ہو باہمی رضامندی سے ہوا ہو۔
ڈاکٹر شبانہ میری طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں دکھ ہی دکھ تھا۔ وہ میرے فیصلے کی منتظر تھی۔ ذاتی تصورات اور دینی عقائد کی بنیاد پر، انکار کی صورت میں مریض کو پہنچنے والے صدمے کی نوعیت اور نقصان کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
لڑکیاں نا امید ہو کر واپس چلی گئیں۔
میرا دل کسی ان دیکھے خوف نے مٹھی میں جکڑ لیا۔ یہ کچی عمر کی لڑکی کسی بند گلی کے تاریک کمرے میں کسی اتائی کی حماقت کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔
لیکن میں کیا کروں؟
معصوم کا خون؟
بچے کو قتل کرنے کا گناہ؟
گناہ بے لذت؟
یہ گناہ کبیرہ اور وہ بھی رمضان کے مبارک مہینے میں؟
سیّد محمد زاہد