- Advertisement -

ایموجیز اور سیکسٹنگ

سیّد محمد زاہد کا ایک اردو افسانہ

تمام افواج اپنے جوانوں کو بہادری کی داد دیتے ہوئے یہ سبق پڑھاتی ہیں کہ وہ دنیا میں سب سے بہترین ہیں۔ ہماری فوج کا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ بہترین آدمی فوج میں نظر آتے ہیں۔ زور تو جسمانی طاقت اور خوبصورتی پر ہوتا ہے لیکن جب فوجی ڈاکٹر بھی ہو تو وہ عقل و فہم اور حسن تدبیر میں بھی بہترین مخلوق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہمارے کرنل (ر) ڈاکٹر صاحب بھی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے۔

خوبصورت تو وہ واقعی ہی بہت تھے۔ ویسے تو مرد کی مردانگی چالیس کے پیٹے میں ہی عروج پر ہوتی ہے، خوشحالی بھی ہم رکاب ہو تو اسے چار چاند لگ جاتے ہیں۔ خاندانی فوجی تھے۔ نسل در نسل صرف حکم چلانا سیکھا تھا۔ دادا انگریز کی فوج میں ڈاکٹر تھے۔ جنگ عظیم میں اپنی بہادری اور طبی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور انعام میں وسیع جاگیر پائی۔

بیگم، صباحت علی خاں، بھی ان پر جان چھڑکتی تھی۔ حسن و جمال میں ہم پلہ بھی تھی۔ ڈھلتی جوانی میں عورتیں بھی پرکشش ہوتی ہیں اور قد کاٹھ اچھا ہو تو ان جیسی عورت تو بامیان کے بدھا کی طرح پرشکوہ ہو جاتی ہے۔ ہمارے علاقے کی خوبصورت، نرم و نازک لڑکیاں ان کے سامنے پانی بھرتی تھیں۔ لیکن عورت ذات اور وہ بھی ڈاکٹر صاحب کی پررعب شخصیت کے زیر اثر! سال ہا سال کے دباؤ کے باوجود گرچہ وہ اسے روایتی عورتوں کی طرح تابع مہمل تو نہ بنا سکے لیکن وہ آہستہ آہستہ اپنا وجود کھوتی جا رہی تھی۔

کبھی برگد کے درخت کے نیچے بھی کوئی پودا پھلا پھولا ہے؟

ڈاکٹر صاحب ہر ماہ لاہور ضرور جاتے۔ فوج میں رہتے ہوئے تو بیگم کو ساتھ ساتھ رکھتے تھے۔ وہاں کا ماحول ہی کچھ ایسا ہوتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی فوجی فنکشن میں شمولیت اختیار کرنی ہوتی تو اسے ساتھ لے جاتے ورنہ ہمیشہ اکیلے ہی گھومتے۔ لاہور میں شامیں ریس کلب میں گزرتیں اور راتیں اپنی کد بانو کے پاس۔

بیگم کو بھی ان کے ساتھ جانے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ کہیں جانا پڑتا تو وہ بھی برا محسوس کرتیں۔ ان کا شوق نت نئے ڈرامے اور سیریز دیکھنا تھا۔ ان سے وقت بچتا تو فون پکڑ کر بیٹھ جاتیں۔ ڈاکٹر صاحب کو ان سب چیزوں سے نفرت تھی۔ گھریلو قسم کے ڈرامے جن میں صرف عشق و محبت کی کہانیاں، سوتن، طلاق اور بیاہ کے افسانے یا ساس بہو کے جھگڑے، انھیں پسند نہیں تھے۔ دونوں کی شخصیت میں یہ بہت بڑا اختلافی پہلو تھا۔ ڈاکٹر صاحب اپنی پسند ٹھونسے والے تھے، اس لیے ان کی موجودگی میں بیگم دبی دبی رہتیں۔ ڈاکٹر صاحب کے ہٹیلے پن نے بیگم کو مجہول کر دیا تھا۔ ان کے جانے کے بعد بھی وہ ہوتیں، ڈرامے اور فون۔

اس بار انوکھی بات ہوئی۔ کد بانو نے ان کی بیگم کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب اس کے ذکر سے چڑتے تھے۔ اس لیے وہ خاموش ہو گئی۔ اگلی ملاقات میں پھر وہی بات ہوئی۔ اس بار تو ایک سابق فوجی دوست نے یہ بھی پوچھ لیا کہ کیا بھابھی نے نام بدل لیا ہے؟

ڈاکٹر صاحب بھڑک اٹھے۔ دوست کان لپیٹ کر چلتا بنا۔

اگلے دن صبح وہ دونوں ناشتہ کی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔ بیگم صاحبہ اپنے فون میں کھوئے ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں کا گھورنا محسوس نہ کر رہی تھیں ‌۔ اسی دوران ملازمہ نے آ کر بتایا کہ کورئیر سروس کا نمائندہ آیا ہے اور مس صبیحہ درانی کا پوچھ رہا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا ماتھا ٹھنکا۔
” صبیحہ درانی!“
انہوں نے بیگم کی طرف دیکھا۔ دوست کی بات ان کے کانوں میں گونجنے لگی۔
غصے سے ملازمہ کو دیکھا اور کہا
”جاؤ! ڈاک لے آؤ۔“
وہ چلی گئی تو پھر بیگم کو گھورنا شروع کر دیا۔
”تم نے درانی دوبارہ لکھنا شروع کر دیا ہے؟ اور نام بھی بگاڑ لیا ہے۔“
بیگم کچھ توقف کے بعد بولیں،
”تمہیں پتا ہی ہے، میری ماں کو صبیحہ نام پسند تھا اور وہ مجھے اسی نام سے پکارا کرتی تھیں۔“
ملازمہ نے ڈاک کا لفافہ لا کر بیگم صاحبہ کو پکڑانا چاہا تو ڈاکٹر صاحب نے ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا۔
وہ ڈاک کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ کبھی اس طرف اور کبھی اس طرف سے۔

کوئی دعوت نامہ تھا۔ فائیو سٹار ہوٹل میں، ابھرتے ہوئے فنکاروں کا پروگرام تھا۔ ٹک ٹاکرز اور ریلز کے فنکار۔ ”تمہیں بلایا گیا ہے! سمجھ سے بالا ہے کہ ان لوگوں سے تمہیں کیا نسبت ہے؟“

”میری ایک دوست ریلز بناتی ہے اس کی طرف سے ہے۔“
”وہ کون سی دوست ہے جسے میں نہیں جانتا؟“

”آپ مصروف رہتے ہیں، ویسے بھی آپ کو اس طرح کے کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ آپ تو فلمیں بھی دیکھنا چھوڑ گئے ہیں۔ اس لیے کبھی ذکر ہی نہیں ہوا۔“

بیگم صاحبہ یوں گویا تھیں جیسے کوئی بات ہی نہیں یا کوئی رمز دراز تھی، ان کی سمجھ سے بالا۔ ڈاکٹر صاحب کے چہرے سے حیرت و صد گونہ پریشانی جھلک رہی تھی۔

”آپ جانے کا انتظام کر دیں گے یا میں اسے ہی کہہ دوں؟“
ڈاکٹر صاحب سمجھ گئے کہ وہ اس موضوع پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتی۔
”ٹھیک ہے میں لاہور تک ساتھ ہی جاؤں گا۔ تم ڈرائیور کے ساتھ ہوٹل چلی جانا۔“

***
اس بار پھر ان کی کد بانو نے بات شروع کر دی۔
”تم نے بیگم کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے، وہ جو چاہے کرتی پھرے۔“
”وہ آزاد ہے، جو چاہے کرے۔“
”لیکن کچھ تو احساس ہو نا چاہیے۔ اب اس نے ٹک ٹاک اور ریلز بنانا شروع کر دی ہیں۔“
”اوہ! یہ تو مجھے پتا ہی نہیں۔“
”تمہیں اپنے کاموں سے فرصت ملے تو دیکھو۔ کیسی عجیب حرکتیں کر رہی ہے۔“
پریشان و مضطرب ڈاکٹر صاحب سوچ میں ڈوبے خاموش بیٹھے رہے۔

***

بیگم صاحبہ سے پوچھنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس دن بھی وہ بات ٹال گئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے ٹک ٹاک اور ریلز کی سائٹس کھولیں۔ تھوڑی محنت کے بعد انہیں صبیحہ کا نام مل گیا۔ پرانے گانوں اور فلمی ڈائیلاگ پر اس کی اداکاری دیکھی۔ ساری رات وہ یہی کھنگالتے رہے۔ کرنل صاحب کو یہ سب بہت برا لگ رہا تھا۔ اگلی صبح انہوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تو بیگم صاحبہ مسکراتے ہوئے کہنے لگیں

”آپ پرانے دور کی باتیں کرتے ہیں دنیا بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ آپ ریلز دیکھا کریں۔ میرے لاکھوں فالورز ہیں۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے۔ ”

گرچہ اس کی آنکھیں اور چہرہ چغل خور تھا لیکن انہیں پڑھ کر کچھ قیاس آرائی کرنا ممکن نہ تھا۔ ایک بات پکی تھی کہ آج اس کی خندہ روئی پھیکی تھی۔

اب وہ روزانہ رات اس کی ریلز دیکھتے۔ ان کے خیال میں ریلز میں گھٹیا اداؤں، چور نگاہوں، اچکے غمزوں، اوباش عشووں کے سوا کچھ نہ تھا۔ انہوں نے تبصرے بھی پڑھنا شروع کر دیے۔ بہت سے کمنٹس سے سفلہ پن اور رذالت جھلکتی تھی۔ کچھ لوگ جذباتی فقرے بھی کس رہے تھے۔ میمز اور ایموجیز بھی انوکھی انوکھی تھیں۔

کئی دن مسلسل دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب کو اس کی مقبولیت کی وجہ مل گئی۔ بیگم صاحبہ کی ریلز اور ٹک ٹاک میں ایک ربط تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ سلسلہ وار ڈرامہ چل رہا ہے۔ کوئی عشقیہ ڈرامہ! جوانی کی ادھوری خواہشات۔ ان میں زیادہ تر وہ باتیں تھیں جو بیگم صاحبہ ان کے ساتھ کیا کرتی تھیں۔ جن کو سن کر ڈاکٹر صاحب کے اعصاب بھاری ہو جاتے، جو جوانی میں بھی ان کو بازاری محسوس ہوتی تھیں۔

فطرت کے اصول عجیب ہیں! دیے سے دیا جلاتی ہے، زندگی سے زندگی، خواہش سے خواہش کو وجود میں لاتی ہے، اس طرح اپنے ہی فنا کے اصول کو باطل کر کے با اصول ہوتے ہوئے بے اصول ہو جاتی ہے۔ خواہشات کو لامحدود کر دیتی ہے، انہیں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رکھتی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ بیگم کی خواہشات ختم ہو چکی ہیں لیکن وہ تو سب بدرجہ اتم موجود تھیں۔

اور پھر ڈاکٹر صاحب کے اعصاب پر ایٹم بم پھٹ گیا۔ سوز کاشر نامی ایک فالور مسلسل کمنٹس کرتا تھا۔ اس کے فقرے ذو معنی اور ساتھ ایک ایموجی بھی ضرور ہوتی۔ ایک کے بعد ایک ریل اس کی پچھلے کمنٹ سے متعلق ہوتی۔ یوں محسوس ہوتا کہ وہ ایک قسط دیکھ کر تبصرے میں آئندہ کا ہدایت نامہ جاری کرتا ہے جس پر اگلی ریل جاری ہوتی ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے پھر آغاز سے دیکھنا شروع کر دیا۔ بعض جملے تو بہت خطرناک تھے۔ ایموجیز کی کہانی انوکھی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اس زبان کو نہیں سمجھتے تھے۔ خطرہ تو انہیں اس وقت محسوس ہوا جب بینگن کی ایموجی دیکھی۔ یہ تو گاؤں کا ان پڑھ گنوار شخص بھی سمجھ جاتا ہے کہ یہ کس کی نشانی ہے۔ اس کے نیچے ہی بیگم صاحبہ کی طرف سے دونوں آنکھیں بند کر کے ماتھے پر ہاتھ رکھے ’نو‘ کی ایموجی موجود تھی۔ جس کے جواب میں سمندری کیکڑا منہ چڑا رہا تھا۔

یہ کیا ہے؟

اب کرنل (ر) ڈاکٹر صاحب کو پتا چلا کہ دنیا کے بہترین مرد اور عقل مند ترین افراد بھی اس دور میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ زمانہ زبردست چال چل گیا ہے۔ نئی سے نئی زبانیں ایجاد ہو رہی ہیں جو کسی ادارے یا سکول میں نہیں پڑھائی جاتیں۔ عقل و فہم اور حسن تدبیر میں بہترین مخلوق ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو اب عام انسان بے وقوف بنا لیتے ہیں۔

اب انہیں زمانے کو سمجھنے کے لیے ایموجیز کی ڈکشنری کھولنی پڑے گے۔

کہانی جو ایک لائک سے شروع ہوئی تھی۔ کیکڑے، ٹیکو، آڑو، اونٹ کے پاؤں، کپ سٹرا سے ہوتی ہوئی ونڈ فیس اور پسینہ، سپرے تک پہنچ چکی تھی۔ دونوں طرف سے ایموجیز کا تبادلہ جاری تھا۔

ڈاکٹر صاحب ہکا بکا رہ گئے۔ اس سے آگے دیکھنے کی ان میں ہمت نہیں تھی۔

***
نیند ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں سے کوسوں دور۔ یہ سوز کاشر کون ہے؟ فیس بک پروفائل لاک تھا۔ وہ ڈھونڈتے رہے، سوچتے رہے۔ ایک ایک ایموجی ان کی آنکھوں کو چندھیاتی تھی اور ہر فقرہ ان کے بھیجے میں گھس کر فتور اٹھا رہا تھا۔ بیگم کے جواب اتنے ہی جانے پہچانے تھے جتنا وہ اسے جانتے تھے۔ کئی جملوں سے ان کے کانوں کی برسوں سے آشنائی تھی۔ اس کے بر عکس اجمال کی کچھ تفصیلات ایسی بھی تھیں جن سے وہ ماضی قریب میں ہی روشناس ہوئے تھے اور وہ خود حیران ہو گئے تھے کہ بیگم کو اس عمر میں کیا ہو گیا ہے!

یہ ہنگامہ خیزی ان کے لیے اچنبھے کی بات تھی۔

وہ غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے۔ کپڑے پسینے میں بھیگ گئے۔ خود پر قابو پانے کی کوشش کرتے تو ڈپریشن بڑھنا شروع ہو جاتی۔ غصہ رنج و غم میں بدل جاتا اور کبھی اندوہ و حرماں میں۔ یہ پیچ و تاب انہیں مجبور کر رہا تھا کہ وہ اسی وقت جا کر بیگم کو جگائیں اور اس سے پوچھیں۔ وہ اٹھ کر چل بھی پڑے لیکن ادھیڑ عمر کرنل (ر) ڈاکٹر دروازے کے سامنے پہنچ کر رک گئے اور سوچنے لگے کہیں جذبات میں آ کر وہ غلط فیصلہ تو نہیں کر رہے۔ وہ کسی حماقت کا شکار تو نہ ہو جائیں گے؟

”مجھے اگلا قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے۔“ وہ خود سے مخاطب ہوئے اور واپس اپنے بیڈ روم میں آ گئے۔

چین تو اب ان کی قسمت میں نہیں تھا۔ فون پکڑ کر پھر ریلز دیکھنی شروع کر دیں۔ کچھ دیر بعد انہیں احساس ہوا کہ بات تو ابھی جاری تھی وہ درمیان میں ہی مغموم و دلبرداشتہ ہو کر برداشت کھو بیٹھے تھے۔

یہ تو سارے اشارے تھے، کہانی آگے کیسے بڑھی؟

اس کے بعد کچھ ریلز میں ہی سوز کاشر کے کمنٹس اور ایموجیز ملیں جن کا بیگم صاحبہ کی طرف سے کوئی جواب نہیں لکھا گیا تھا۔

پھر وہ غائب ہو گیا۔

ڈاکٹر صاحب ساری رات کمنٹس پڑھتے رہے کہ وہ کہیں مل جائے۔ کوئی نئی آئی ڈی نہ بنا لی ہو؟ وہ اس کے تمام کمنٹس اتنی بار پڑھ چکے تھے کہ اس کا لکھا ہوا ایک چھوٹا سا جملہ دیکھ کر بھی پہچان سکتے تھے۔ وہ کھوجتے رہے لیکن کہیں کوئی پتا سراغ نہ ملا۔

اب پریشانی کی نوعیت بدل گئی کہ اس افیئر کا کیا بنا؟
کیا بات ختم ہوگی ہے؟
صبح ناشتہ کی ٹیبل پر ڈاکٹر صاحب بیگم سے بات کرنا چاہتے تھے۔ ہمت جمع کرتے، پھر کھو دیتے۔
بات کہاں سے شروع کرتے؟

بیگم صاحبہ ہمیشہ کی طرح خاموش اور سنجیدہ تھیں۔ وہ اس کی طرف دیکھ رہے تھے ایسے جیسے زندگی بھر نہیں دیکھا تھا۔ گہری سرمئی آنکھوں میں کوئی پشیمانی نہیں تھی۔ ماتھے پر کسی جرم کی تحریر نہیں تھی، ادھیڑ عمر گلابی رخساروں کی چمک میں ڈھونڈنے سے بھی خطا کی پیلاہٹ نہیں ملتی تھی۔ ہاں! مطمئن اور پرسکون خاموشی کوئی بردبار درد چھپائے بیٹھی تھی۔

ڈاکٹر صاحب بہت کچھ جاننا چاہتے تھے لیکن کچھ پوچھنا بھی نہیں چاہتے تھے۔

ایک پردہ تھا جو چاک ہو جاتا تو شاید زندگی بھر دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں نہ جھانک سکتے۔ کہانی تو لگتا ہے ختم ہو گئی تھی۔ آخری ریل بھی وہ دیکھ چکے تھے۔ اس کا شائبہ بھی کہیں نہ تھا۔

جب بیگم صاحبہ نے خود کو سنبھال لیا تھا تو جتلانے سے خرابی ہی بڑھنی تھی۔

کرنل صاحب خود تو کد بانو پالے ہوئے تھے۔ ان کا اپنا دامن کب صاف تھا۔ ایک آہ سرد بھر کر کرسی سے ٹیک لگا لی۔ وہ دکھ تھا یا احساس حقیقت، خجالت تھی یا ندامت جو ہلکی سی آہ کے ساتھ ادھیڑ عمر ہونٹوں سے پھسل گئی۔

اس رات وہ پھر ریلز دیکھتے رہے۔ آخری ریل کچھ دن پہلے ہی جاری ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کے نیچے گول مول کھلکھلاتے چہرے کے ساتھ گلاب پیش کرنے کی ایموجی لگا دی۔

صبح اٹھ کر دیکھا تو اس کے جواب میں ایک ایموجی بیگم صاحبہ بھی لگا چکی تھیں۔ دونوں آنکھیں جھکی ہوئی اور ایک دوسرے میں پیوست انگلیوں کے ساتھ دونوں ہاتھ ہونٹوں کو چھپائے ہوئے تھے۔

 

سید محمد زاہد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شیخ خالد زاہد کا اردو کالم