- Advertisement -

زندگی محبت اور ذلت کی آمیزش ہے

سیّد محمد زاہد کا ایک اردو افسانہ

یہ حقیقت مجھ پر دریائی ویرانوں میں کھلی۔ سفید چادر اوڑھنے والا محبت نہیں کر سکتا۔ داغدار دامن والا ہی زندگی کی ان بہاروں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔

میری پہلی پوسٹنگ طالب والا پتن کے اس پار ماورائی داستانوں کی زمین تخت ہزارہ میں ہوئی۔ موٹر وے اس وقت نہیں تھی اس لیے سیال موڑ سے وہاں تک ویرانہ ہی ویرانہ تھا۔ چناب کی منہ زور موجوں کو بند باندھ کر قید کر لیا گیا تھا لیکن عشق و محبت تو قلعے کی دیواریں بھی پھلانگ لیتے ہیں۔

مجھے کچھ دن دریا کی حدود کے اندر واقع بنیادی مرکز صحت سید نو بھی جانا پڑتا تھا۔ یہ مرکز صحت گاؤں سے باہر ویرانے میں تھا۔

رجو ذات کی چنگڑ تھی۔ ہسپتال سے متصل جھگیوں میں رہتی تھی۔ وہ دوپہر کو ہمارے ہسپتال آجاتی اور کھانا پکا کر دیتی۔ ہسپتال کی دائی اس سے چڑتی تھی اور ہمیشہ خود ہانڈی روٹی کرنا چاہتی تھی۔ میں تو اس جھگڑے میں نہیں پڑتا تھا لیکن وہ دائی کو غصے سے چولہے کے سامنے سے اٹھا دیتی۔ میں منع کرتا تو کہنے لگتی،

”ڈاکٹر صاب! او ہانڈی چے دھواں شامل کر دیندی اے۔ میں قصائی نال لڑ کر پٹھ دا گوشت لائی آں۔ اس نے پٹھا بٹھا دینا اے۔“

جب وہ یہ بات کر رہی ہوتی تو چولہے سے اٹھتے دھویں کے باعث دریا کنارے پڑے گول کنکروں جیسی موٹی آنکھیں سے پانی بہہ کر اس کی سانولی رنگت کو مزید گہرا کر دیتا۔

وہ آنکھیں جن میں کاجل یا جدید میک اپ کا سماں نہیں تھا اور نہ ہی وہ روایتی دیہاتی لڑکیوں والا شرمیلا پن جو نظروں کو جھکا کر جادو چلاتا ہے لیکن ان میں ازلی و ابدی شگفتگی کا جادو موجود تھا۔ کھانا پکانے کے بعد جب وہ نلکے سے منہ دھو کر سامنے آتی تو پسینے سے شرابور مخمل سا حسین ملائم جسم، ناک نقشہ، آنکھیں اور کالے سیاہ بال بتاتے کہ اس کے حسن میں یونانی تصور کی وہ رمق موجود تھی جس نے دیوتاؤں کے دماغ مختل کر دیے تھے۔ پورے بدن میں کوئی داغ یا نا ہمواری نہیں تھی، ناموزونی کہیں نام کو نہیں تھی۔ گویا کسی ماہر سنگتراش کی مشق و ریاض کا نتیجہ تھی۔

یہ دیکھ کر احساس ہوتا کہ اس یونانی بت کی سانولی رنگت ذوق یزداں کی بھول تھی۔

رجو کی بھر پور جوانی مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتی لیکن کسی میں ہمت نہیں تھی کہ اس کی طرف نگاہ غلط انداز سے دیکھ سکتا۔ اکثر بنی ٹھنی گاؤں کی گلیوں میں جھومتی لچکتی مٹلاتی پھرتی۔ اس کی حرکات جسمانی اور ناز و ادا میں ایک ایسا پرشور معنی خیز اشارہ موجود ہوتا کہ دل چاہتا ہاتھ بڑھا کر اسے چھو کر دیکھا جائے لیکن وہ ہر کسی کی پہنچ سے بہت دور تھی۔ کبھی کوئی دست طمع اس کی طرف بڑھتا بھی تو کہیں اٹک کر رہ جاتا۔ یوں لگتا کہ جیسے بلوری دیوار اس کے اور ہمارے بیچ حائل تھی جس کے پار دیکھا تو جا سکتا تھا، اسے چھونا چاہیں تو ہاتھ اس ٹھنڈے شیشے سے ٹکراتا۔

بہت بہادر تھی، خوف اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتا تھا۔ اس کے سامنے گاؤں کے سب لوگ سہمے سے رہتے۔

ایک شام میں بھلوال سے عملے کی تنخواہ لے کر آیا ہسپتال کا عملہ واپس جا چکا تھا۔ بنیادی مرکز صحت میں صرف ایک چوکیدار کا گھر تھا جو بیوی بچوں سمیت ادھر رہتا تھا۔ ڈاکٹر کے کوارٹر میں ایک کمرہ میں نے صاف کروا رکھا تھا جس میں دوپہر کو اکثر آرام کر لیتا۔

جون کا مہینہ تھا گرمی پوری شدت کے ساتھ پڑ رہی تھی، ایسی گرمی جب چیل اپنا انڈا چھوڑ دیتی ہے۔ کھلیانوں سے گیہوں سمیٹی جا چکی تھی۔ ساری فضا گرد آلود ہو کر دنیا پر چھا گئی تھی۔ وہ ڈھلتے سورج کی چبھتی کرنوں سے بچتے ہوئے ہسپتال میں موجود ایک کیکر کی چھدری چھاؤں میں بیٹھی تھی۔

مجھے دیکھ کر بھاگتے ہوئے آئی اور کہنے لگی،
”سیال موڑ جان والی آخری بس تے کدوں دی جا چکی اے۔“
چوکیدار بولا، ”ڈاکٹر صاب آپ رات میرے گھر گزار لیں۔“
”کیوں وے، تیرے گھر کتھے سون گے، اک کمرہ اے اوہ وی گندا۔“
میں واپس جانا چاہتا تھا
بولی، ”کیسے جائے گا۔ پہاڑ ولوں سرخ آندھی چڑھ آئی اے۔“
میں نے شمال کی طرف دیکھا۔ آسمان کا رنگ سرخ تھا۔

بولی، ”رتی آندھی آنے والی اے۔ بزرگ کہندے نیں گرم خونی ہواواں تب چلتی ہیں جدوں کوئی جوان قتل ہو جائے۔ ساڈے علاقے دے ڈاکو بڑے خطرناک نیں۔ منورے نے کوئی نواں شکار پھڑکا چھڈیا ہوئے گا۔“

میرے پاس تمام عملے کی تنخواہیں تھیں اور گاؤں سے باہر واقع ہسپتال میں کوئی حفاظتی انتظام نہ تھا۔ اس دریائی علاقے میں قانون کی عملداری بالکل نہیں تھی۔ منورا، نامی گرامی بدمعاش تھا جو دریا کے بیلے میں اپنی دہشت جمائے بیٹھا تھا۔ بیلے کو جانے والی پگڈنڈی پر اس نے ایک بورڈ لگایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا، ”بیلے میں پولیس کا داخلہ بند ہے۔“

چوکیدار کو بلا کر کہنے لگی، ”وے توں اپنی تنخواہ لے تے دو ڑدا ہو۔
ڈاکٹر صاب وہم دی گل نہیں ۔ آپ اپنے کمرے چے جاؤ، میں ہوں نہ۔ ویکھاں گی کیڑا ڈاکو ادھر آندا اے۔ ”

وہ رات بہت بھاری تھی۔ سرخ آندھی نے ہر طرف گرد و غبار پھیلا دیا۔ آسمان پر کچھ بادل بھی تیرتے نظر آئے جنہیں ہوائیں اڑا کر لے گئیں۔ گھٹائیں جاتے جاتے اڑتے کبوتروں کی طرح دو چار بیٹیں پھینک کر موسم کو مزید گندا کر گئیں۔

بجلی بند تھی۔ رات مچھر کاٹ کاٹ کر جسم کو تنور بنا گئے۔ نیند پلکوں سے کوسوں دور۔ آدھی رات کو کمرے سے باہر نکلا تو وہ ایک ٹوٹی پھوٹی کھاٹ پر لیٹی نظر آئی۔ مجھے دیکھ کر کروٹ بدلی اور کہنے لگی

”ڈاکٹر! سو جا۔ اس گرمی نوں من دا ساڑ سمجھ کے صبر کر لے۔“
میں کھڑا اس کو دیکھ رہا تھا۔
اٹھی اور ساتھ پڑا کھجور کا ایک پنکھا پکڑ کر لے آئی۔
”سو جا میں تینوں پنکھا جھلتی ہوں۔“

اس کی ان حرکتوں کا کیا مطلب تھا؟ ہم شہری لوگ گاؤں کی رہتل بہتل کو نہیں سمجھتے۔ بہرحال اس رات وہ مجھے اپنا دیوانہ بنا گئی۔

کب نیند آئی اور کب جاگا کچھ پتا نہ چلا۔ یوں لگتا تھا کہ رات آنکھوں میں کاٹی ہے۔ ابھی تڑکا ہی تھا، کمرے سے باہر آیا، دیکھا، اس کی کھاٹ خالی تھی۔ اتنی سویرے وہ کہاں چلی گئی؟

ہسپتال سے نکل کر دریا کی طرف چل پڑا۔ گرمیوں کی صبح کی ٹھنڈی ہوا سے اس بیلے میں ایک نئی تازگی پیدا ہو گئی تھی۔ سورج ابھی افق پر نظر نہیں آیا تھا۔ بہت سے پرندے ایک ساتھ خوش ہو کر چہچہا رہے تھے۔ دنیا جہاں کی سب نیرنگیاں افق پر سورج کا استقبال کرنے کو تیار تھیں۔

وہ دریائی جھاڑیوں کے درمیان پگڈنڈی پر بھاگتی واپس آ رہی تھی۔ اس کے ہاتھوں میں جنگلی پھولوں کا ہار تھا۔ سر کے بال کھلے تھے۔ مٹی سے لتھڑے ننگے پاؤں سے جھلکتی مہندی کی ہلکی ہلکی لالی بہت بھلی محسوس ہو رہی تھی۔

موسم اور ماحول کی بالیدگی و رفعت سے اس کے سانولے گالوں پر پہلے سے زیادہ سرخی اور نکھار پیدا ہو گیا تھا۔ چہرے کی سرخی کالے گلاب کے پھول کی طرح کھل اٹھی تھی کانوں کی لووں سے جھلکتا خون اس گلاب کی حاشیہ آرائی کر رہا تھا۔

”کدھر سے آ رہی ہو؟“

وہ خاموش رہی۔ جھینپ کے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ میرا کچھ حوصلہ بڑھا۔ آگے بڑھ کر اسے چھونا چاہا تو مسکراتے ہوئے بولی

”ڈاکٹر اپنے کام نال غرض رکھ، بہتا فری نہ ہو۔“
یہ کہہ کر وہ ہسپتال کی طرف بھاگ گئی۔
مسکراتے ہوئے اتنا کرخت جواب!
یہ عورت تو ایک اتھاہ چیز تھی۔ میں اس کی تہ نہیں پا سکا تھا۔

اسی رات گاؤں میں ایک ڈکیتی ہوئی اور چوہدری کا گھر لوٹ لیا گیا۔ سارا دن ہسپتال میں اس ڈکیتی کی باتیں ہوتی رہیں۔

یہ عجیب گاؤں تھا!

ڈکیتی کے بعد لوگ جاگ گئے اور اپنے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھے رہے۔ اب دن میں زیادہ تر لوگ منورے کی بہادری کے قصے سنا رہے تھے۔

وہ بیٹھی ٹپے گا رہی تھی
’منورے ماریا ڈاکا
تے تاراں کھڑک گئیاں۔ ’
میں حیران تھا کہ ایک ڈاکو اس علاقے کو لوٹ رہا ہے اور یہ لوگ اس کی بہادری کی داستانیں سنا رہے ہیں۔
رجو سے میں نے پوچھا تو کہنے لگی

”سنتے ہیں جدوں منورا جمیا تے اودھے ابے نے اوہنوں شکرے دے دماغ دی گھڑتی دتی۔ اوہ بہت بہادر اے۔ کدی پولس دے قابو نہیں آیا۔“

(سنتے ہیں کہ جب منورا پیدا ہوا تو اس کے باپ نے اسے شکرے کے دماغ کی گھٹی دی۔ وہ بہت بہادر ہے۔ کبھی پولیس کے قابو نہیں آیا۔ )

”تم لوگ ایک قانون شکن کو کیوں پسند کرتے ہو؟“
”قانون جن کے لیے ہے اوہ اس دی عزت کرن۔ نہ سانوں اے کج دیندا اے، نہ اسیں اینوں من دے آں۔“
(نہ ہمیں یہ کچھ دیتا ہے، نہ ہم اسے مانتے ہیں۔ )

اس کے بعد کئی دن تک اس کی باتیں ہوتی رہیں۔ چونکہ چوہدری کا نقصان بہت زیادہ ہوا تھا اس لیے پولیس بھی کئی دن تک منورے کو ڈھونڈتی رہی۔

***

برسات شروع ہو گئی تھی۔ اس دن بادل یوں جم کے برسے کہ جل تھل ہو گیا۔ ساون کی موسمی ہوا بارش کی جھڑیاں باندھتی پیچ و تاپ کھاتی ہر چیز کو اڑا کر لے گئی۔ بہت سے درخت گر گئے۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ آخری بس بند کے اس پار دور سڑک پر کھڑی ہارن دے رہی تھی۔ میں جانے لگا تو وہ سامنے آ گئی۔ کہنے لگی،

”ڈاکٹر صاب! اج رات ادھر ای رہ لو۔ راستہ بہت خراب اے تے اڈے تک جاندے جاندے بس نے وی چلے جانا اے۔“
مجھے اور اسے بھی، پتا تھا کہ بس نے میرا انتظار کرنا ہے لیکن اس کی آنکھوں میں جھانکا تو
دل مچل گیا۔

وہ شام بہت سہانی تھی۔ میں باریک باریک موچھوں کو بل دیتا بیلے کی طرف چل نکلا۔ گیلی پگڈنڈیوں پر پاؤں میرے دل کی طرح پھسل پھسل جا رہا تھا۔

وہ بھی ساتھ چلتے جا رہی تھی۔ ایک ٹیلہ آیا تو شوخی بکھیرتی میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ میری موچھوں کو چھو کر کہنے لگی،

”ڈاکٹر سوہنے! تیری ادھ کتری موچھاں دا جھوٹا خم کسی پینڈو لڑکی نوں زخمی کر سکدا اے، اسے سدھا کر لے۔“
میں نے ہنستے ہوئے اسے پکڑنا چاہا تو بھاگ گئی۔ کہاں تک جا سکتی تھی ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ تھا۔

میں پاس پہنچا تو اپنی سانولی کلائی جس پر جست کی چوڑیوں کی وجہ سے کالک گہری ہو گئی تھی لہراتی ہوئی بولی

”اس بیلے چے کسی قسم دا کوئی ڈنگا پن نہیں چلتا۔ ادھر تیرے حسن و عشق دی کھیڈ نیں چلے گی۔“

وہ مچلتی جا رہی تھی۔ ساری کائنات سمٹ کر اس کے جسم میں ضم ہو گئی۔ وہ بھاگ کر دور چلی جاتی اور پھر قریب آ جاتی۔ بجلی کی سی سرعت تھی، شاید اس سے بھی زیادہ کیونکہ بجلی نگاہوں کے آگے کو ندتی ہے لیکن اس طرح نہیں، برقی رو تیزی سے دوڑ جاتی ہے لیکن اس سرعت سے نہیں۔

”تم نے مجھے پاگل کر دیا ہے۔“ میں چلا اٹھا۔

”میرا وی تجھ پر دل آ گیا تھا ڈاکٹر پر فیر مینوں تجھ پر رحم آ گیا ورنہ ویکھدی تو کنے پانی میں ہے۔“ (کنے، کتنے )

رات کا کھانا بہت اچھا تھا۔ اتنے بڑے کھانے کا اس نے کہاں سے انتظام کر لیا؟ میں یہ سوچے بغیر کھاتا گیا۔ میرا بستر لگا کر کہنے لگی،

”تھوڑا لک سدھا کر لے میں بیلے چوں ہو کے آئی۔“
مجھے حیران پریشان چھوڑ کر بھاگ گئی۔
واپس آئی تو کہنے لگی
”ڈاکٹر صاب، میرے نال چل۔“ (نال، ساتھ)
میں پیچھے پیچھے چل پڑا۔ ہسپتال کی طرف جا رہی تھی۔
ہسپتال میں روشنی تھی اور کچھ لوگ موجود تھے۔ میں پریشانی سے اسے دیکھنے لگا تو بولی،
”منورے نوں گولی لگی سی زخم خراب ہو گیا اے، ذرا دیکھ لے۔“
٭٭٭
اس رات کے بعد وہ مزید خدمت گزار ہو گئی۔
میرا تبادلہ ہو گیا۔ آخری دن میں نے اسے بلایا۔
”صرف ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، جواب دو گی؟“
”جی!“
”کیا تم اس سے عشق کرتی ہو؟“
”پتا نہیں؟“
”پھر؟“
”اوہ ساڈا ہیرو اے۔“
وہ گردن جھکائے بولتی جا رہی تھی۔

”پولس اودھے پچھے اے۔ جنیاں دی عمر ویسے ای تھوڑی ہندی اے۔“ (پولیس اس کے پیچھے ہے۔ جوان مردوں کی عمر ویسے بھی تھوڑی ہی ہوتی۔ )

”پھر تم خود کو کیوں خراب کر رہی ہو؟“
فراخ سینے پر لٹکتے دوپٹے کے پلو کو سمیٹا۔ اسے اپنے جسم کے گرد لپیٹ کر کہنے لگی،

”کیوں ڈاکٹر جی! جنا، سانوں قانون دے جلم توں بچاندا اے، جے اوہ شودھا پیاسا ہوئے تے اوہنوں پیاسا مرن دیے؟

دو گھٹ جندگی پی لئے گا تے اودھی ترٹ مک جائے گی۔ ساڈا کی وگڑدا اے۔ ”

(وہ بہادر جوان ہمیں قانون کے ظلم سے بچاتا ہے۔ اگر وہ پیاسا ہو تو کیا اسے پیاسا ہی مرنے دیا جائے؟ دو گھونٹ زندگی پی لے گا تو پیاس کی شدت میں کمی آ جائے گی۔ ہمارا کیا بگڑتا ہے۔ )

 

سیّد محمد زاہد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سید زاہد کا ایک کالم