امریکی سپاہی اور یخ پارہ افغان لڑکی
سیّد محمد زاہد کا ایک اردو افسانہ
وہ ایک عجیب سی جنگ تھی۔ جس میں مقصد واضح تھا نہ طریقہ کار۔ دشمن پوشیدہ تھا اور ہم ہویدا۔ دنیا کا سب سے امیر و طاقتور ملک ایک انتہائی غریب قوم پر حملہ آور تھا۔ افغانیوں کی زیست فاقوں سے تلملاتی تھی اور امریکیوں کے بازوؤں کی مچھلیاں پیچ و تاب کھا رہی تھیں۔ امریکہ نے تو یہ سمجھ کر حملہ کیا تھا کہ ’ہمہ آہوان صحرا سر خود نہادہ برکف‘ ان کے قدم لیں گے لیکن اب انہی آہووں کے سامنے ان کے قدم لڑکھڑانے لگے تھے۔
روزانہ ہمیں افغانیوں کے دل جیتنے کا ٹاسک دے کر ادویات، ٹافیوں اور بسکٹوں سے لاد کر دیہات میں بھیج دیا جاتا۔ بھوکے اور ان پڑھ افغانی بچے ”کینڈی، کینڈی یا اور جو کچھ بھی ہے، دے دیں“ پکارتے ہمارے اردگرد جمع ہو جاتے۔ ہمیں چارہ بنا کر پیش کیا جاتا: طالبان اپنی کمیں گاہوں سے نکل کر حملہ آور ہوتے، ہمارے سپاہی انہیں جواب دیتے اور وہ واپس بھاگ جاتے۔
اب آہوان صحرا ہم تھے اور وہ شکاری۔
اگر کوئی دن بے رزم گزر جاتا تو نہاں دشمن کے خوف سے رت جگا ضرور منانا پڑتا۔ شروع شروع میں جب ہم اس ملک میں آئے تو موسم بہار سے لڑائی کا سیزن شروع ہوتا تھا اور پہلی برف باری کے ساتھ ہی آتشیں اسلحہ بھی ٹھنڈا پڑ جاتا۔ اب کوئی بھی دن ایسا نہیں تھا جسے ہم پر سکون کہہ سکتے۔
وہ رات بہت خاموش، ٹھنڈی اور ہیبت ناک تھی۔ کئی دنوں سے برف باری نہیں ہوئی تھی لیکن برف پوش پہاڑوں کی چوٹیوں سے ٹکرا کر آنے والی ہوائیں ریڑھ کی ہڈی تک سرایت کر رہی تھیں۔ ہماری ڈیوٹی رات کے پچھلے پہر شروع ہوئی تھی۔ بنکر میں چپ چاپ سردی سے ٹھٹھرتے بیٹھے تھے۔ ایسی رات کاٹنا پہاڑ ہو گئی تھی۔ وقت کے اس بندی خانے میں اکتاہٹ اتنی تھی کہ تاش کھیلنے میں بھی لطف نہیں آتا تھا۔ ایک نیا ملازم آیا تھا جو کچھ دنوں سے مقامی داستانیں اور کہانیاں سنا کر ہمارا دل بہلا رہا تھا۔ اب اس کی باتیں بھی دلچسپی کھو چکی تھیں۔ ہم اس کو برداشت کرتے تھے کہ اس سے مقامی دری زبان سیکھ رہے تھے۔ آج وہ ہر طرح سے ہمارا دل بہلانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کی صحبت اتنی بے مزہ تھی کہ ڈانٹ کر باہر نکال دیا۔ پھر ہم نے جوا کھیلنا شروع کر دیا کہ اسی بہانہ یہ مشکل گھڑی ٹلے۔
پژمردگی اتنی تھی کہ میں ہارتا ہی گیا۔ ہر بازی الٹی پڑ رہی تھی۔ سردی کا مارا افغانی ملازم اندر آیا اور میرے ساتھ بیٹھ گیا۔ اس کی قسمت تھی کہ پانسہ پلٹ گیا۔ صبح ہونے تک میں کافی رقم جیت چکا تھا۔
صبح طلوع ہوئی تو کھیل بھی ختم ہو گیا۔ سارے ساتھی ڈیوٹی ختم ہوتے ہی سونے کے لیے چلے گئے۔ جیت کا خمار نیند سے بھی بھاری تھا۔ میں چڑھتے سورج کی دھوپ سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک پتھر پر لیٹ گیا۔ تا حد نگاہ ویران ٹیلوں اور پہاڑیوں پر کوئی حرکت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ کوئی جانور، انسان، کچھ بھی نہیں۔ اس ویرانے میں ہم کیا فتح کرنے آئے تھے؟ ہمارے کیمپ سے نکلتی پتھریلی سڑک پر دور ایک چھوٹے سے گاؤں میں گندے دھوئیں کی لکیریں کچھ کچے مکانوں کی چھت پر لہرا رہی تھیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ رات بھر کی نیند کے مارے تھکے ماندے شیطانی چیلے، آنکھیں ملتے، اپنا نیا شکار ڈھونڈ رہے تھے۔
مجھے اپنے کالج کے وہ دن یاد آ گئے جب جوانی برق و لہب سے کھیلتی تھی اور لہو و لعب سے زیادہ پسندیدہ کوئی چیز نہیں تھی۔ اب بجلی صرف سرخ گولیوں کی سنسناہٹ میں چمکتی تھی اور شعلہ بموں کی دھما دھم سے پھوٹتا تھا۔ جوانی کی ساری رونقیں ادھر رہ گئیں، یہاں تو ویرانی ہی ویرانی تھی۔ یہ سوچتے سوچتے آنکھیں موند لیں۔ اونگھ آئی تو کسی کی کھنکارنے سے جاگ گیا۔
وہی افغانی ملازم تھا جو ہمارے چھوٹے موٹے کام کرتا رہتا تھا۔ روسی جارحیت کے دور سے فوجوں کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ فوجی ادب آداب سے واقف، نحیف و زار، گل خان، چالیس سال سے زائد عمر کا تھا۔ لمبا قد، خوبصورت نقش، لیکن بھوک و افلاس کا مارا ہوا، تھوڑی کمر جھکا کر چلتا تھا جس میں کمزوری سے زیادہ آقاؤں کے رعب و دبدبے کا زیادہ عمل دخل تھا۔
اس نے میرے گرد دو چار چکر لگائے۔ مجھے یہ حرکت ناگوار گزری۔ کچھ کہنا چاہتا تھا جس کے لیے ہمت جمع کر رہا تھا۔ میں نے ترش رو ہو کر پوچھا
”کیا بات ہے؟“
”آپ بہت تھکے ہوں گے؟ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں۔
کہو تو ٹانگیں دبا دوں؟ ”
” نہیں، مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔“
مجھے اس کی رغبت کے بارے میں شک تھا اور یہ میری عادت و موانست نہیں تھی۔
”تم یہ کہہ رہے ہو لیکن مجھے تمہاری ضروریات کا احساس ہے اور وہ میں پوری بھی کر سکتا ہوں۔“
”کون سی؟“
”جو بھی دولت سے خریدی جا سکتی ہے۔“
میں اس کی بات سمجھ رہا تھا۔ لیکن میرا کوئی ایسا شوق نہیں تھا۔ میں نے اسے ڈانٹ دیا۔ وہ تھوڑا سا ہچکچایا اور جاتے جاتے کہنے لگا،
”مبارک باد تو قبول کر لیں۔ رات آپ نے کافی رقم جیت لی۔ لیکن یہ رقم کس کام کی جب یہ تمہیں سکون ہی نہیں دے سکتی؟“
”ڈالروں سے سکون نہیں خریدا جا سکتا؟“
یہ سن کر وہ واپس مڑ آیا۔
”کیوں نہیں؟ آپ ایک مرتبہ اس خادم کو موقع تو دیں۔“
وہ مچلا بن کر کھڑا ہو گیا۔
”کیا لا سکتے ہو؟“
”سب کچھ جو حکم دیں۔“
پھر میرے قریب آ کر کہنے لگا
”مہ جبیں، صاحب جمال۔“
میں ہکا بکا رہ گیا۔
ہمیں افغانستان آنے سے پہلے اس بارے میں خصوصی ہدایات دی گئی تھیں۔ میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
”آپ کیوں اتنا پریشان ہو رہے ہیں۔ میں آج رات ہی لا دوں گا۔“
وہ جانے لگا تو میں نے روک کر پوچھا
”کیا یہ ممکن ہے؟“
”بالکل، آپ اگر کچھ ایڈوانس دے دیں تو مجھے اسے منانے میں آسانی ہوگی۔ ادھر آتے سب گھبراتے ہیں۔“
میں تھوڑا ہچکچایا اور پھر ایک ڈالر نکال کر اسے تھما دیا۔
ڈالر ہاتھ میں لیتے ہی اس کی باچھیں کھل گئیں۔
”رات آپ پہاڑی کے اوپر والے بنکر میں آ جائیں۔ اسے اندر لانا ناممکن ہے۔“
یہ کہہ کر وہ جواب سنے بغیر بھاگ اٹھا۔
مجھے پکا یقین تھا کہ اس نے کچھ رقم ہتھیانے کے لیے یہ چال چلی ہے۔ وہ کبھی نہیں لائے گا۔ رات آ کر کوئی نئی کہانی سنا دے گا۔
اس یقین کے باوجود میں انتظار کر رہا تھا۔ دن گزارنا مشکل تھا۔ رات بھر کی جاگت کے باوجود نیند نہیں آ رہی تھی۔ شام ڈھلے ساتھیوں نے قمار بازی کی دعوت دی تو میں نے بہانہ بنا دیا۔
رات کوسوں دور تھی اور میں ابھی سے بے چین۔
خوف تھا کہ وہ دشمن سے ملا نہ ہو اور باہر بلا کر مجھ پر حملہ آور ہو جائیں ۔ بنکر کیا تھا؟ صرف ریت کی بوریاں رکھ کر دیواریں تیار کی گئی تھیں اور اوپر آسمان کے تارے چمکتے تھے۔ لیکن لوکیشن ایسی تھی کہ میں اکیلا ایک مشین گن کی مدد سے دشمن کو گھنٹوں روک سکتا تھا۔
اندھیرا ہوتے ہی ہراس و تردد بلائے طاق رکھ کر میں بنکر میں پہنچ گیا۔ سخت سردی میں کھلے آسمان کے نیچے انتظار کی کٹھن گھڑیاں گننا مشکل تھا۔ مجھے روایتی افسانوں والے عشاق کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ خوف، سردی اور گو مگو کی کیفیت سب مل کر دل کی دھڑکن کو بے ترتیب کر رہے تھے۔ ستارے اور ماہتاب کلیجے کے پار ہو رہے تھے۔ اس بوڑھے نے چرکا دیا تھا، یہ سوچ کر میں لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد دور سے آتے ہوئے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ وہی تھا اور اس کے ساتھ ایک چادر میں لپٹی ہوئی گٹھڑی۔ قریب آ کر مجھے سلام کیا۔ میرا دل اچھل کر سینے سے باہر آ گیا۔
”سر، یہ بہت کم سن ہے اور پہلی مرتبہ گھر سے نکلی ہے۔ خوفزدہ ہے۔ جنگ اور بھوک کی ماری بیچاری اور کیا کرتی۔ بس آپ دھیان رکھنا۔“
میں نے اس کی طرف دیکھا چادر میں لپٹے ہونے کے باوجود اس کے جسم کی کپکپاہٹ صاف نظر آ رہی تھی۔
پھر وہ اس سے مخاطب ہوا،
”گھبرانا نہیں، صاحب بہت اچھے اور رحم دل ہیں۔ ویسے بھی امریکی لوگ زبردستی کے قائل نہیں ہوتے۔ یہ تمہیں بہت پیار سے رکھیں گے۔“
میں دم بخود کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ میں نے اشارہ کیا اور وہ باہر چلا گیا۔ برقع پوش کو بیٹھنے کا کہا، وہ کھڑی رہی۔ آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھا اور خاموشی سے نقاب الٹ دیا۔
شب کی سیاہی کافور ہو گئی۔ اندھیری رات میں چاند چمک اٹھا۔ ایک ایسا چاند جو کہ گنجلک کائنات کے بکھیڑوں کے ڈر سے بادلوں میں منہ چھپا رہا ہو۔ مہ جبیں کے رخساروں پر رنگ انفعال و خجالت کا غلبہ تھا۔ وہ شرم سے بھری آنکھیں زمین پر گاڑے کھڑی رہی۔ پکڑ کر اپنے ساتھ لگانے کی کوشش کی تو اس نے ہاتھ بڑھا کر نرم سی مزاحمت کی۔ اس کی انگلیاں میری انگلیوں میں گتھ گئیں، مگر پھر ڈھیلی پڑ گئیں۔ ہاتھ میں ایسی سرد مہری تھی جیسے برف کے پہاڑ سے ٹھر جاری ہوتی ہے۔ دوسرے ہاتھ سے میں نے اس کے چہرے کو پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔
موٹی موٹی آنکھوں پر پلکوں کی صفیں آراستہ تھیں جن کے پرنم کناروں پر شبنم کے قطرے جگمگا رہے تھے۔ ارغوانی گال اور گلاب کی پنکھڑیوں جیسے نازک تراشیدہ ہونٹ بھی اسی عرق سے تر تھے۔ شبنم کے موتی تھے، بوند بوند بہتے سہمے ہوئے جذبات یا لاچاری کے آنسو، جو قطرہ قطرہ ٹپک کر اس کی بے بسی کو زمین بوس کر رہے تھے؟
پھر اس نے اپنے پلو سے انہیں صاف کیا اور میری طرف دیکھنے لگی۔
میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں میں پیوست کر دیے۔ ہونٹ تھے یا برف کی قاشیں۔ وہ تھوڑی سی کسمسائی۔
میں نے اسے چھوڑ دیا۔
” بس صاحب! اب میں جاؤں؟“
میری جیب میں جتنے بھی ڈالر تھے میں نے اسے پکڑاتے ہوئے کہا،
”جاؤ! لیکن کل پھر آنا۔
ضرور آنا۔ ”
اس نے ڈالر وہیں پھینکے اور بھاگ گئی۔
اسی وقت گل خاں اندر آ گیا۔
”اوہ! تو تم باہر ہی موجود تھے۔ “
”نہیں، صاحب۔“
جھوٹ اس کے چہرے پر لکھا نظر آ رہا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ خوفزدہ تھی۔
”ٹھیک ہے کل اسے پھر لانا۔ اور یہ رقم لیتے جاؤ۔“
وہ نیچے بیٹھ کر ڈالر جمع کرنے لگا۔
جانے لگا تو میں نے یاد دہانی کروائی۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر چلا گیا۔
اگلے دن وہ میرے پاس ہی موجود رہا۔ پھر ذکر کیا تو کہنے لگا
”روزانہ لانا مشکل ہے۔ جس دن ممکن ہوا میں بتا دوں گا۔“
اب وہ اکثر میرے پاس ہی گھومتا رہتا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ رقم کا تقاضا کرنے لگا۔ میں سمجھ گیا اور جتنی اس نے مانگی اس سے زیادہ ہی پکڑا دی۔ اسی رات لانے کا وعدہ کیا اور چل پڑا۔
میں نے اسے ہدایات دیں کہ وہ اسے چھوڑ کر چلا جائے اور جب تک میں نہ بلاؤں وہ قریب بھی نہیں پھٹکے گا۔
”صاحب، وہ نازک کلی ہے۔ اکیلے گھبراتی ہے۔ اس نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ قریب ہی رہوں گا۔ آپ بھی تو پہلی ملاقات میں اسے روندنے چلے تھے۔ یہ افغانستان ہے امریکہ نہیں۔“
آج سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ گھڑیاں گن گن کر باقی ماندہ دن گزارا۔ رات کو ساتھیوں نے کھیلنے کی دعوت دی تو سر درد کا بہانہ بنا کر انکار کر دیا۔ رات ڈھلی تو بنکر کی طرف چل پڑا۔ پہاڑیوں نے ردائے شب اوڑھ لی۔ مین گیٹ پر موجود سپاہیوں نے منع بھی کیا لیکن جلد واپسی کا کہہ کر چلا آیا۔ رات کی تاریکی سارے عالم پر چھا گئی۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ آسمان پر ستارے جھلملا رہے تھے۔ بے شمار آنکھیں تھیں جو میری بے خواب آنکھوں کو دیکھ کر مسکرا رہی تھیں، میری ہنسی اڑا رہی تھیں۔ یہ رات اس رات سے بھی بھاری تھی۔
میں اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ برف جیسا رویہ کیوں تھا؟ وہ کم سن اور شرمیلی تھی لیکن جب اس نے رقم وصول کر لی تو وہ میری غرض اور اپنے آنے کا مقصد سمجھتی تھی۔ جب کوئی بندہ بازار سے تازہ و خوش رنگ پھل خریدتا ہے تو اس کا مقصد اسے لذت کام و دہن بنانا ہوتا ہے نہ کہ سونگھ کر واپس کر دینا۔ اگر کوئی عورت بالواسطہ یا بلا واسطہ سنجوگ کا کھیل کھیلنے کا سودا کر لیتی ہے تو کھیل کے اصول و قواعد تو وہ جانتی ہی ہے۔ جب اس نے بنج کرنے کے لیے بنیے کی ریس کر ہی لی تو سودا بھی اس کی طرح پکا ہونا چاہیے تھا۔
رات کے دو بج گئے تو وہ آتے دکھائی دیے۔ گل خاں مجھے دیکھ کر واپس مڑ گیا اور وہ پو قدمی چال چلتے بنکر کے اندر آ گئی۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا۔ آفتابی چہرہ، سہمی لجائی لڑکی، ریشم میں ملفوف شانوں کو جھکائے میرے سامنے کھڑی تھی۔ گداز جسم کی نرم خمیدگی کپڑوں کے اندر سے نمائش کر رہی تھی۔ سکون شب کے مجسمے کو میں نے باہوں میں سمیٹ لیا۔ اس نے کوئی احتراز نہ کیا تو رخساروں پر بوسہ دیا پھر اٹھا کر اسے سامنے پڑی بید کی کرسی پر بٹھا دیا۔ خود اس کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔
میں نے اس کے نرم و نازک ہاتھ تھام لیے۔ وہ بالکل ساکت و صامت پڑی رہی۔ اس کی کمر کے گرد ہاتھ پھیرتا تو وہ کسمساتی اگر اس کی گردن کو پکڑنے کی کوشش کرتا تو وہ خاموشی سے میری گود میں ڈھلک جاتی۔ اس کے منہ پر ہاتھ رکھا تو وہ برف کی مانند سرد تھی بالکل یخ پارہ۔ اس کے جسم میں گرمی نہیں تھی، شاید اس کی رگوں میں خون نہیں سفید سیال دوڑتا تھا۔ حسن و جمال خنک تھا اور دل دھڑکن سے خالی۔
جھکی جھکی نگاہیں پتھر ہو گئی تھیں۔ میں نے پلکیں اٹھانے کا کہا تو تھوڑی سی حرکت ہوئی۔ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ میں نے لاکھ دلاسا دیا، سمجھایا، بجھایا ہر طریقہ سے اطمینان دلایا، رونا جاری رہا اور سسکیاں کراہوں میں بدل گئیں۔ دلسوزی اور ملاطفت سے اس کا حوصلہ بندھایا تو خاموش ہو گئی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
باہر آ کر میں نے گل خان کو آواز دی۔ وہ دوڑا چلا آیا۔ جو کچھ میرے پاس تھا سب تھما دیا اور کہا اسے گھر پہنچا دو۔
جاتے جاتے وہ واپس مڑی اور میرا ہاتھ پکڑ کر اس کی پشت پر ایک بوسہ دیا جو سورج کی کرنوں میں نہائے ہوئے گلاب کی طرح گرم تھا۔
وہ رات اتنی سرد تھی کہ جہنم بھی ٹھٹھر جائے، میں بھی اس نازک سی یخ بستہ لڑکی کے جسم سے اٹھنے والی ٹھر سے منجمد ہو چکا تھا لیکن بوسہ اتنا گرم تھا کہ میرا ہاتھ آج تک اس کی حرارت میں جل رہا ہے۔
سیّد محمد زاہد