- Advertisement -

نصف عورت

سیّد محمد زاہد کا ایک اردو افسانہ

وہ نصف عورت تھا/تھی اور نصف انفعال و جستجو۔ اس کا شباب سرور سے سکر، سکر سے سرشاریت کی حد تک پہنچ گیا تھا اور وہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکی تھی کہ وہ عورت ہی کہلاتی رہے یا دنیا کو اپنی کشمکش سے آگاہ کر کے اپنی دلی جذبات بیان کر دے۔ لیکن اس شباب کا کیا کرتی جو رعنائی جمال کا اعلیٰ نمونہ تھا۔ جو عورتوں کی دنیا میں نسوانی حسن کا سحر آگیں اعجاز کہلاتا تھا۔ انتخاب شوہر کی حس جو جوان جہان عورتوں میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے اس میں ذرا برابر نہیں تھی۔ اس کے حسن کے چرچے زبان زد عام تھے۔ وہ مردوں کی نگاہوں سے بچنے کے لیے نقاب اوڑھے رکھتی۔ جب شہر کے کسی پارک کے پھولوں بھرے کنج کی ابر آلود شام بجلی کی چمک سے لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کرتی تو جوان دلوں کو پتا چل جاتا کہ آج شام ماہ لقا گلشن میں جلوہ نما ہے۔

وہ مردوں سے خوفزدہ ہو کر نقاب نہیں اوڑھتی تھی بلکہ اسے مردوں کی بدتمیزی سے تاڑتی، جنسی خواہشات سے لبریز نظریں ذرا نہیں بھاتی تھیں۔ وہ مرد کو پسند ہی نہیں کرتی تھی۔ اس کا تجربہ بھی ناکام ہوا تھا۔ اس کے برعکس جب کوئی لڑکی اس کے حسن کے قصیدے پڑھتی تو پتا نہیں کون سی حس انگڑائیاں لینے لگتی۔ اسے اپنا حسن ہی بھانے لگتا۔

لیکن وہ کیا کرتی؟

پھول اپنی نگہت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ کلی اپنی رعنائی پر کیسے فریفتہ ہو سکتی ہے؟ اپنے شباب کی شراب کون چکھ سکا ہے؟ جوانی کا خمار تو افشردہ انگور کا خواہش مند ہوتا ہے۔ بنت العنب یا بنت حوا ہی اس کیف و سرشاری کو قابو کر سکتی ہے۔

سارا بچپن ہسپتالوں کے چکر لگاتے گزرا تھا۔ مردوں کے علاوہ دوسری چیز جو اسے دکھ دیتی وہ ہسپتال اور ادویات تھیں۔ تیس سالہ زندگی کا کوئی دن ایسا نہیں تھا جب ادویات اس کی خوراک میں شامل نہ ہوں۔ ڈاکٹرز کا سامنا کرنے سے وہ کتراتی تھی اس لیے ماں ہمیشہ اس کے ساتھ جاتی۔

وہ ایک ایسے پیدائشی نقص کے ساتھ پیدا ہوئی تھی جس میں اعضا کی شناخت دھوکا دیتی ہے۔ پیشاب کا سوراخ عورتوں ‌ جیسا تھا۔ اندام نہانی نہیں تھی۔ دہان فرج موجود تھا اور بہت بھاری تھا۔ چھونے سے ہی محسوس ہوجاتا کہ دونوں طرف خصیے موجود ہیں لیکن لنگ موجود نہیں ‌ تھا۔ الٹراساؤنڈ سے پتا چلا کہ پیٹ کے اندر انڈے دانیاں اور بچے دانی بھی ہے۔ ڈاکٹرز نے ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کے بعد بتایا کہ جنیاتی طور پر وہ لڑکا ہے۔ (XY 46)۔ والدین کو بتایا گیا کہ بچے کو روایتی جنسی شناخت دینے کے لیے کچھ آپریشن کرنا پڑیں گے جن کے ساتھ اس میں انفیکشن اور دیگر مسائل پیدا ہوں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عضو تناسل بنانا بہت مشکل ہے اور وہ مردانہ طاقت کا حامل بھی نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ بچے کی جنس عورت ہی رہنے دیں تو نتیجہ بہتر ہو گا۔ اس کو بچپن میں کم مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، آپریشن بھی کم ہوں گے۔ کچھ آپریشنز کے بعد اسے مکمل عورت بنا دیا جائے گا اور اسے ایک بہترین اور صحت مند زندگی گزارنے کا موقع ملے گا۔ گرچہ وہ اولاد پیدا نہیں کر سکے گی جو کہ لڑکا بن کر بھی نہیں کرسکے گی لیکن ہارمونز دے کر اسے ایک اچھی لڑکی بنایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹرز کا کہنا تھا، ”تذکیر و تانیث کا فرق انسان نے تخلیق کیا ہے، جنسی شناخت ہماری جبلت نہیں۔ یہ فطری یا پیدائشی پہچان نہیں : بچے کو جنسی شناخت ہم دیتے ہیں۔ اگر ہم بچے کو لڑکی کے طور پر پروان چڑھائیں گے تو کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا۔ ڈاکٹرز نے والدین کو مشورہ دیا تھا کہ اس بات کا بشمول اس کے کسی کو پتا نہیں چلنا چاہیے۔“

*** ***

جوانی اس پر ٹوٹ کر برسی تھی۔

جوانی جنسی کشش اور طلعت زیبائش کا ہی نام ہے۔ یہ طلع بدر ہارمونز کا مرہون منت ہے۔ ان کی وجہ سے جسمانی و ذہنی بلوغت عروج پر ہوتی ہے اور جنسی خواہشات بھی پروان چڑھتی ہیں۔ جوانی کی چمک دیکھ کر ہی جنس مخالف میں طاقت کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ شباب حیات سے علیحدہ کوئی انوکھی ہی چیز ہے۔ زنانہ ہارمونز مردانہ جسم و جان پر اثر انداز ہوئے تو وہ یونانی دیویوں کی طرح کی ہو گئی جن کے مجسموں کے خد و خال تو عورتوں جیسے ہیں لیکن ڈیل ڈول مردوں والا۔

لوگ کشیدہ قامتی کو مردانگی اور سبک خرامی زنانہ خوبی گردانتے ہیں ؛ طاقت اور اینٹھن مردوں کی صفت اور چھریرے بدن، نازک کمر کے ساتھ رفتار میں لوچ زنانہ وصف کہتے ہیں، عورت ہونا تو ویسے ہی ایک قہر ہے اس پر مستزاد طاقتور و حسین قد کاٹھ کی عورت۔

ان سب خوبیوں نے مجتمع ہو کر اسے ایک ایسی قہر بلا بنا دیا تھا جو مردوں کو تاراج کر لیتی ہے۔ یہ قہر ان پر تو قیامت ڈھا ہی رہا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ خود اس کا زیادہ شکار تھی۔ اس کو کچھ سمجھ نہیں آتی تھی۔ وہ محبت چاہتی تھی۔ محبت کو اس کی جستجو تھی لیکن وہ والی نہیں۔

پھر کون سی محبت؟

یہ دیوانگی تھی یا شوریدہ سری، جس محبت کو اس کی جستجو تھی وہ خود اسی کے بارے میں متجسس تھی۔ جس عشق کو اس کی تمنا تھی وہ خود اس جیسے عشق میں غرق ہونے کی تمنائی تھا۔

یہی وہ عمر تھی جب وہ خود کو ڈھونڈ رہی تھی اور اسے اپنے بارے پتا چلا۔ اتفاقاً ایک دن اس نے ڈاکٹر کے پاس موجود اپنی فائل پڑھ لی۔ اس کے نام کے نیچے جنس کے خانے میں لکھا تھا

”لڑکی: جو اصل میں لڑکا ہے۔“

جب اسے حقیقت کا ادراک ہوا تو وہ مزید الجھ گئی۔ اس کا من اندھیرے سے بھر گیا تھا۔ اس تاریکی کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے نور کی تلاش تھی۔

اس نے ہارمونز لینے بند کر دیے کیوں کہ یہی اسے عورت بنا رہے تھے۔ وہ مرد بننا چاہتی تھی۔ اسے پتا تھا کہ مرد نہیں بن سکتی اس کے والدین کا فیصلہ صحیح تھا۔ وہ کیا کرتی اسے لڑکیاں پسند تھیں۔ وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی لیکن محبت پر تو کسی کا اختیار نہیں وہ کسی سے بھی ہو جاتی ہے۔ یہ تو ایک مجبوری ہے۔

ڈاکٹرز نے صحیح کہا تھا کہ جنس کی شناخت جبلی نہیں۔ جسمانی اعضا جنسی رغبت کی نشاندہی نہیں کرتے۔ یہ ہر انسان کی اپنی پسند ہے کہ وہ خود کو کیا کہلانا چاہتا کرتا ہے، وہ کیا کرنا چاہتا اور وہ کس طرح اپنی زندگی گزارنے کا خواہش مند ہے۔ جنس انسانوں کا ذاتی معاملہ ہے۔ قدرت نے جو ہمیں دیا ہم اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اسے بدل بھی سکتے ہیں اور اپنی ضروریات کے مطابق ڈھال بھی سکتے ہیں۔

وہ اپنا بھرپور شباب خلوت و مہجوری میں نہیں کاٹنا چاہتی تھی، اسے ایک سہارے کی ضرورت تھی؛
ایک ساتھی کی،
ایک پارٹنر کی۔

(ماخوذ)

سیّد محمد زاہد
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
مقصود وفا کی ایک اردو غزل