- Advertisement -

بیٹی، ماں اور نانی

تین نسلیں - ایک کہانی

دریشہ اپنی ماں اور نانی کے ساتھ جب سمندر کنارے پہنچی تو سورج غروب ہو رہا تھا۔ گلاب کے رنگ میں نہائی کائنات سونے کی طرح چمک رہی تھی۔ سر پر تیرتے لال اور شوخ سرخ بادلوں کا رنگ بیان سے باہر تھا۔ سمندر اتنا شانت تھا جیسے آئینہ۔ سمندری بگلوں کے لہروں کے اوپر اڑتے جھنڈ، ان کے پروں کے اوپر چمکتی دمکتی لال روشنیاں، عجب سماں باندھ رہی تھیں۔ ہوا کی سائیں سائیں، بگلوں کی کائیں کائیں اور ان کے پروں کی پھرپھراہٹ سب مل کر ایک آرکسٹرا بن گئے تھے۔
شام ڈھلتے ہی لوگ واپس جانا شروع ہو گئے۔ بھیڑ چھٹ گئی لیکن ساحل پر اب بھی کچھ شجرممنوعہ کی پھولوں بھری لچکیلی ٹہنیاں لہراتی نظر آتی تھیں۔ کنول کے پھول اور پتے کھا کر پلنے والی جل پریوں سے بھی زیاده نرم و نازک ایسی حسینائیں بھی تھیں جن کا خمار دیکھ کر دل دھڑکنا بھول جاتے ہیں۔ ان کے قہقہوں میں گونجتی نقرئی گھنٹیوں کی آوازیں ہنسی کا صدقہ دے کر اپنے حسن کو ہوس بھری نگاہوں سے پاک کر رہی تھیں۔
ماں کے ہونٹوں پر ایسی ہی ہنسی کھلا کرتی تھی۔ وہ کھل کر ہنستی تو ہونٹ خلد بریں کے در کے کواڑوں کی طرح وا ء ہوجاتے لیکن آج صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ ہونٹوں پر پژمردہ ہنسی سجائے، سمندر کنارے بیٹھی ان نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔
دو ہفتے پہلے ہی ماں نے بتایا تھا،
’’ ایک ایسا پیڑ جس کے تنے پر سماروغ اپنے پاؤں گاڑ چکی ہو ،اسے اپنی جڑیں مضبوط کرنی ہوتی ہیں، تاکہ سانپ کی ان چھتریوں سے مقابلہ کر سکے۔‘‘

کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر کہنے لگی ، ’’ایک سانپ نے قلوپطرہ کےحسین سینے میں اپنے دانت گاڑ دئیے تھے۔ اب سرطان کا سانپ میری چھاتی پر بیٹھ کر ڈسنے کو تیار ہے۔‘‘

ماں پہلی گلٹی محسوس ہوتے ہی ڈاکٹر کے پاس پہنچ گئی تھی۔ چھاتی کے کینسر کے جینز اس میں موجود تھے۔ نانی اس خطرناک مرض سے جنگ جیت چکی تھی اور اب ماں نے یہ لڑائی لڑنی تھی۔ وہ پُرعزم تھی۔ ڈاکٹرز کا فیصلہ تھا کہ دونوں چھاتیاں کاٹ دی جائیں۔
صبح اس کا آپریشن تھا۔

ماں چالیس برس کی بھرپور عورت تھی اور دریشہ کے سینے پر جوانی کی بہاریں مچلتے چند سال ہی گذرے تھے۔ بیٹی، ماں اور نانی: عورت کی تین نسلیں۔ عورت جو محبت کا استعارہ ہے؛ جس کا بے مثال اور حیرت انگیز سراپا قدرت نے صرف محبت کے لیے بنایا ہے۔ صرف عورت ہی جانتی ہے کہ ان اندام فاخرہ کی کیسے پرورش کرنی ہے، کیسے سنبھالنا ہے؟

سورج چھپ گیا تو لال روشنی آہستہ آہستہ سطح سمندر اور بادلوں پر ماند پڑتی گئی۔ سب لوگ واپس جا چکے تھے۔ پرندے بھی اپنے گھونسلوں میں جا کر خواب غفلت میں کھو گئے۔ آسمان پر شام کا ستارہ بڑی دلکشی سے چمک رہا تھا۔ اب وہ تینوں بالکل تنہا تھیں۔ زمانہ حال کی پُررونق دنیا ماضی بعید کے ساحلی ویرانے میں واپس چلی گئی تھی۔ صرف آکاش کے ٹمٹماتے راہ رو اور سمندر کی چمکتی لہریں ان کا ساتھ نبھا رہی تھیں۔ بوجھل شام کا غم غلط کرنے کے لیے انہوں نے سمندر کا رخ کیا۔ ماں گیلی ریت پر چلتے ہوئے پاؤں سے لکیریں کھینچتی رہی۔ وہ بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ پھر ماں ریت پر بیٹھ گئی ۔ لہریں اس کے پاس آتیں تو وہ پانی کو ہاتھوں سے چھلکا کر مس پیہم سے لطف اندوز ہونے لگتی ۔ لہر واپس چلی جاتی تو انگلیوں سے یوں موتی ٹپکاتی کہ وہ بھی انہی کا جزو محسوس ہوتے۔ ان کے ساتھ کھیلتے ہوئے وہ بچوں کی طرح بے محابہ ہنس پڑی۔

ہنستے ہنستے اٹھی اور بھاگ کر سمندر کنارے اس چھوٹی سی پہاڑی کی طرف چلی گئی جس کے گرد گھومتی ہوئی لہریں آپس میں ٹکرا کر بھنور بنا رہی تھیں۔ پہاڑی کے اوپر کھڑی ہو کر قمیض اتاری، گردن جھکا کر سینے کو غور سے دیکھا، ہاتھوں سے ان کے لمس کو محسوس کیا ،دمکتے کلس کے مہکتے لمس کی بھینی بھینی خوشبو سے لطف اندوز ہو کر خلیج کے گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ دریشہ اور نانی نے پاس پہنچ کر دیکھا تو حیران رہ گئیں۔
وہ چلّا رہی تھی، ہنس رہی تھی، گا رہی تھی۔
ڈبکی لگا کر باہر آتی، آسمان پر چمکتے چاند کو دیکھتی اور اپنے سینے پر ہاتھ پھیر کر دوبارہ پانی کے اندر چلی جاتی۔ سمندر کی موجیں اس کے ساتھ ٹکرا کر سپید کف میں ڈھل رہی تھیں۔ لہروں سے کھیلتی، مجسمہ حسن و جمال بنی یوں لگتی تھی جیسے وینس دیوی سمندر کی کف سے جنم لے کر زمین پر اتر آئی ہے۔ وہ وینس جس کو بجا طور پر اپنے اعضاء کے کمال اعتدال پر ناز تھا، جو محبت کے دیوتا کیوپڈ کی ماں تھی۔ پورا عالم آب جس کے سامنے سجدہ ریز تھا۔ اہل یونان کا عقیدہ تھا کہ وینس سا حسین ہونا گویا خدا ہونا ہے۔

پھر ماں نے آسمان کی طرف منہ کرکے فلوٹنگ شروع کر دی۔ اس کی چھاتیاں بڑی شان سے پانی کے اوپر صابن کے ہلکے پھلکے بلبلے کی طرح تیر رہی تھیں۔ بھنور کے بیچ کمندنی کے پھول کھل اٹھے۔ چاند غرہ و محاق بھول کر قبہء فلک کے بیچ فروکش ہوگیا۔ نور ہی نور تھا، ہر طرف۔ نور کے اس بھنور میں ناؤ کروٹیں لے رہے تھی۔ اک شعاع ماہ تاباں ٹوٹ کر اس کی طرف لپکی اور چوم کر جھومنے لگی۔ ماں غوطہ زن ہوئی تو وہ بھی شرماتی ہوئی سمندر برد ہو گئی۔

اس سے پہلے دریشہ نے ماں کو اس حالت میں نہیں دیکھا تھا۔ ماں کا نرم سینہ اس کی پناہ گاہ تھا۔ اس نرمی کی گرمی کو اس نے سردیوں کی راتوں میں محسوس کیا تھا۔ دریشہ کا ہاتھ پھسل کر اپنے سینے تک پہنچ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ محبت کا یہ مضبوط پودا کوملتا کا حامل ہوتا ہے۔ سرطان کا پتا چلنے سے پہلے یہی ٹھوس نرمی اسے بھاتی تھی۔ اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ محبت ارنڈ کا پودا بھی بن جاتی ہے جس کا کانٹے دار پھل ہاتھوں کو زخمی کر دیتا ہے اور بیج انٹریوں کو کاٹ کھاتے ہیں۔

نانی نے بھی قمیض اتار کر دور پھینک دی اور پانی کی طرف چل پڑی۔ نانی کے سپاٹ سینے پر دونوں طرف موجود دو لکیریں کسی حسینہ کے تیکھے نینوں میں موجود کجرے کی دھار کی طرح چمک رہی تھیں۔
دریشہ نے بھی دونوں کے پیچھے ہی تیرنا شروع کردیا۔ وہ ان کے پاس پہنچی تو ماں اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی
’’جوبن کی اس بہار کو میں آخری بار چاند کی چاندنی میں، کھلے آسمان کے نیچے دیکھنا چاہتی تھی۔ سمندر کی وسعت میں اسے محسوس کرنا چاہتی تھی۔ ان سے پیار کرنا چاہتی تھی۔‘‘

ماں کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔ نمکین پانی کو نمکین سمندر نے پی لیا تھا۔ کہتے ہیں کہ جل پریوں کے آنسو نہیں ہوتے اور ان کا دکھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ خطہء ارض پر بسنے والے مردوں کے حسن پر فریفتہ یہ نامکمل پریاں ان سے مواصلت کی آرزو دل میں بسائے ترستی رہتی ہیں۔ وہ ان لذات سے آشنا ہو ہی نہیں سکتیں جن سے حوران ِ ارض کی راتیں لبریز ہوتی ہیں اس لیے ان کا غم زمین پر بسنے والوں کے غم کی نسبت کہیں زیادہ گہرا اور تلخ ہوتا ہے۔

سمندری موجوں کا لوچ آنسوؤں کے ساتھ ماں کے دکھوں کو بھی بہا کر لے گیا تھا۔ وہ جل پریوں کی طرح پورا دھڑ پانی سے باہر نکالے کھڑی تھی۔ اس کا سینہ و کمر کا تناسب اور جسم کا نشیب و فراز سمندر میں تلاطم کا باعث بن گیا۔ گیلے سینے کی مغرور اونچائیوں پر پانی کے تھرتھراتے قطرے قدم جمانے کی ناکام کوشش کرتے پھسلتے جا رہے تھے۔ چاند اپنے بھرپور وجود کے ساتھ چادر سیمیں پھیلائے سمندر میں اتر چکا تھا۔ موجیں جن میں ضیاءماہ بس کر رہ گئی تھی، مجسم شام بہاراں کے گرد حلقہ کیے جھوم رہی تھیں۔ ناہید آسماں اس پیار کے شوالا کو روشنی بخش رہا تھا۔ وہ اشعہء صد ستار و ماہتاب کی جگمگاہٹ میں اپنی چھاتیاں کاسۂ دست میں سجائے کھڑی تھی۔ نگاہ ناز سے کبھی انہیں اور کبھی ماہ انوار کو دیکھ رہی تھی۔

دریشہ ٹک دیکھے جارہی تھی۔ حسن عورت کا دوسرا نام ہے۔ کوئی صورت ایسی نہیں جس میں دونوں کو علیحدہ کر کے دیکھا جا سکے۔ جو چیز بھی حسن کا مکمل نمونہ پیش کرتی ہے وہ نسائیت سے خارج نہیں۔ نسائیت کی سب سے بڑی علامت کی اس آب و تاب نے نانی کو بھی مدہوش کردیا۔ بوڑھی عورت نے پھر اپنے سپاٹ سینے کی طرف دیکھا تو اداس ہونے کی بجائے کہنے لگی،
’’تم خوش قسمت ہو کہ تمہاری خوبصورتی برقرار رہے گی۔ میں نے فیصلہ کرتے دیر کر دی اس لیے سب کچھ ہٹانا پڑا۔‘‘
ماں کے چہرے پر رونق لوٹ آئی تھی۔
’’ہاں! ڈاکٹرز نے میرے سینے پر ایمپلانٹس لگا کر خوبصورتی برقرار رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
’’وہ کس سائز کے ہونگے؟‘‘ دریشہ نے سوال کیا۔
’’تمہاری ان مسمیوں سے بڑے، گریپ فروٹ کے سائز کے۔‘‘ ماں نے دریشہ کے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔
بیٹی، ماں اور نانی تینوں ہنستے ہوئے سمندر میں غوطہ زن ہو گئیں۔

 

سیّد محمد زاہد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
مقصود وفا کی ایک اردو غزل