آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمز

ادب،ناول اور معاشرے کا باہم اتصال

ایک جائزہ ۔ پروفیسر محسن خالد محسنؔ

انسان کے دنیا میں قدم رکھنے کے بعد دن رات کے مشاغل اور ان کی روزمرہ زندگی میں بدلاؤ، ماحول ،معاشرہ اور افراد کی ذہنی سطح غرض ہر چیز نے انسان کو متاثر کرنا شروع کیا ۔انسان کی شکل وسوچ کی طرح ذہنی سطح،فہم و ادراک میں بھی قدرت نے فرق رکھا ہے۔ ذہنی رجحانات انسان کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں ۔ سو پہیے کی ایجادسے لےکر مریخ تک رسائی اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کا تجسس اور خواہش اس کو متحرک رکھتے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے سو چنے ،سمجھنے، محسوس کرنے کی حس سے نواز کراشرف المخلوقات کے مرتبے سے نوازا۔معا شرہ انسانوں سے بنتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ،جذباتی وابستگی، اختلافات اور جینا مرنا معاشرے کی بنیادیں ہیں۔
معاشرہ مختلف کرداروں کا اسٹیج ہے جہاں فنکار اپنے کردار کو نبھانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ۔عمر اور وقت کے لحاظ سے فنکاروں کے کردار دار بدلتے رہتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ معاشرہ اور حالات انسان کی سوچ میں فرق ضرور پیدا کر دیتے ہیں۔ ہر انسان دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ادب اس احساس کا نام ہے جس کا تعلق براہ راست انسان کے ذہن سے ہوتا ہے۔ ادب کسی مقصد کے تحت وقوع پذیر نہیں ہوتا بلکہ یہ زندگی کے مختلف تجربات اور مشاہدات کے ساتھ تخیل کی آمیزش کے ساتھ سامنے آتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ادب خود مقاصد کی راہیں متعین کرتا ہے ۔ادیب کی زندگی کے تجربات اور احساسات جب ایک لطیف پیرائےمیں قلمبند ہوتے ہیں تو ادب میں ڈھل جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ادب کےموضوعات زندگی کی طرح متنوع اور وسیع ہوتے ہیں۔زندگی اور ادب کو الگ نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ادیب جب تک اپنے اردگرد کے ماحول اور معاشرے سے وابستہ نہیں ہوگا وہ کبھی کوئی ایسی تخلیق نہیں لاسکتا جو قاری کو متاثر کرے کیوں کہ کہ حق اور مقصدیت کے لبادے میں لپٹی ہوئی بات خیالی اور تصوراتی سوچ سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔انسانی فطرت اور انسانی زندگی کو سمجھنے کے لیے مختلف علوم و فنون مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
ادب چوں کہ انسانی زندگی اور فطرت کے لازوال خزانوں کا امین اور مختلف احساسات و واقعات کا مر قع ہوتا ہےاسی لئے اس کے ذریعے انسانی زندگی کی مختلف صورتوں، مزاجوں ، عادتوں ، رویوں اور حالات سے آگہی ہوتی ہے۔ ادب کا بنیادی وظیفہ انسان کا مطالعہ ہے۔ شاعری ، ڈرامہ، ناول اور افسانہ وغیرہ میں انسانی زندگی اور فطرت کا لہجہ، رنگ اورتصویر پیش کی جاتی ہے ۔ادب کامعاشرے سے بہت گہرا تعلق ہے۔ادب کے ذریعے اخلاقی ,مذہبی اور معاشرتی قدروں کی تبلیغ ہوتی ہے .اور ان قدروں کو پھلنے پھولنے اور معاشرے میں نافذ ہونے کا موقع ملتا ہے۔ادب چوں کہ انسان تخلیق کرتے ہیں اس لئے اس میں واقعات و حالات بھی انسانی زندگی اور معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انسانی معاشرہ جن اصولوں پر قائم ہوتا ہے وہ اس کی اقدار کہلاتی ہیں ۔ ان اقدار میں مذہب، تہذیب اور جغرافیے کا رنگ اور رس شامل ہوتا ہے ۔
ادب غیر محسوس طریقے سے اخلاقی اقدار کا درس دیتا ہے ۔ کہانیوں ،قصوں اور حکایتوں کے ذریعے مذہبی ،اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو نہایت عمدگی سے پیش کیا جاتا ہے اور پڑھنے والوں پر اس کا اثر بھی دیرپا اور مستقل ہوتا ہے ۔ ڈراموں اورناولوں میں خیر کے ساتھ شر کے حامل کردار بھی تشکیل پاتے ہیں اور ہر دو کے مزاج ، رویے، اعداد اور خصائل کی عملی صورتیں پیش کی جاتی ہیں۔قاری ان کو پڑھتے وقت خیر کے کردار کے ہمنوا ہو جاتے ہیں اور شر کے نمائندہ کرداروں سے ان کے دل میں نفرت کے جذبات ابھرتے ہیں۔ادب کے ذریعے ثقافتی اور مذہبی ورثے کی ترسیل ہوتی ہے۔ ایک نسل کے تجربات دوسری نسل تک ادب کے وسیلے اور ذریعے سےمنتقل ہوتے ہیں ۔انسانوں کا رہن سہن ،ان کی خوراک ،ان کا لباس ، ان کے رسم و رواج ،ان کی عادات و اطوار، اور ان کے رویے ومیلانات اس کے علاوہ ان کے علوم و فنون کے اسالیب ادب کے پیمانے میں ڈھلے ہوتے ہیں اور ان کی مدد سے نئی نسلیں ان ثقافتی اور تہذیبی آثار سے روشناس ہوتی ہیں اور اپنی زندگی کو ان کے مطابق بسر کرنے کا سامان کرتی ہیں۔ شعروادب کی جس قدر اصناف ہیں ان سب میں ثقافتی اور تہذیبی ورثہ موجود ہوتا ہے۔ ادب کسی قوم کی تہذیب و ثقافت کا عمدہ اظہار ہے۔
نئی نسلیں اس ادب کے ذریعے ہی اپنے آباؤ اجداد کے طرز زیست سے بخوبی آگاہ ہو سکتی ہیں۔قصے کہانیوں میں تہذیب وثقافت کا رنگ تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ نمایاں ہوتا ہے اس لئے کسی بھی قوم کی داستان ادب سے اس قوم کے طرز حیات کا پتہ لگایا جا سکتا ہے ۔ ادب کے توسط سے ہی نئی نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ نئی نسلیں پرانی نسلوں کے تجربات اور نتائج سے استفادہ کر سکتی ہیں۔ادب کے ذریعے زبان کے ارتقائی سفر اور عہد بہ عہد تبدیلیوں سے آشنائی ممکن ہے ۔زبان جامد شے نہیں اس لیے وقت کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق اس میں تبدیلیاں آتی ہیں ۔ہر زمانے میں زبان نئی لفظیات واضح کرتی ہے جس میں اس زمانے کے سیاسی و تمدنی اور ثقافتی ، رجحانات ،میلا نات اور موضوعات کو پیش کیا جاتا ہے ۔پرانے الفاظ سے دامن چھڑا تی اور لفظوں کو نئے موضوعاتی آفاق سے روشناس کرتی ہے ۔
ادب ان کے مختلف نمونوں کا محافظ ہوتا ہے ۔اس لیے کسی بھی علاقے یا معاشرے اور قوم کی زبان کے عہد بہ عہد صورتحال سے واقفیت کے لئے ادب سے بڑھ کر کوئی وسیلہ نہیں ۔ ادب کے ذریعے ہی انسان کے جمالیاتی ذوق کی نشوونما ہوتی ہے ۔ جمالیاتی ذوق زندگی کے ہر پہلو کی بنیادی ضرورت ہے ۔ادب انسان کی حسیّات کو بیدار کرتا ہے اور اس کے اندر کے انسان کو تہذیب کے ذائقے سے روشناس کراتا ہے اور خود غرضی ، بے حسی، جانبداری ، بے ایمانی، عداوت ، لالچ اوراس طرح کے دوسرے عیوب اور برائیوں سے صرف وہی لوگ محفوظ رہ سکتے ہیں جن کا جمالیاتی ذوق بیدار ہوورنہ ان برائیوں میں آلودہ ہو کر انسان پورے معاشرے کو آلودہ کر دیں۔
ادب انسان کی تربیت کرتا ہے اور اسے اچھائی برائی کی تمیز دیتا ہے اور اس کے اندر کو کثافتوں سے پاک کرکے اُجلا کر دیتا ہے۔دنیا کے ہر ادب کی ابتدا شاعری سے ہوئی ۔انسانی جذبات کے اظہار کا ذریعہ شعر ہی تھا۔ اس صنف کی تاریخ نثر کے مقابلے میں بہت قدیم ہے ۔یہاں تک کہ لکھنے کی تاریخ سے پہلے بھی شعروشاعری موجود تھی۔اردو ادب میں فارسی اور عربی کے اثرات زیادہ ہیں کیوں کہ قدیم ادوار سے ہی عربی اور فارسی میں شاعری کی جاتی تھی۔ اردو میں نثری خزانہ عہدِ قدیم سے خالی نظر آتا ہے اگر کہیں کچھ ملتا ہےتو وہ بھی فارسی داستان کا ترجمہ ہے۔
جدید اردو نثر کی ابتدا انیسویں صدی سے ہوئی ہے۔جب ڈاکٹر گلکرسٹ نے فورٹ ولیم کالج کی بنیاد رکھی ۔ اس کے بعد خطوط غالب نے اردو نثر کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا لیکن حقیقی ترقی 1857ء کے بعد تحریک سر سید کی وجہ سے ہوئی۔ 1857ءکے بعد نئے صنعتی نظام کی آمد اور مغربی ادب کے اثرات کے تحت جونئی اصناف ہمارے ادب میں مقبول ہونا شروع ہوئیں ان میں ناول ایک اہم صنف ہے ۔اٹھارویں صدی کے نثری سرمائے نے انیسویں صدی کے نثری ادب کے لیے راہیں ہموار کیں اور انیسویں صدی کا آغاز اردو زبان و ادب کے لیے بہت سی امیدیں لایا ۔فورٹ ولیم کالج کا قیام اردو نثر کے لئے ایک ایسا روشن ستارہ ثابت ہوا جس کی روشنی چمکتے سورج کی طرح چار سو پھیل چکی ہے۔اردو زبان و ادب کا آغاز و ارتقا دکن سے ہوا ۔ اردو کی اولین نثری کہانی مُلا وجہی کی "سب رس”ہے۔ جو اردو کی قدیم اور اولین نثری کہانی کہلاتی ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد سر سید عہد میں بہت سی نئی اصناف متعارف ہوئی جن میں ناول بھی شامل ہے۔
اردو کا پہلا ناول نگار مولوی نذیر احمد کو کہا جاتا ہے ۔مولوی نذیر احمد نے ناول کو مافوق الفطرت عناصر اور قیاس آرائیوں سے نکال کر کہانی کو فطرت اور مقصد کے قریب کردیا ۔ان کی کہانیاں معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں اور سماجی، معاشرتی اور سیاسی پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ نذیر احمد کے بعد ناول نگاری میں کئی بڑے نام آتے ہیں جن میں پنڈت رتن ناتھ،عبدالحلیم شرر،منشی سجاد حسین،مرزا ہادی رسوا اور علامہ راشد الخیری شامل ہیں۔ یہاں تک کہ مرزا ہادی رسوا نے تو "امراؤ جان ادا ” لکھ کر ناول کو فن کی بلندیوں پر پہنچا د یا۔
تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو اردو ناول میں ایک بڑا اور ایک اہم نام پنڈت رتن سرشار کا ہے ۔ان کے ناولوں میں ہمیں اس عہد کی تہذیب و تمدن ،معاشرت اور روزمرہ زندگی کی بھرپور ترجمانی ملتی ہے۔ اس کے بعد عبدالحلیم شرر ہیں جن کو اردو میں تاریخی ناول نگاری کا بانی کہا جاتا ہے۔ناول چوں کہ اردو ادب میں نو وارد صنف تھی اس لیے اصلاح اور تہذیب و معاشرت کو موضوع بنایا گیا ۔اس کے بعد بیسویں صدی میں ناول نگاری میں نئے موضوعات سامنے آئے کیوں کہ یہ دور بیداری کا تھااور ہر طرف آزادی کا شور تھا۔ ناول اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ ناول میں مصنف زندگی کی تصویر کشی کرتا ہے یعنی وہ جو کچھ اپنے عہد میں محسوس کرتا ہے اس کو بیان کرتا ہے۔
ناول چوں کہ پوری زندگی، معاشرے اور ماحول کی عکاسی کرتا ہے اس لئے اس میں ایک ساتھ کئی کہانیاں چل رہی ہوتی ہیں لیکن ان سب کا مجموعی محرک ایک ہی ہوتا ہے ۔ ناول میں ہم زندگی کو دیکھتے ہیں اور زندگی کی پیچیدگیوں سے قاری اچھی طرح آشنا ہوتا ہے ۔اردگرد رونما ہونے والے واقعات ادیب کو متاثر کرتے ہیں اور یہ واقعات اور حالات کسی نہ کسی روپ میں ادب کا حصہ بن جاتے ہیں۔زیادہ تر ناولوں میں زندگی کے مسائل کو پیش کیا جاتا ہے ۔ایسا شاید اس لیے ہے کہ ناول نگار زندگی کے مسائل کو اجاگر کرکے اصلاح معاشرے کا مقصد پورا کرتا ہے کیوں کہ معاشرے اور دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ادب کا حصہ ضرور بنتا ہے ۔بلاشبہ ایک مصنف اپنے اردگرد سے متاثر ہوتا ہے لیکن اس کی تخلیقی صلاحیتوں سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ تخلیقی صلاحیت ایک ادیب کو عام سے خاص اور منفرد کرتی ہے ۔ ناول چوں کہ اپنے عہد کا عکاس ہوتا ہے اس لیے اس کے موضوع کی اہمیت جاننے کے لیے اس عہد، اس کے مسائل اور فکر کو کو جاننے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ایک ناول نگار اپنی کہانی کے ذریعےسیاسی ،معاشی اور معاشرتی مسائل کو اجاگر کرتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ناول زندگی کے کینوس سے جنم لیتا ہے اور زندگی میں کئی طرح کے مسائل ہوتے ہیں ۔ حالات اور زمانے کی گردش جو کچھ سامنے لاتی ہے وہ ادب کا حصہ ضرور بنتا ہے۔ناول بذات خود زندگی کا عکاس اور زندگی کے قریب ترین تحریر کا نام ہے ۔ ناول کو پرتاثیر بنانے کے لئے ناول نگار کو دیکھنے اور سوچنے کے لیے تخیل کو حقیقت سے جوڑ کر ایسی کہانی تخلیق کرنا ہوتی ہے جو لوگوں کوقریب لا سکے۔اس طرح ہر طبقہ دوسرے طبقے اور ہر معاشرہ دوسرے معاشرے کے مسائل و حالات سے آگاہ ہوجاتا ہے۔


محسن خالد محسنؔ

محسن خالد محسن

محسن خالد محسن لیکچرار، گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج چنگ، لاہور

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button