- Advertisement -

شامت اعمال ہیں

پیام سحر - اویس خالد

awais khalid

 

حضرت انسان خود کو کسی صورت بھی کسی برائی و کوتاہی کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا بلکہ خود کو ناصرف بے قصور و مجبورسمجھتا ہے بلکہ دوسروں پر بھی اپنی معصومیت ثابت کرنے کے لیے اپنی پوری عقل لگا دیتا ہے۔ اسے یہی لگتا ہے کہ سب اچھا اس کی فہم و فراست سے ہی ممکن ہوا ہے اور برائی کا ذمہ دار کوئی دوسرا ہی ہے۔نیکی کا سبب وہ خود ہے جبکہ گناہ کی وجہ صرف اور صرف ابلیس ہے۔ہر گناہ کا پہلے جواز بناتا ہے اور اس کے لیے خود کو مختلف حیلے بہانوں سے راضی کرتا ہے اور پھر اسے کر گزرتا ہے لیکن جب اس فعل بدکے برے اثرات برآمد ہوتے ہیں تو وہ دوسروں کے سر چڑھتا ہے،کوئی نہ ملے تو تقدیر سے ہی شکوہ کرنے لگتا ہے اور پھر بسا اوقات اسے اس کی صفت بندگی کا بھی لحاظ نہیں رہتا اور یہاں تک کہ وہ گستاخانہ و کافرانہ جملے بھی ادا کر بیٹھتا ہے۔ایک معروف نظریہ اور بھی پایا جاتا ہے کہ انسان پر جب کوئی تکلیف یا مصیبت آتی ہے تو بجائے اس کے کہ وہ اپنے اقوال و افعال پر غور کرے اور اپنے عیب تلاش کرے وہ اسے بس یوں تعبیر کرتا ہے کہ یہ سب زندگی کا حصہ ہے۔ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔

ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کرتا تھا،کبھی خوشی،راحت اور سکون میسر ہوتا تھا تو کبھی پریشانیاں اور غم لاحق ہو جاتے تھے،لہذا یہ عام سی بات ہے۔ اس میں اتنی فکر کی ضرورت نہیں ہے۔اور ہمارے اعمال کا اس میں کچھ بھی عمل دخل نہیں ہے۔ ایسا کم علمی کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔آج انسان کی بربادی کے پیچھے بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ ہم نے دین اسلام کے سنہری اصولوں سے انحراف کر لیا ہوا ہے۔آپ اکثریہ جملہ سنتے ہیں،اس جملے کی صدائیں مسجدوں کے منبروں سے بھی اکثر بلند ہوتی ہیں اور واعظین و ناصحین پکار پکار کر یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے قرآن کی تعلیمات کو بھلا دیا ہے۔بھلانے کے حوالے سے تو تب کہا جا سکے گا کہ جب ہم نے یاد کیا ہو اور اب عمل کرنا بھول گئے ہوں۔بھلایا تو انھوں نے جنھوں نے پڑھا تھا۔ہم جس دور میں آ گئے ہیں اورجس جدید دور کے باسی ہیں،ہم نے تو ابھی قرآن کو پڑھا ہی نہیں تو بھلانا کیسا۔ہم میں سے کتنے فیصد لوگ ہیں جو قرآن کو ترجمے سے اس نیت سے پڑھتے ہیں کہ اس کو سمجھ کر اپنی زندگی اس کے مطابق گذاریں گے۔یا جب ہمیں کوئی معاملہ درپیش ہو تو قرآن کھول کر دیکھتے ہیں یا علمائے حق سے رابطہ کرتے ہیں کہ اس میں ہمارے پاک پروردگار نے اس مسئلے کا کیا حل بتایا ہے۔سورۃ اعراف رکوع ۲۱،آیت ۴۹،۵۹ اور ۶۹ میں ارشاد ہے جس کا مفہوم ہے”ہم نے جس بستی میں بھی کوئی نبی(علیہ سلام) بھیجاتو ہم نے (اس نبی(علیہ سلام) کی تکذیب کے باعث)اس بستی والوں کو تنگی اور تکلیف میں مبتلا کر دیا تا کہ فریاد کریں۔پھر ہم نے ان کی بد حالی کوخوش حالی سے بدل دیا حتیٰ کہ وہ خوب پھلے پھولے اور انھوں نے کہا ہمارے باپ دادا پر بھی تنگی اور فراخی آتی رہتی ہے،سو ہم نے انھیں اچانک گرفت میں لے لیا اور انھیں شعور بھی نہ ہوا۔اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اورزمین سے برکتیں کھول دیتے مگر انھوں نے (رسولوں کو) جھٹلایاتو ہم نے ان کے کرتوتوں کی وجہ سے پکڑ لیا۔”ان آیات مقدسہ سے واضح ہوتا ہے کہ مصیبتیں شامت اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔اسی طرح سورۃ شوریٰ آیت ۰۳ میں بھی ارشاد ہے کہ "اور تم کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے اور بہت سی باتوں کو تو وہ معاف کر دیتا ہے۔

"اب ذرا اس حدیث مبارکہ پر غور فرمائیں اور اس تناظر میں اپنے موجودہ حالات کا جائزہ لیں اور سوچیں کہ کون سا گناہ کس سزا کا سبب بنتا ہے۔اور اگر ان گناہوں سے بچ جائیں تو ان سزاؤن سے بھی بچ جائیں گے۔ابن ماجہ:۹۱۰۴میں حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول پاکﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا”اے مہاجروں کی جماعت!پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو گئے اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ تم تک پہنچیں:جب بھی کسی قوم میں بے حیائی اعلانیہ ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔جب بھی وہ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں،ان کو قحط سالی،روزگار کی تنگی اور بادشاہ کے ظلم کے زریعے سزا دی جاتی ہے۔جب وہ اپنے مالوں کی زکوۃ دینا بند کرتے ہیں تو ان سے آسمان کی بارش روک لی جاتی ہے،اگر جانور نہ ہوں تو انھیں کبھی پانی نہ ملے۔جب وہ اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑتے ہیں تو ان پر دوسری قوموں میں سے دشمن مسلط کر دیے جاتے ہیں،وہ ان سے وہ کچھ چھین لیتے ہیں جو ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔جب بھی ان کے حاکم وامام اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے تو اللہ پاک ان میں پھوٹ ڈال دیتا ہے۔”اس ضمن میں اور بھی کئی احادیث پیش کی جا سکتی ہیں جو سزاؤں کے اس فلسفے کو واضح کرتی ہیں۔مگر منتہائے مقصود اتنا ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہر مصیبت اور تنگی کی وجوہات میں بجائے اس کے کہ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرائیں یا کسی پر تعویز یا جادو کرنے کا بہتان لگائیں اور دوسروں کو اس کا سبب گردانیں، اپنے اعمال پر غور کریں،اپنے گناہ تلاش کریں اور اس پر صدق دل سے نادم ہو کر اللہ سے معافی کے طلبگار بنیں۔ بے شک وہ معاف کرنے والا ہے۔

 اویس خالد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سیّد محمد زاہد کا ایک اردو افسانہ