کچھ تاریخی واقعات
شیعہ نقطۂ نظر سے
فتح خیبر
جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حدیبیہ سے واپس لوٹے تو تمام ماہ ذی الحجہ اور ہجرت کے ساتویں سال کے محرم کا کچھ حصہ مدینہ میں توقف کیا، اس کے بعد اپنے اصحاب میں سے ان ایک ہزار چار سوافراد کو جنہوں نے حدیبیہ میں شرکت کی تھی ساتھ لے کر خیبر کی طرف روانہ ہوئے، (جو اسلام کے برخلاف تحریکوں کا مرکز تھا، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی مناسب فرصت کے لئے گن گن کر دن گزار رہے تھے کہ اس مرکز فساد کو ختم کریں۔
روایات کے مطابق جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ’’حدیبیہ‘‘ سے پلٹ رہے تھے تو حکم خدا سے آپ نے حدیبیہ میں شرکت کرنے والے مسلمانوں کو ’’ فتح خیبر‘‘ کی بشارت دی، اور تصریح فرمائی کہ اس جنگ میں صرف وہی شرکت کریں گے، اور جنگ میں حاصل شدہ مال غنیمت بھی انہیں کے ساتھ مخصوص ہو گا تخلف کرنے والوں کو ان غنائم میں سے کچھ نہ ملے گا۔
لیکن جونہی ان ڈرپوک دنیا پرستوں نے قرائن سے یہ سمجھ لیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جنگ میں جو انہیں درپیش ہے یقینی طور پر کامیاب ہوں گے اور سپاہ اسلام کو بہت سامال غنیمت ہاتھ آئے گا، تو وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میدان خیبر میں شرکت کی اجازت چاہی اور شاید اس عذر کو بھی ساتھ لیا کہ ہم گزشتہ غلطی کی تلافی کرنے، اپنی ذمہ داری کے بوجھ کو ہلکا کرنے، گناہ سے توبہ کرنے اور اسلام و قرآن کی مخلصانہ خدمت کرنے کے لئے یہ چاہتے ہیں کہ ہم میدان جہاد میں آپ کے ساتھ شرکت کریں، وہ اس بات سے غافل تھے کہ وحی الٰہی پہلے ہی نازل ہو چکی تھیں اور ان کے راز کو فاش کر چکی تھیں، جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے۔
’’ جس وقت تم کچھ غنیمت حاصل کرنے کے لئے چلو گے تو اس وقت پیچھے رہ جانے والے کہیں گے : ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیں اور اس جہاد میں شرکت کرنے کا شرف بخشیں ‘‘۔[88]
بہرحال قرآن اس منفعت اور فرصت طلب گروہ کے جواب میں کہتا ہے :’’وہ یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے کلام کو بدل دیں ‘‘۔ [89]
اس کے بعد مزید کہتا ہے :’’ان سے کہہ و : تم ہرگز ہمارے پیچھے نہ آنا‘‘ تمھیں اس میدان میں شرکت کرنے کا حق نہیں ہے، یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو میں اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں ’’ یہ تو وہ بات ہے جو خدا نے پہلے سے ہی کہہ دی ہے ‘‘۔ [90] اور ہمیں تمھارے مستقبل (کے بارے میں ) باخبر کر دیا ہے۔
خدا نے حکم دیا ہے کہ ’’ غنائم خیبر‘‘،’’اہل حدیبیہ ‘‘ کے لئے مخصوص ہیں اور اس چیز میں کوئی بھی ان کے ساتھ شرکت نہ کرے، لیکن یہ بے شرم اور پرا دعا پیچھے رہ جانے والے پھر بھی میدان سے نہیں ہٹتے اور تمھیں حسد کے ساتھ متہم کرتے، اور عنقریب وہ یہ کہیں گے : کہ معاملہ اس طرح نہیں ہے بلکہ تم ہم سے حسد کر رہے ہو۔ [91]
اور اس طرح وہ ضمنی طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تکذیب بھی کرتے تھے یہی لوگ ’’جنگ خیبر‘‘ میں انہیں شرکت سے منع کرنے کی اصل حسد کو شمار کرتے ہیں۔
دعائے پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
’’غطفان‘‘ کے قبیلہ نے شروع میں تو خیبر کے یہودیوں کی حمایت کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن بعد میں ڈر گئے اور اس سے رک گئے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت ’’خیبر‘‘ کے قلعوں کے نزدیک پہنچے تو آپ نے اپنے صحابہ کو رکنے کا حکم دیا، اس کے بعد آسمان کی طرف سربلند کیا اور یہ دعا پڑھی:
’’خداوندا ! اے آسمانوں کے پروردگار اور جن پر انھوں نے سایہ ڈالا ہے، اور اے زمینوں کے پروردگار اور جن چیزوں کو انھوں نے اٹھا رکھا ہے میں تجھ سے اس آبادی اور اس کے اہل میں جو خیر ہے اس کا طلب گار ہوں، اور تجھ سے اس کے شر اور اس میں رہنے والوں کے شر اور جو کچھ اس میں ہے اس شرسے پناہ مانگتا ہوں ‘‘۔ اس کے بعد فرمایا:’’ بسم اللہ ‘‘آگے بڑھو: اور اس طرح سے رات کے وقت ’’خیبر‘‘ کے پاس جا پہنچے، اور صبح کے وقت جب ’’اہل خیبر‘‘ اس ماجرا سے باخبر ہوئے تو خود کو لشکر اسلام کے محاصرہ میں دیکھا، اس کے بعد پیغمبر نے یکے بعد دیگرے ان قلعوں کو فتح کیا،یہاں تک کہ آخری قلعہ تک، جو سب سے زیادہ مضبوط اور طاقتور تھا، اور مشہور یہودی کمانڈر ’’مرحب‘‘ اس میں رہتا تھا، پہنچ گئے۔
انہیں دنوں میں ایک سخت قسم کا دردسر، جو کبھی کبھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عارض ہوا کرتا تھا، آپ کو عارض ہو گیا، اس طرح سے کہ ایک دو دن آپ اپنے خیمہ سے باہر نہ آسکے تو اس موقع پر (مشہور اسلامی تواریخ کے مطابق ) حضرت ابوبکرؓ، نے علم سنبھالا اور مسلمانوں کو ساتھ لے کر یہودیوں کے لشکر پر حملہ آور ہوئے، لیکن کوئی نتیجہ حاصل کیے بغیر واپس پلٹ آئے دوسری دفعہ حضرت عمرؓ نے علم اٹھایا، اور مسلمان پہلے دن کی نسبت زیادہ شدت سے لڑے،لیکن بغیر کسی نتیجہ کے واپس پلٹ آئے۔
فاتح خیبر علیؓ
یہ خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا:’’خدا کی قسم کل یہ علم ایسے مرد کو دوں گا جو خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے، اور خدا اور پیغمبر اس کو دوست رکھتے ہیں، اور وہ اس سے قلعہ کو طاقت کے زورسے فتح کرے گا ‘‘۔ ہر طرف سے گردنیں اٹھنے لیگیں کہ اس سے مراد کون شخص ہے؟ کچھ لوگوں کا اندازہ تھا کہ پیغمبر کی مراد علیؓ ہیں لیکن علیؓ ابھی وہاں موجود نہیں تھے،کیونکہ شدید آشوب چشم انہیں لشکر میں حاضر ہونے سے مانع تھا، لیکن صبح کے وقت علیؓ اونٹ پر سوار ہو کر وارد ہوئے، اور پیغمبر اکرم کے خیمہ کے پاس اترے در حالیکہ آپ کی آنکھیں شدت کے ساتھ درد کر رہی تھیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :میرے نزدیک آؤ،آپ قریب گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دہن مبارک کا لعاب علیؓ کی آنکھوں پر ملا اور اس معجزہ کی برکت سے آپ کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہو گئیں اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علم ان کے ہاتھ میں دیا۔
علیؓ لشکر اسلام کو ساتھ لے کر خیبر کے سب سے بڑے قلعہ کی طرف بڑھے تو یہودیوں میں سے ایک شخص نے قلعہ کے اوپر سے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ’’ میں علی بن ابی طالب‘‘ ہوں، اس یہودی نے پکار کر کہا : اے یہودیو! اب تمھاری شکست کا وقت آن پہنچا ہے، اس وقت اس قلعہ کا کمانڈر مرحب یہودی، علیؓ سے مقابلہ کے لئے نکلا، اور کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ایک ہی کاری ضرب سے زمین پر گر پڑا۔
مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان شدید جنگ شروع ہو گئی، علیؓ قلعہ کے دروازے کے قریب آئے، اور ایک قوی اور پُر قدرت حرکت کے ساتھ دروازے کو اکھاڑا اور ایک طرف پھینک دیا، اور اس زور سے قلعہ کھل گیا اور مسلمان اس میں داخل ہو گئے اور اسے فتح کر لیا، یہودیوں نے اطاعت قبول کر لی، اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی کہ اس اطاعت کے عوض ان کی جان بخشی کی جائے، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی درخواست کو قبول کر لیا، منقول غنائم اسلامی لشکر کے ہاتھ آئے اور وہاں کی زمینیں اور باغات آپ نے یہودیوں کو اس شرط کے ساتھ سپرد کر دئیے کہ اس کی آمدنی کا آدھا حصہ وہ مسلمانوں کو دیا کریں گے۔
آخرکار پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تواریخ کی نقل کے مطابق غنائم خیبر صرف اہل حدیبیہ پر تقسیم کئے، یہاں تک کہ ان لوگوں کے لئے بھی جو حدیبیہ میں موجود تھے اور کسی وجہ سے جنگ خیبر میں شریک نہ ہوسکے ان کے لئے بھی ایک حصہ قرار دیا، البتہ ایسا آدمی صرف ایک ہی تھا، اور وہ ’’ جابر بن عبداللہ‘‘ تھا۔
فتح مکہ
فتح مکہ نے تاریخ اسلام میں ایک نئی فصل کا اضافہ کیا ہے اور تقریباً بیس سال کے بعد دشمن کی مقاومتوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا، حقیقت میں فتح مکہ سے جزیرة العرب سے شرک و بت پر ستی کی بساط لپیٹ دی گئی، اور اسلام دنیا کے دوسرے ممالک کی طرف حرکت کے لئے آمادہ ہوا۔
اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ عہد و پیمان اور صلح کے بعد کفار نے عہد شکنی کی اور اس صلح نامہ کو نظر انداز کر دیا، اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعض حلیفوں کے ساتھ زیادتی کی، آپ کے حلیفوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکایت کی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے حلیفوں کی مدد کرنے کا ارادہ کر لیا،اور دوسری طرف مکہ میں بت پرستی شرک اور نفاق کا جو مرکز قائم تھا اس کے ختم ہونے کے تمام حالات فراہم ہو گئے تھے اور یہ ایک ایسا کام تھا جسے ہر حالت میں انجام دینا ضروری تھا،اس لئے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم سے مکہ کی طرف جانے کے لئے آمادہ ہو گئے، فتح مکہ تین مراحل میں انجام پائی۔
پہلا مرحلہ مقدماتی تھا، یعنی ضروری قوا اور توانائیوں کو فراہم کرنا، زمانہ کے موافق حالات کا انتخاب اور دشمن کی جسمانی و روحانی قوت و توانائی کی مقدار و کیفیت کی حیثیت کے بارے میں کافی اطلاعات حاصل کرنا تھا۔
دوسرا مرحلہ، فتح کے مرحلہ کو بہت ہی ماہرانہ اور ضائعات و تلفات یعنی نقصان کے بغیر انجام دینا تھا۔ اور آخری مرحلہ، جو اصلی مرحلہ تھا، وہ اس کے آثار و نتائج کا مرحلہ تھا۔
یہ مرحلہ انتہائی دقت، باریک بینی اور لطافت کے ساتھ انجام پایا، خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ و مدینہ کی شاہراہ کو اس طرح سے سے قرق کر لیا تھا کہ اس عظیم آمادگی کی خبر کسی طرح سے بھی اہل مکہ کو نہ پہنچ سکی۔ اس لئے انہوں نے کسی قسم کی تیار ی نہ کی، وہ مکمل طور پر غفلت میں پڑے رہے اور اسی وجہ سے اس مقدس سرزمین میں اس عظیم حملہ اور بہت بڑی فتح میں تقریباً کوئی خون نہیں بھا۔
یہاں تک کہ وہ خط بھی،جو ایک ضعیف الایمان مسلمان ’’حاطب بن ابی بلتعہ‘ ‘نے قریش کو لکھا تھا اور قبیلہ ’’مزینہ‘‘ کی ایک عورت ’’کفود‘‘ یا ’’سارہ‘‘نامی کے ہاتھ مکہ کی طرف روانہ کیا تھا،اعجاز آمیز طریقہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے آشکار ہو گیا، علی علیہ ا السلام کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ بڑی تیزی سے اس کے پیچھے روانہ ہوئے، انہوں نے اس عورت کو مکہ و مدینہ کی ایک درمیانی منزل میں جالیا اور اس سے وہ خط لے کر،خود اسے بھی مدینہ واپس لے آئے۔
مکہ کی طرف روانگی
بہر حال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ میں اپنا ایک قائم مقام مقرر کر کے ہجرت کے آٹھویں سال ماہ رمضان کی دس تاریخ کو مکہ کی طرف چل پڑے، اور دس دن کے بعد مکہ پہنچ گئے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے راستے کے وسط میں اپنے چچا عباس کو دیکھا کہ وہ مکہ سے ہجرت کر کے آپ کی طرف آ رہے ہیں۔ حضرت نے ان سے فرمایا کہ اپنا سامان مدینہ بھیج دیجئے اور خود ہمارے ساتھ چلیں، اور آپ آخری مہاجر ہیں۔
آخر کار مسلمان مکہ کی طرف پہنچ گئے اور شہر کے باہر،اطراف کے بیابانوں میں اس مقام پر جسے ’’مرالظھران‘‘ کہا جاتا تھا اور جو مکہ سے چند کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ پر نہ تھا،پڑاؤ ڈال دیا۔ اور رات کے وقت کھانا پکانے کے لئے (یا شاید اپنی وسیع پیمانہ پر موجودگی کو ثابت کرنے کے لئے) وہاں آگ روشن کر دی، اہل مکہ کا ایک گروہ اس منظر کو دیکھ کر حیرت میں ڈوب گیا۔
ابھی تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور لشکر اسلام کے اس طرف آنے کی خبریں قریش سے پنہاں تھیں۔ اس رات اہل مکہ کا سرغنہ ابو سفیان اور مشرکین کے بعض دوسرے سرغنہ خبریں معلوم کرنے کے لئے مکہ سے باہر نکلے،اس موقع پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا عباسؓ نے سوچا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قہر آلود طریقہ پر مکہ میں وارد ہوئے تو قریش میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا، انہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اجازت لئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر سوار ہو کر کہا میں جاتا ہوں، شاید کوئی مل جائے تو اس سے کہوں کہ اہل مکہ کو اس ماجرے سے آگاہ کر دے تا کہ وہ آ کر امان حاصل کر لیں۔
عباسؓ وہاں روانہ ہو کر بہت قریب پہنچ گئے۔ اتفاقاً اس موقع پر انہوں نے ’’ابو سفیان‘‘کی آواز سنی جو اپنے ایک دوست ’’بدیل‘‘ سے کہہ رہا تھا کہ ہم نے کبھی بھی اس سے زیادہ آگ نہیں دیکھی، ’’بدیل‘‘ نے کہا میرا خیال ہے کہ یہ آگ قبیلہ ’’خزاعہ‘‘ نے جلائی ہوئی ہے، ابوسفیان نے کہا قبیلہ خزاعہ اس سے کہیں زیادہ ذلیل و خوار ہیں کہ وہ اتنی آگ روشن کریں، اس موقع پر عباس نے ابوسفیان کو پکارا، ابوسفیان نے بھی عباس کو پہچان لیا اور کہا سچ سچ بتاؤ کیا بات ہے؟
عباسؓ نے جواب دیا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں جو دس ہزار مجاہدین اسلام کے ساتھ تمھاری طرف آ رہے ہیں، ابو سفیان سخت پریشان ہوا اور کہا آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں۔
عباسؓ نے کہا:میرے ساتھ آؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے امان لے لو ورنہ قتل کر دیے جاؤ گے۔
اس طرح سے عباس نے’’ابوسفیان‘‘کو اپنے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر ہی سوار کر لیا اور تیزی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پلٹ آئے۔ وہ جس گروہ اور جس آگ کے قریب سے گزرتے وہ یہی کہتے کہ یہ تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر سوار ہیں، کوئی غیر آدمی ہے، یہاں تک کہ وہ اس مقام پر آئے، جہاں عمر ابن خطابؓ تھے، جب عمر بن خطابؓ کی نگاہ ابو سفیان پر پڑی تو کہا خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے تجھ ( ابوسفیان) پر مسلط کیا ہے، اب تیرے لئے کوئی امان نہیں ہے اور فوراً ہی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ابوسفیان کی گردن اڑانے کی اجازت مانگی۔
لیکن اتنے میں عباسؓ بھی پہنچ گئے اور کہا: کہ اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے اسے پنا ہ دے دی ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: میں بھی سر دست اسے امان دیتا ہوں، کل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے میرے پاس لے آئیں اگلے دن جب عباسؓ اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا:’’اے ابوسفیان! وائے ہو تجھ پر، کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ تو خدائے یگانہ پر ایمان لے آئے‘‘۔
اس نے عرض کیا: ہاں ! اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا یگانہ ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے،اگر بتوں سے کچھ ہو سکتا تو میں یہ دن نہ دیکھتا۔
آنحضرتؐ نے فرمایا:’’کیا وہ موقع نہیں آیا کہ تو جان لے کہ میں اللہ کا رسو ل ہوں ‘‘۔
اس نے عرض کی:میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو ں ابھی اس بارے میں میرے دل میں کچھ شک و شبہ موجود ہے لیکن آخر کار ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں میں سے دو آدمی مسلمان ہو گئے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عباسؓ سے فرمایا:
’’ابوسفیان کو اس درہ میں جو مکہ کی گزرگاہ ہے، لے جاؤ تاکہ خدا کا لشکر وہاں سے گزرے اور یہ دیکھ لے‘‘۔
عباسؓ نے عرض کیا:’’ابوسفیان ایک جاہ طلب آدمی ہے،اسکو کوئی امتیازی حیثیت دے دیجئے ‘‘پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:’’جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے وہ امان میں ہے،جو شخص مسجد الحرام میں پناہ لے لے وہ امان میں ہے،جو شخص اپنے گھر کے اندر ہے اور دروازہ بند کر لے وہ بھی امان میں ہے‘‘۔
بھر حال جب ابوسفیان نے اس لشکر عظیم کو دیکھا تو اسے یقین ہو گیا کہ مقابلہ کرنے کی کوئی راہ باقی نہیں رہی اور اس نے عباسؓ کی طرف رخ کر کے کہا:آپ کے بھتیجے کی سلطنت بہت بڑی ہو گئی ہے،عباسؓ نے کہا: وائے ہو تجھ پر یہ سلطنت نہیں نبوت ہے۔
اس کے بعدعباسؓ نے اس سے کہا کہ اب تو تیزی کے ساتھ مکہ والوں کے پاس جا کر انہیں لشکر اسلام کا مقابلہ کرنے سے ڈرا۔
ابوسفیان لوگوں کو تسلیم ہونے کی دعوت کرتا ہے
ابوسفیان نے مسجدالحرام میں جا کر پکار کر کہا:
’’اے جمعیت قریش! محمد ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ تمھاری طرف آیا ہے،تم میں اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے، اس کے بعد اس نے کہا: جو شخص میرے گھر میں داخل ہو جائے وہ امان میں ہے،جو شخص مسجد الحرام میں چلا جائے وہ بھی امان میں ہے اور جو شخص اپنے گھر میں رہتے ہوئے گھر کا دروازہ بند کرے وہ بھی امان میں ہے‘‘۔
اس کے بعد اس نے چیخ کر کہا: اے جمعیت قریش! اسلام قبول کر لو تا کہ سالم رہو اور بچ جاؤ، اس کی بیوی ’’ہندہ‘‘ نے اس کی داڑھی پکڑ لی اور چیخ کر کہا:اس بڈھے احمق کو قتل کر دو۔
ابوسفیان نے کہا: میری داڑھی چھوڑ دے۔ خدا کی قسم اگر تو اسلام نہ لائی تو تو بھی قتل ہو جائے گی،جا کر گھر میں بیٹھ جا۔
علیؓ کے قدم دوش رسول پر
اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لشکر اسلام کے ساتھ روانہ ہوئے اور ’’ذوی طوی‘‘ کے مقام تک پہنچ گئے،وہی بلند مقام جہاں سے مکہ کے مکانات صاف نظر آتے ہیں، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وہ دن یاد آگیا جب آپ مجبور ہو کر مخفی طور پر مکہ سے باہر نکلے تھے، لیکن آج دیکھ رہے ہیں کہ اس عظمت کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں، تو آپ نے اپنی پیشانی مبارک اونٹ کے کجاوے کے اوپر رکھ دی اور سجدہ شکر بجا لائے،اس کے بعد پیغمبر اکرم ’’حجون‘‘ میں (مکہ کے بلند مقامات میں سے وہ جگہ جہاں خدیجہؓ کی قبر ہے) اترے، غسل کر کے اسلحہ اور لباس جنگ پہن کر اپنی سوار ی پر سوار ہوئے،سورۂ فتح کی قرأت کرتے ہوئے مسجدالحرام میں داخل ہوئے اور آواز تکبیر بلند کی، لشکر اسلام نے بھی نعرۂ تکبیر بلند کیا تو اس سے سارے دشت و کوہ گونج اٹھے۔ اس کے بعد آپ اپنے اونٹ سے نیچے اترے اور بتوں کو توڑنے کے لئے خانہ کعبہ کے قریب آئے، آپ یکے بعد دیگرے بتوں کو سرنگوں کرتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے:
’’جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقاً ‘‘
’’حق آگیا اور باطل ہٹ گیا،اور باطل ہے ہی ہٹنے والا‘‘۔
کچھ بڑے بڑے بت کعبہ کے اوپر نصب تھے، جن تک پیغمبر کا ہاتھ نہیں پہنچتا تھا،آپ نے امیرالمومنین علیؓ کو حکم دیا وہ میرے دوش پر پاؤں رکھ کر اوپر چڑھ جائیں اور بتوں کو زمین پر گرا کر توڑ ڈالیں، علیؓ نے آپ کے حکم کی اطاعت کی۔
اس کے بعد آپ نے خانۂ کعبہ کی کلید لے کر دروازہ کھولا اور انبیاء کی ان تصویروں کو جو خانۂ کعبہ کے اندر در و دیوار پر بنی ہوئی تھیں، محو کر دیا۔ اس سریع اور شاندار کامیابی کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانۂ کعبہ کے دروازے کے حلقہ میں ہاتھ ڈالا اور وہاں پر موجود اہل مکہ کی طرف رخ کر کے فرمایا:
’’اب بتلاؤ تم کیا کہتے ہو؟ اور تمھارا کیا خیال ہے کہ میں تمھارے بارے میں کیا حکم دوں گا؟ انہوں نے عرض کیا: ہم آپ سے نیکی اور بھلائی کے سواراور کوئی توقع نہیں رکھتے!آپ ہمارے بزرگوار بھائی اور ہمارے بزرگوار بھائی کے فرزند ہیں، آج آپ بر سر اقتدار آ گئے ہیں، ہیں بخش دیجئے، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبانے لگے اور مکہ کے لوگ بھی بلند آواز کے ساتھ رونے لگے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ’’میں تمھارے بارے میں وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے کی تھی کہ آج تمھارے اوپر کسی قسم کی کوئی سرزنش اور ملامت نہیں ہے، خدا تمہیں بخش دے گا،وہ الرحم الراحمین ہے‘‘۔[92]
اور اس طرح سے آپ نے ان سب کو معاف کر دیا اور فرمایا: ’’تم سب آزاد ہو،جہاں چاہو جاسکتے ہو‘‘۔
آج کا دن روز رحمت ہے
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ حکم دیا تھا کہ آپ کے لشکری کسی سے نہ الجھیں اور بالکل کوئی خون نہ بھایا جائے۔ ایک روایت کے مطابق صرف چھ افراد کو مستثنیٰ کیا گیا جو بہت ہی بد زبان اور خطرناک لوگ تھے۔
یہاں تک کہ جب آپ نے یہ سنا کہ لشکر اسلام کے علمدار’’سعد بن عبادہ نے انتقام کا نعرہ بلند کیا ہے اور وہ یہ کہہ رہا ہے کہ:’’ آج انتقام کا دن ہے‘‘ تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علیؓ سے فرمایا، ’’جلدی سے جا کر اس سے علم لے کر یہ نعرہ لگاؤ کہ: ’’ آج عفو و بخشش اور رحمت کا دن ہے‘‘۔!
اور اس طرح مکہ کسی خونریزی کے بغیر فتح ہو گیا،عفو و رحمت اسلام کی اس کشش نے،جس کی انہیں بالکل توقع نہیں تھی،دلوں پر ایسا اثر کیا کہ لوگ گروہ در گروہ آ کر مسلمان ہو گئے،اس عظیم فتح کی صدا تمام جزائر عربستان میں جا پہنچی،اسلام کی شھرت ہر جگہ پھیل گئی اور مسلمانوں اور اسلام کی ہر جہت سے دھاک بیٹھ گئی۔
جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانۂ کعبہ کے دروازے کے سامنے کھڑے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا:
’’خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے،وہ یکتا اور یگانہ ہے،اس نے آخر کار اپنے وعدہ کو پورا کر دیا، اور اپنے بندہ کی مدد کی،اور اس نے خود اکیلے ہی تمام گروہوں کو شکست دے دی، ان لوگوں کا ہر مال، ہر امتیاز، اور ہر وہ خون جس کا تعلق ماضی اور زمانۂ جاہلیت سے ہے،سب کے سب میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہیں ‘‘۔
(یعنی زمانۂ جاہلیت میں ہوئے خون خرابہ کو بھول جاؤ، غارت شدہ اموال کی بات نہ کرو اور زمانۂ جاہلیت کے تمام امتیازات کو ختم کر ڈالو، خلاصہ گذشتہ فائلوں کو بند کر دیا جائے۔ )
یہ ایک بہت ہی اہم اور عجیب قسم کی پیش نہاد تھی جس میں عمومی معافی کے فرمان سے حجاز کے لوگوں کو ان کے تاریک اور پُر ماجرا ماضی سے کاٹ کر رکھ دیا اور انہیں اسلام کے سائے میں ایک نئی زندگی بخشی جو ماضی سے مربوط کشمکشوں اور جنجالوں سے مکمل طور پر خالی تھی۔
اس کام نے اسلام کی پیش رفت کے سلسلہ میں بہت زیادہ مد دکی اور یہ ہمارے آج اور آنے والے کل کے لئے ایک دستور العمل ہے۔
عورتوں کی بیعت کے شرائط
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوہ صفا پر قیام فرمایا،اور مردوں سے بیعت لی،بعدہ مکہ کی عورتیں جو ایمان لے آئی تھیں بیعت کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو وحی الٰہی نازل ہوئی اور ان کی بیعت کی تفصیل بیان کی۔
روئے سخن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف کرتے ہوئے فرماتا ہے :
’’اے پیغمبر !جب مومن عورتیں تیرے پاس آئیں اور ان شرائط پر تجھ سے بیعت کر لیں کہ وہ کسی چیز کو خدا کا شریک قرار نہیں دیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا سے آلودہ نہیں ہوں گی،اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی،اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے آگے کوئی افتراء اور بہتان نہیں باندھیں گی اور کسی شائستہ حکم میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی تو تم ان سے بیعت لے لو اور ان کے لئے بخشش طلب کرو،بیشک خدا بخشنے، والا اور مہربان ہے۔ ‘‘[93]
اس کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے بیعت لی۔
بیعت کی کیفیت کے بارے میں بعض مورخین نے لکھا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی کا ایک برتن لانے کا حکم دیا اور اپنا ہاتھ پانی کے اس برتن میں رکھ دیا،عورتیں اپنے ہاتھ برتن کے دوسری طرف رکھ دیتی تھیں، جب کہ بعض نے کہا ہے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لباس کے اوپر سے بیعت لیتے تھے۔
ابو سفیان کی بیوی ہندہ کی بیعت کا ماجرا
فتح مکہ کے واقعہ میں جن عورتوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی ان میں سے ایک ابو سفیان کی بیوی ’’ہندہ‘‘ تھی، یعنی وہ عورت جس کی طرف سے تاریخ اسلام بہت سے دردناک واقعات محفوظ رکھے ہوئے ہے،ا ن میں سے ایک میدان احد میں حمزہؓ سید الشہداء کی شہادت کا واقعہ ہے کہ جس کی کیفیت بہت ہی غم انگیز ہے۔
اگرچہ آخر کار وہ مجبور ہو گئی کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے گھٹنے ٹیک دے اور ظاہراً مسلمان ہو جائے لیکن اسکی بیعت کا ماجرا بتاتا ہے کہ وہ حقیقت میں اپنے سابقہ عقائد کی اسی طرح وفادار تھی، لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کہ بنی امیہ کا خاندان اور ہندہ کی اولاد نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا کہ جن کی سابقہ زمانہ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
بھر حال مفسرین نے اس طرح لکھا ہے کہ ہند ہ نے اپنے چھرے پر نقاب ڈالا ہوا تھا وہ پیغمبر کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئی جب آپ کوہ صفا پر تشریف فرما تھے اور عورتوں کی ایک جماعت ہندہ کے ساتھ تھی، جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا کہ میں تم عورتوں سے اس بات پر بیعت لتیا ہوں کہ تم کسی چیز کو خدا کا شریک قرار نہیں دو گی، تو ہندہ نے اعتراض کیا اور کہا:’’آپ ہم سے ایسا عہد لے رہے ہیں جو آپ نے مردوں سے نہیں لیا، (کیونکہ اس دن مردوں سے صرف ایمان اور جہاد پر بیعت لی گئی تھی۔ )
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی بات کی پرواہ کئے بغیر اپنی گفتگو کو جاری فرمایا:’’کہ تم چوری بھی نہیں کرو گی،‘‘ہند ہ نے کہا: ابو سفیان کنجوس اور بخیل آدمی ہے میں نے اس کے مال میں سے کچھ چیزیں لی ہیں، میں نہیں جانتی کہ وہ انہیں مجھ پر حلال کرے گا یا نہیں !ابو سفیان موجود تھا، اس نے کہا: جو کچھ تو نے گذشتہ زمانہ میں میرے مال میں سے لے لیا ہے وہ سب میں نے حلال کیا، (لیکن آئندہ کے لئے پابندی کرنا۔ )
اس موقع پر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنسے اور ہندہ کو پہچان کر فرمایا:’’کیا تو ہندہ ہے‘‘؟ اس نے کہا :جی ہاں، یا رسول اللہ !پچھلے امور کو بخش دیجئے خدا آپ کو بخشے ‘‘۔!!
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی گفتگو کو جاری رکھا:’’اور تم زنا سے آلودہ نہیں ہو گی،‘‘ہندہ نے تعجب کرتے ہوئے کہا:’’کیا آزاد عورت اس قسم کا عمل بھی انجام دیتی ہے؟‘‘حاضرین میں سے بعض لوگ جو زمانۂ جاہلیت میں اس کی حالت سے واقف تھے اس کی اس بات پر ہنس پڑے کیونکہ ہندہ کا سابقہ زمانہ کسی سے مخفی نہیں تھا۔
پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:
’’اور تم اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گی ‘‘۔
ہند نے کہا:’’ہم نے تو انہیں بچپن میں پالا پوسا تھا،مگر جب وہ بڑے ہوئے تو آپ نے انہیں قتل کر دیا، اب آپ اور وہ خود بہتر جانتے ہیں ‘‘۔( اس کی مراد اس کا بیٹا ’’حنظلہ‘‘ تھا جو بدر کے دن علیؓ کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔)
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی اس بات پر تبسم فرمایا، اور جب آپ اس بات پر پہنچے اور فرمایا:
’’تم بہتان اور تہمت کو روا نہیں رکھو گی ‘‘۔
تو ہندہ نے کہا:’’بہتان قبیح ہے اور آپ ہمیں صلاح و درستی، نیکی اور مکارم اخلاق کے سوا اور کسی چیز کی دعوت نہیں دیتے‘‘۔
جب آپ نے یہ فرمایا:
’’تم تمام اچھے کاموں میں میرے حکم کی اطاعت کرو گی ‘‘۔تو ہندہ نے کہا:’’ہم یہاں اس لئے نہیں بیٹھے ہیں کہ ہمارے دل میں آپ کی نافرمانی کا ارادہ ہو‘‘۔
(حالانکہ مسلمہ طور پر معاملہ اس طرح نہیں تھا، لیکن تعلیمات اسلامی کے مطابق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بات کے پابند تھے کہ ان کے بیانات کو قبول کر لیں۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خطوط دنیا کے بادشاہوں کے نام
تاریخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ جب سرزمین حجاز میں اسلام کافی نفوذ کر چکا تو پیغمبر اکرم نے اس زمانے کے بڑے بڑے حکمرانوں کے نام کئی خطوط روانہ کیے۔ ان میں بعض خطوط میں کا سہارا لیا گیا ہے، جس میں آسمانی ادیان کی قدر مشترک کا تذکرہ ہے۔
مقوقس[94] کے نام خط
مقوقس مصر کا حاکم تھا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں اور حکام کو خطوط لکھے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دی،حاطب بن ابی بلتعہ کو حاکم مصر مقوقس کی طرف یہ خط دے کر روانہ کیا۔
اللہ کے نام سے جو بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔
از۔ ۔۔محمد بن عبد اللہ
بطرف۔۔۔قبطیوں کے مقوقس بزرگ۔
حق کے پیروکاروں پر سلام ہو۔
میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام لے آؤ تاکہ سالم رہو۔ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا۔ (ایک خود تمھارے ایمان لانے پر اوردوسرا ان لوگوں کی وجہ سے جو تمھاری پیروی کر کے ایمان لائیں گے ) اور اگر تو نے قانون اسلام سے روگردانی کی تو قبطیوں کے گناہ تیرے ذمہ ہوں گے۔ ۔اے اہل کتاب! ہم تمھیں ایک مشترک بنیاد کی طرف دعوت دیتے ہیں اور وہ یہ کہ ہم خدائے یگانہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں حق سے روگردانی نہ کریں تو ان سے کہو کہ گواہ رہو ہم تم مسلمان ہیں ‘‘۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سفیر مصر کی طرف روانہ ہوا، اسے اطلاع ملی کہ حاکم مصر اسکندریہ میں ہے لہٰذا وہ اس وقت کے ذرائع آمد و رفت کے ذریعے اسکندریہ پہنچا اور مقوقس کے محل میں گیا، حضرت کا خط اسے دیا، مقوقس نے خط کھول کر پڑھا کچھ دیر تک سوچتا رہا، پھر کہنے لگا:’’اگر واقعتاً محمد خدا کا بھیجا ہوا ہے تو اس کے مخالفین اسے اس کی پیدائش کی جگہ سے باہر نکالنے میں کیوں کامیاب ہوئے اور وہ مجبور ہوا کہ مدینہ میں سکونت اختیار کرے؟ ان پر نفرین اور بد دعا کیوں نہیں کی تاکہ وہ نابود ہو جاتے؟‘‘
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قاصد نے جواباً کہا:
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے رسول تھے اور آپ بھی ان کی حقانیت کی گواہی دیتے ہیں، بنی اسرائیل نے جب ان کے قتل کی سازش کی تو آپ نے ان پر نفرین اور بد دعا کیوں نہیں کی تاکہ خدا انہیں ہلاک کر دیتا؟
یہ منطق سن کر مقوقس تحسین کرنے لگا اور کہنے لگا :
’’احسنت انت حکیم من عند حکیم ‘‘
’’آفرین ہے، تم سمجھ دار ہو اور ایک صاحب حکمت کی طرف سے آئے ہو ‘‘
حاطب نے پھر گفتگو شروع کی اور کہا :
’’آپ سے پہلے ایک شخص (یعنی فرعون )اس ملک پر حکومت کرتا تھا، وہ مدتوں لوگوں میں اپنی خدائی کا سودا بیچتا رہا، بلآخر اللہ نے اسے نابود کر دیا تاکہ اس کی زندگی آپ کے لئے باعث عبرت ہو لیکن آپ کوشش کریں کہ آپ کی زندگی دوسروں کے لئے نمونہ بن جائے‘‘۔
’’پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں ایک پاکیزہ دین کی طرف دعوت دی ہے، قریش نے ان سے بہت سخت جنگ کی اور ان کے مقابل صف آراء ہوئے، یہودی بھی کینہ پروری سے ان کے مقابلے میں آ کھڑے ہوئے اور اسلام سے زیادہ نزدیک عیسائی ہیں۔ ‘‘
مجھے اپنی جان کی قسم جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی بشارت دی تھی اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت محمد کے مبشر تھے، ہم آپ لوگوں نے تو ریت کے ماننے والوں کو انجیل کی دعوت دی تھی، جو قوم پیغمبر حق کی دعوت کو سنے اسے چاہئے کہ اس کی پیروی کرے، میں نے محمد کی دعوت آپ کی سرزمین تک پہنچا دی ہے، مناسب یہی ہے کہ آپ اور مصری قوم یہ دعوت قبول کر لے‘‘۔
حاطب کچھ عرصہ اسکندریہ ہی میں ٹھہرا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خط کا جواب حاصل کرے، چند روز گزر گئے، ایک دن مقوقس نے حاطب کو اپنے محل میں بلایا اور خواہش کی کہ اسے اسلام کے بارے میں کچھ مزید بتایا جائے۔
حاطب نے کہا:
’’محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں خدا نے یکتا ئی پرستش کی دعوت دیتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ لوگ روز و شب میں پانچ مرتبہ اپنے پروردگار سے قریبی رابطہ پیدا کریں اور نماز پڑھیں، پیمان پورے کریں، خون اور مردار کھانے سے اجتناب کریں‘‘۔
علاوہ ازیں حاطب نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کی بعض خصوصیات بھی بیان کیں۔
مقوقس کہنے لگا:
’’یہ تو بڑی اچھی نشانیاں ہیں۔ میرا خیال تھا کہ خاتم النبیین سرزمین شام سے ظہور کریں گے جو انبیاء علیہم السلام کی سرزمین ہے،اب مجھ پر واضح ہوا کہ وہ سر زمین حجاز سے مبعوث ہوئے ہیں ‘‘۔
اس کے بعد اس نے اپنے کاتب کو حکم دیا کہ وہ عربی زبان میں اس مضمون کا خط تحریر کرے:
بخدمت : محمد بن عبد اللہ۔
منجانب: قبطیوں کے بزرگ مقوقس۔
’’آپ پر سلام ہو،میں نے آپ کا خط پڑھا، آپ کے مقصد سے باخبر ہوا اور آپ کی دعوت کی حقیقت کو سمجھ لیا،میں یہ تو جانتا تھا کہ ایک پیغمبر ظہور کرے گا لیکن میرا خیال تھا کہ وہ خطۂ شام سے مبعوث ہو گا، میں آ پ کے قاصد کا احترام کرتا ہوں‘‘۔
پھر خط میں ان ہدیوں اور تحفوں کی طرف اشارہ کیا جواس نے آپ کی خدمت میں بھیجے، خط اس نے ان الفاظ پر تمام کیا۔
’’آپ پر سلام ہو‘‘
تاریخ میں ہے کہ مقوقس نے کوئی گیارہ قسم کے ہدیے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے بھیجے، تاریخ اسلام میں ان کی تفصیلات موجود ہیں، ان میں سے ایک طبیب تھا تاکہ وہ بیمار ہونے والے مسلمانوں کا علاج کرے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیگر ہدیئے قبول فرمایا ہے لیکن طبیب کو قبول نہ کیا اور فرمایا:’’ہم ایسے لوگ ہیں کہ جب تک بھوک نہ لگے کھانا نہیں کھاتے اور سیر ہونے سے پہلے کھانے سے ہاتھ روک لیتے ہیں، یہی چیز ہماری صحت و سلامتی کے لئے کافی ہے، شاید صحت کے اس عظیم اصول کے علاوہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طبیب کی وہاں موجودگی کو درست نہ سمجھتے ہوں کیونکہ وہ ایک متعصب عیسائی تھا لہٰذا آپ نہیں چاہتے تھے کہ اپنی اور مسلمانوں کی جان کا معاملہ اس کے سپرد کر دیں۔
مقوقس نے جو سفیر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا احترام کیا،آپ کے لئے ہدیے بھیجے اور خط میں نام محمد اپنے نام سے مقدم رکھا یہ سب اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ اس نے آپ کی دعوت کو باطن میں قبول کر لیا تھا یا کم از کم اسلام کی طر ف مائل ہو گیا تھا لیکن اس بناء پر کہ اس کی حیثیت اور وقعت کو نقصان نہ پہنچے ظاہری طور پر اس نے اسلام کی طرف اپنی رغبت کا اظہار نہ کیا۔
۴قیصر روم کے نام خط
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
اللہ کے نام سے جو بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔
منجانب: محمد بن عبد اللہ۔
بطرف: ہرقل بادشاہ روم۔
’’اس پر سلام ہے جو ہدایت کی پیروی کرے۔میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام لے آؤ تاکہ سالم رہو۔ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا۔ (ایک خود تمھارے ایمان لانے پر اوردوسرا ان لوگوں کی وجہ سے جو تمھاری پیروی کر کے ایمان لائیں گے ) اور اگر تو نے قانون اسلام سے روگردانی کی تو اریسوں کا گناہ بھی تیری گردن پر ہو گا۔اے اہل کتاب! ہم تمھیں ایک مشترک بنیاد کی طرف دعوت دیتے ہیں اور وہ یہ کہ ہم خدائے یگانہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں حق سے روگردانی نہ کریں تو ان سے کہو کہ گواہ رہو ہم تم مسلمان ہیں ‘‘۔
قیصر کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پیغام پہنچانے کے لئے ’’دحیہ کلبی‘‘ مامور ہوا سفیرپیغمبر عازم روم ہوا۔
قیصر کے دارالحکومت قسطنطنیہ پہنچنے سے پہلے اسے معلوم ہوا کہ قیصر بیت المقدس کی زیارت کے ارادے سے قسطنطنیہ چھوڑ چکا ہے، لہٰذا اس نے بصریٰ کے گور نر حادث بن ابی شمر سے رابطہ پیدا کیا اور اسے اپنا مقصد سفر بتایا ظاہراً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اجازت دے رکھی تھی کہ دحیہ وہ خط حاکم بصریٰ کو دیدے تاکہ وہ اسے قیصر تک پہنچا دے سفیر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گورنر سے رابطہ کیا تو اس نے عدی بن حاتم کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ دحیہ کے ساتھ بیت المقدس کی طرف جائے اور خط قیصر تک پہنچا دے مقام حمص میں سفیر کی قیصر سے ملاقات ہوئی لیکن ملاقات سے قبل شاہی دربار کے کارکنوں نے کہا:
’’تمھیں قیصر کے سامنے سجدہ کرنا پڑے گا ورنہ وہ تمھاری پرواہ نہیں کرے گا ‘‘
دحیہ ایک سمجھدار آدمی تھا کہنے لگا :
’’میں ان غیر مناسب بدعتوں کو ختم کرنے کے لئے اتنا سفر کر کے آیا ہوں۔ میں اس مراسلے کے بھیجنے والے کی طرف سے آیا ہوں تا کہ قیصر کو یہ پیغام دوں کہ بشر پرستی کو ختم ہونا چاہئے اور خدائے واحد کے سواکسی کی عبادت نہیں ہونی چاہیے، اس عقیدے کے باوجود کیسے ممکن ہے کہ میں غیر خدا کے لئے سجدہ کروں ‘‘۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قاصد کی قوی منطق سے وہ بہت حیران ہوئے، درباریوں میں سے ایک نے کہا:
’’تمھیں چاہئے کہ خط بادشاہ کی مخصوص میز پر رکھ کر چلے جاؤ، اس میز پر رکھے ہوئے خط کو قیصر کے علاوہ کوئی نہیں اٹھا سکتا‘‘۔
دحیہ نے اس کا شکریہ ادا کیا، خط میز پر رکھا اورخودواپس چلا گیا،قیصر نے خط کھولا، خط نے جو’’بسم اللہ‘‘ سے شروع ہوتا تھا اسے متوجہ کیا اور کہنے لگا۔
’’حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کے سوا آج تک میں نے ایسا خط نہیں دیکھا ‘‘
اس نے اپنے مترجم کو بلایا تا کہ وہ خط پڑھے اور اس کا ترجمہ کرے، بادشاہ روم کو خیال ہوا کہ ہو سکتا ہے خط لکھنے والا وہی نبی ہو جس کا وعدہ انجیل اور توریت میں کیا گیا ہے، وہ اس جستجو میں لگ گیا کہ آپ کی زندگی کی خصوصیات معلوم کرے، اس نے حکم دیا کہ شام کے پورے علاقے میں چھان بین کی جائے،شاید محمد کے رشتہ داروں میں سے کوئی شخص مل جائے جو ان کے حالات سے واقف ہو، اتفاق سے ابوسفیان اور قریش کا ایک گروہ تجارت کے لئے شام آیا ہوا تھا، شام اس وقت سلطنت روم کا مشرقی حصہ تھا، قیصر کے آدمیوں نے ان سے رابطہ قائم کیا اور انہیں بیت المقدس لے گئے،قیصر نے ان سے سوال کیا :
کیا تم میں سے کوئی محمدؐ کا نزدیکی رشتہ دار ہے ؟
ابو سفیان نے کہا :
میں اور محمد ایک ہی خاندان سے ہیں اور ہم چوتھی پشت میں ایک درسرے سے مل جاتے ہیں۔
پھر قیصر نے اس سے کچھ سوالات کئے۔ دونوں میں یوں گفتگو ہوئی‘‘
قیصر: اس کے بزرگوں میں سے کوئی حکمران ہوا ہے؟
ابوسفیان: نہیں۔
قیصر: کیا نبوت کے دعویٰ سے پہلے وہ جھوٹ بولنے سے اجتناب کرتا تھا؟
ابوسفیان: ہاں محمدؐ راست گو اور سچا انسان ہے۔
قیصر: کونسا طبقہ اس کا مخالف ہے اور کونسا موافق؟
ابوسفیان: اشراف اس کے مخالف ہیں، عام اور متوسط درجے کے لوگ اسے چاہتے ہیں۔
قیصر: اس کے پیروکاروں میں سے کوئی اس کے دین سے پھرا بھی ہے؟
ابوسفیان: نہیں۔
قیصر: کیا اس کے پیروکار روز بروز بڑھ رہے ہیں ؟
ابوسفیان:ہاں۔
اس کے بعد قیصر نے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں سے کہا:
’’اگر یہ باتیں سچی ہیں تو پھر یقیناً وہ پیغمبر موعود ہیں، مجھے معلوم تھا کہ ایسے پیغمبر کا ظہور ہو گا لیکن مجھے یہ پتہ نہ تھا کہ وہ قریش میں سے ہو گا، میں تیار ہوں کہ اس کے لئے خضوع کروں اور احترام کے طور پر اس کے پاؤں دھوؤں، میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ اس کا دین اور حکومت سرزمین روم پر غالب آئے گی‘‘۔
پھر قیصر نے دحیہ کو بلایا اور اس سے احترام سے پیش آیا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خط کا جواب لکھا اور آپ کے لئے دحیہ کے ذریعے ہدیہ بھیجا اور آپ کے نام اپنے خط میں آپ سے اپنی عقیدت اور تعلق کا اظہار کیا۔
یہ بات جاذب نظر ہے کہ جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قاصد آنحضرت کا خط لے کر قیصر روم کے پاس پہونچا تو اس نے خصوصیت کے ساتھ آپ کے قاصد کے سامنے اظہار ایمان کیا یہاں تک کہ وہ رومیوں کو اس دین توحید و اسلام کی دعوت دینا چاہتا تھا، اس نے سوچا کہ پہلے ان کی آزمائش کی جائے، جب اس کی فوج نے محسوس کیا کہ وہ عیسائیت کو ترک کر دینا چاہتا ہے تو اس نے اس کے قصر کا محاصرہ کر لیا، قیصر نے ان سے فوراً کہا کہ میں تو تمھیں آزمانا چاہتا تھا اپنی جگہ واپس چلے جاؤ۔
جنگ ذات السلاسل
ہجرت کے آٹھویں سال پیغمبرا کرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر ملی کہ بارہ ہزار سوار سرزمین ’’یابس‘‘میں جمع ہیں، اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ یہ عہد کیا ہے کہ جب تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور علیؓ کو قتل نہ کر لیں اور مسلمانوں کی جماعت کو منتشر نہ کر دیں آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب کی ایک بہت بڑی جماعت کو بعض صحابہ کی سرکردگی میں ان کی جانب روانہ کیا لیکن وہ کافی گفتگو کے بعد بغیر کسی نتیجہ کے واپس آئے۔
آخر کار پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علیؓ کو مہاجرین و انصار کے ایک گروہ کثیر کے ساتھ ان سے جنگ کرنے کے لئے بھیجا، وہ بڑی تیزی کے ساتھ دشمن کے علاقہ کی طرف روانہ ہوئے اور رات بھر میں سارا سفر طے کر کے صبح دم دشمن کو اپنے محاصرہ میں لے لیا، پہلے تو ان کے سامنے اسلام کو پیش کیا، جب انہوں نے قبول نہ کیا تو ابھی فضا تاریک ہی تھی کہ ان پر حملہ کر دیا اور انہیں درہم برہم کر کے رکھ دیا،ان میں سے کچھ لوگوں کو قتل کیا، ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کر لیا اور بکثرت مال غنیمت کے طور پر حاصل کیا۔
سورۂ ’’والعادیات‘‘ نازل ہوئی حالانکہ ابھی سربازان اسلام مدینہ کی طرف لو ٹ کر نہیں آئے تھے، پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دن نماز صبح کے لئے آئے تو اس سورۂ کی نماز میں تلاوت کی،نماز کے بعد صحابہ نے عرض کیا، یہ تو ایسا سورہ ہے جسے ہم نے آج تک سنا نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ہاں ! علیؓ دشمنوں پر فتح یاب ہوئے ہیں اور جبرئیل نے گزشتہ رات یہ سورہ لا کر مجھے بشارت دی ہے۔ کچھ دن کے بعد علیؓ غنائم اور قیدیوں کے ساتھ مدینہ میں وارد ہوئے۔[95]
جنگ حنین [96]
اس جنگ کی ابتداء یوں ہوئی کہ جب ’’ہوازن‘‘ جو بہت بڑا قبیلہ تھا اسے فتح مکہ کی خبر ہوئی تو اس کے سردار مالک بن عوف نے افراد قبیلہ کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ ممکن ہے فتح مکہ کے بعد محمد ان سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہو، کہنے لگے کہ مصلحت اس میں ہے کہ اس سے قبل کہ وہ ہم سے جنگ کرے ہمیں قدم آگے بڑھا نا چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ اطلاع پہونچی تو آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ سر زمین ہوازن کی طرف چلنے کو تیار ہو جائیں۔
۱ ہجری رمضان المبارک کے آخری دن تھے یا شوال کا مہینہ تھا کہ قبیلہ ہوازن کے افراد سردار ’’مالک بن عوف ‘‘کے پاس جمع ہوئے اور اپنا مال، اولاد اور عورتیں بھی اپنے ساتھ لے آئے تاکہ مسلمانوں سے جنگ کرتے دقت کسی کے دماغ میں بھاگنے کا خیال نہ آئے،اسی طرح سے وہ سرزمین ’’اوطاس‘‘ میں وارد ہوئے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لشکر کا بڑا علم باندھ کر علیؓ کے ہاتھ میں دیا اور وہ تمام افراد جو فتح مکہ کے موقع پر اسلامی فوج کے کسی دستے کے کمانڈر تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم سے اسی پرچم کے نیچے حنین کے میدان کی طرف روانہ ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اطلاع ملی کہ ’’صفوان بن امیہ‘‘ کے پاس ایک بڑی مقدار میں زرہیں ہیں آپ نے کسی کو اس کے پاس بھیجا اور اس سے سو زرہیں عاریتاً طلب کی، صفوان نے پوچھا واقعتاً عاریتاً یا غصب کے طور پر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: عاریتاً ہیں اور ہم ان کے ضامن ہیں کہ صحیح و سالم واپس کریں گے۔
صفوان نے زرہیں عاریتاً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دے دیں اور خود بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ چلا۔
فوج میں کچھ ایسے افراد تھے جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا، ان کے علاوہ دس ہزار وہ مجاہدینِ اسلام تھے جو پیغمبر اکرم کے ساتھ فتح مکہ کے لئے آئے تھے، یہ تعداد مجموعاً بارہ ہزار بنتی ہے، یہ سب میدان جنگ کی طرف چل پڑے۔
دشمن کے لشکر کا مورچہ
’’مالک بن عوف‘‘ ایک مرد جری اور ہمت و حوصلے والا انسان تھا، اس نے اپنے قبیلے کو حکم دیا کہ اپنی تلواروں کے نیام توڑ ڈالیں اور پھاڑ کی غاروں میں، دروں کے اطراف میں اور درختوں کے درمیان لشکر اسلام کے راستے میں کمین گاہیں بنائیں اور جب اول صبح کی تاریکی میں مسلمان وہاں پہنچیں تو اچانک اور ایک ہی بار ان پر حملہ کر دیں اور اسے فنا کر دیں۔
اس نے مزید کہا :محمدؐ کا ابھی تک جنگجو لوگوں سے سامنا نہیں ہوا کہ وہ شکست کا مزہ چکھتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز صبح پڑھ چکے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ سر زمین حنین کی طرف چل پڑیں، اس موقع پر اچانک لشکر’’ ہوازن‘‘ نے ہر طرف سے مسلمانوں پرتیروں کی بوچھار کر دی، وہ دستہ جو مقدمۂ لشکر میں تھا (اور جس میں مکہ کے نئے نئے مسلمان بھی تھے ) بھاگ کھڑا ہوا، اس کے سبب باقی ماندہ لشکر بھی پریشان ہو کر بھاگ کھڑا ہوا۔
خداوند متعال نے اس موقع پر دشمن کے ساتھ انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دیا اور وقتی طور پر ان کی نصرت سے ہاتھ اٹھا لیا کیونکہ مسلمان اپنی کثرت تعداد پر مغرور تھے، لہٰذا ان میں شکست کے آثار آشکار ہوئے، لیکن حضرت علیؓ جو لشکر اسلام کے علمبردار تھے وہ مٹھی بھر افراد سمیت دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہے اور اسی طرح جنگ جاری رکھے رہے۔
اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قلب لشکر میں تھے، رسول اللہ کے چچا عباسؓ بنی ہاشم کے چند افراد کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گرد حلقہ باندھے ہوئے تھے، یہ کل افراد نو سے زیادہ نہ تھے دسویں ام ایمن کے فرزند ایمن تھے، مقدمہ لشکر کے سپاھی فرار کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے گزرے تو آنحضرت نے عباسؓ کو جن کی آواز بلند اور زور دار تھی کو حکم دیا کہ اس ٹیلے پر جو قریب ہے چڑھ جائیں اور مسلمانوں کو پکاریں :
اے مہاجرین و انصار ! اے سورۂ بقرہ کے ساتھیو!
اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! کہاں بھاگے جا رہے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو یہاں ہیں۔ مسلمانوں نے جب عباسؓ کی آواز سنی تو پلٹ آئے اور کہنے لگے:لبیک لبیک !
خصوصاً لوٹ آنے والوں میں انصار نے پیش قدمی کی اور فوج دشمن پر ہر طرف سے سخت حملہ کیا اور نصرتِ الٰہی سے پیش قدمی جاری رکھی یہاں تک کہ قبیلہ ہوازن وحشت زدہ ہو کر ہر طرف بکھر گیا، مسلمان ان کا تعاقب کر رہے تھے، لشکر دشمن میں سے تقریباً ایک سو افراد مارے گئے، ان کے اموال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ لگے اور کچھ ان میں سے قیدی بنا لئے گئے۔
لکھا ہے کہ اس تاریخی واقعہ کے آخر میں قبیلہ ہوازن کے نمائندے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے بہت محبت و الفت فرمائی، یہاں تک کہ ان کے سر براہ مالک بن عوف نے بھی اسلام قبو کر لیا، آپ نے اس کا مال اور قیدی اسے واپس کر دئیے اور اس کے قبیلہ کے مسلمانوں کی سرداری بھی اس کے سپرد کر دی۔
در حقیقت ابتداء میں مسلمانوں کی شکست کا اہم عامل غرور و تکبر جو کثرت فوج کی وجہ سے ان میں پیدا ہو گیا تھا، اسکے علاوہ دو ہزار نئے مسلمانوں کا وجود تھا جن میں سے بعض فطری طور پر منافق تھے، کچھ ان میں مال غنیمت کے حصول کے لئے شامل ہو گئے تھے اور بعض بغیر کسی مقصد کے ان میں شامل ہو گئے تھے۔
انتہائی کامیابی کا سبب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، حضرت علیؓ اور بعض اصحاب کا قیام تھا، اور پہلے والوں کا عہد و پیمان اور خدا پر ایمان اور اس کی مدد پر خاص توجہ باعث بنی کہ مسلمانوں کو اس جنگ میں کامیابی ملی۔
بھاگنے والے کون تھے ؟
اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ میدان حنین میں سے اکثریت ابتداء میں بھاگ گئی تھی، جو باقی رہ گئے تھے ان کی تعداد ایک روایت کے مطابق دس تھی اور بعض نے تو ان کی تعداد چار بیان کی ہے بعض نے زیادہ سے زیادہ سو افراد لکھے ہیں۔
بعض مشہور روایات کے مطابق چونکہ پہلے خلفاء بھی بھاگ جانے والوں میں سے تھے لہٰذا بعض اہل سنت مفسرین نے کوشش کی ہے کہ اس فرار کو ایک فطری چیز کے طور پر پیش کیا جائے۔ المنار کے مؤلف لکھتے ہیں : ’’جب دشمن کی طرف سے مسلمانوں پر تیروں کی سخت بوچھار ہوئی تو جو لوگ مکہ سے مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تھے، اور جن میں منافقین اور ضعیف الایمان بھی تھے اور جو مال غنیمت کے لئے آ گئے تھے وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے میدان میں پشت دکھائی تو باقی لشکر بھی فطری طور پر مضطرب اور پریشان ہو گیا وہ بھی معمول کے مطابق نہ کہ خوف و ہراس سے، بھاگ کھڑے ہوئے اور یہ ایک فطری بات ہے کہ اگر ایک گروہ فرار ہو جائے تو باقی بھی بے سوچے سمجھے متزلزل ہو جاتے ہیں، لہٰذا ان کا فرار ہونا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدد ترک کرنے اور انہیں دشمن کے ہاتھ میں چھوڑ جانے کے طور پر نہیں تھا کہ وہ خدا کے غضب کے مستحق ہوں، ہم اس بات کی تشریح نہیں کرتے اور اس کا فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں ‘‘۔
جنگ تبوک
’’تبوک‘‘[97]کا مقام ان تمام مقامات سے دور تھا جہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی جنگوں میں پیش قدمی کی۔ ’’تبوک‘‘ اصل میں ایک محکم اور بلند قلعہ کا نام تھا۔ جو حجاز اور شام کی سرحد پر واقع تھا۔ اسی وجہ سے اس علاقے کو سر زمین تبوک کہتے تھے۔
جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کے تیز رفتار نفوذ کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شہرت اطراف کے تمام ممالک میں گونجنے لگی باوجود یہ کہ وہ اس وقت حجاز کی اہمیت کے قائل نہیں تھے لیکن طلوع اسلام اور لشکر اسلام کی طاقت کہ جس نے حجاز کو ایک پرچم تلے جمع کر لیا، نے انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش میں ڈال دیا۔
مشرقی روم کی سرحد حجاز سے ملتی تھی اس حکومت کو خیال ہوا کہ کہیں اسلام کی تیز رفتار ترقی کی وہ پھلی قربانی نہ بن جائے لہٰذا اس نے چالیس ہزار کی زبردست مسلح فوج جو اس وقت کی روم جیسی طاقتور حکومت کے شایان شان تھی، اکھٹی کی اور اسے حجاز کی سرحد پر لا کھڑا کیا یہ خبر مسافروں کے ذریعے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کانوں تک پہنچی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روم اور دیگر ہمسایوں کودرس عبرت دینے کے لئے توقف کئے بغیر تیاری کا حکم صادر فرمایا آپ کے منادیوں نے مدینہ اور دوسرے علاقوں تک آپ کا پیغام پہنچایا تھوڑے ہی عرصہ میں تیس ہزار افراد رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو گئے ان میں دس ہزار سوار اور بیس ہزار پیادہ تھے۔
موسم بہت گرم تھا، غلے کے گودام خالی تھے اس سال کی فصل ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی ان حالات میں سفر کرنا مسلمانوں کے لئے بہت ہی مشکل تھا لیکن چونکہ خدا اور رسول کا فرمان تھا لہٰذا ہر حالت میں سفر کرنا تھا اور مدینہ اور تبوک کے درمیان پرُ خطر طویل صحرا کو عبور کرنا تھا۔
لشکر ی مشکلات
اس لشکر کو چونکہ اقتصادی طور پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا راستہ بھی طولانی تھا راستے میں جلانے والی زہریلی ہوائیں چلتی تھیں سنگریزے اڑتے تھے اور جھکڑ چلتے تھے سواریاں بھی کافی نہ تھیں اس لئے یہ ’’جیش العسرة‘‘ (یعنی سختیوں والا لشکر ) کے نام سے مشہور ہوا۔
تاریخ اسلام نشاندہی کرتی ہے کہ مسلمان کبھی بھی جنگ تبوک کے موقع کی طرح مشکل صورت حال، دباؤ اور زحمت میں مبتلا نہیں ہوئے تھے کیونکہ ایک تو سفر سخت گرمی کے عالم میں تھا دوسرا خشک سالی نے لوگوں کو تنگ اور ملول کر رکھا تھا اور تیسرا اس وقت درختوں سے پھل اتارنے کے دن تھے اور اسی پر لوگوں کی سال بھر کی آمدنی کا انحصار تھا۔
ان تمام چیزوں کے علاوہ مدینہ اور تبوک کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا اور مشرقی روم کی سلطنت کا انہیں سامنا تھا جو اس وقت کی سپر پاور تھی۔
مزید برآں سواریاں اور رسد مسلمانوں کے پاس اتنا کم تھا کہ بعض اوقات دو افراد مجبور ہوتے تھے کہ ایک ہی سواری پر باری باری سفر کریں بعض پیدل چلنے والوں کے پاس جوتا تک نہیں تھا اور وہ مجبور تھے کہ وہ بیابان کی جلانے والی ریت پرپا برہنہ چلیں آب و غذا کی کمی کا یہ عالم تھا کہ بغض اوقات خرمہ کا ایک دانہ چند آدمی یکے بعد دیگرے منہ میں رکھ کر چوستے تھے یہاں تک کہ اس کی صرف گٹھلی رہ جاتی پانی کا ایک گھونٹ کبھی چند آدمیوں کو مل کر پینا پڑتا۔
یہ واقعہ نو ہجری یعنی فتح مکہ سے تقریباً ایک سال بعد رونما ہوا۔ مقابلہ چونکہ اس وقت کی ایک عالمی سوپر طاقت سے تھا نہ کہ عرب کے کسی چھوٹے بڑے گروہ سے لہٰذا بعض مسلمان اس جنگ میں شرکت سے خوف زدہ تھے اس صورت حال میں منافقین کے زہریلے پر وپیگنڈے اور وسوسوں کے لئے ماحول بالکل ساز گار تھا اور وہ بھی مومنین کے دلوں اور جذبات کو کمزور کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کر رہے تھے۔
پھل اتارنے اور فصل کاٹنے کا موسم تھا جن لوگوں کی زندگی تھوڑی سی کھیتی باڑی اور کچھ جانور پالنے پر بسر ہوتی تھی یہ ان کی قسمت کے اہم دن شمار ہوتے تھے کیونکہ ان کی سال بھر کی گزر بسر انہیں چیزوں سے وابستہ تھی۔
جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں مسافت کی دوری اور موسم کی گرمی بھی روکنے والے عوامل کی مزید مدد کرتی تھی اس موقع پر آسمانی وحی لوگوں کی مدد کے لئے آ پہنچی اور قرآنی آیات یکے بعد دیگر ے نازل ہوئیں اور ان منفی عوامل کے سامنے آ کھڑی ہوئیں۔
تشویق، سرزنش، اور دھمکی کی زبان
قرآن جس قدر ہوسکتی ہے اتنی سختی اور شدت سے جہاد کی دعوت دیتا ہے۔ کبھی تشویق کی زبان سے کبھی سرزنش کے لہجے میں اور کبھی دھمکی کی زبان میں ان سے بات کرتا ہے،اور انہیں آمادہ کرنے کے لئے ہر ممکن راستہ اختیار کرتا ہے۔ پہلے کہتا ہے:’’ کہ خدا کی راہ میں، میدان جہاد کی طرف حرکت کرو تو تم سستی کا مظاہرہ کرتے ہو اور بوجھل پن دکھاتے ہو ‘‘۔[98]
اس کے بعد ملامت آمیز لہجے میں قرآن کہتا ہے : ’’آخرت کی وسیع اور دائمی زندگی کی بجائے اس دنیاوی پست اور نا پائیدار زندگی پر راضی ہو گئے ہو حالانکہ دنیاوی زندگی کے فوائد اور مال و متاع آخرت کی زندگی کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور بہت ہی کم ہیں ‘‘۔[99]
ایک عقلمند انسان ایسے گھاٹے کے سودے پر کیسے تیار ہوسکتا ہے اور کیونکہ وہ ایک نہایت گراں بہا متاع اور سرمایہ چھوڑ کر ایک ناچیز اور بے وقعت متاع کی طرف جاسکتا ہے۔
اس کے بعد ملامت کے بجائے ایک حقیقی تہدید کا انداز اختیار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے :’’ اگر تم میدان جنگ کی طرف حرکت نہیں کرو گے تو خدا دردناک عذاب کے ذریعے تمھیں سزادے گا‘‘۔ [100]
’’اور اگر تم گمان کرتے ہو کہ تمھارے کنارہ کش ہونے اور میدان جہاد سے پشت پھیرنے سے اسلام کی پیش رفت رک جائے گی اور آئینہ الٰہی کی چمک ماند پڑ جائے گی تو تم سخت اشتباہ میں ہو، کیونکہ خدا تمھارے بجائے ایسے صاحبان ایمان کو لے آئے گا جو عزم مصمم رکھتے ہوں گے اور فرمان خدا کے مطیع ہوں گے‘‘۔ [101]
وہ لوگ کہ جو ہر لحاظ سے تم سے مختلف ہیں نہ صرف ان کی شخصیت بلکہ انکا ایمان، ارادہ،دلیری اور فرماں برداری بھی تم سے مختلف ہے لہٰذا ’’ اس طرح تم خدا اور اس کے پاکیزہ دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے‘‘۔ [102]
تنہا وہ جنگ جس میں حضرت علیؓ نے شرکت نہ کی
اس لشکر کو چونکہ اقتصادی طور پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا راستہ بھی طولانی تھا راستے میں جلانے والی زہریلی ہوائیں چلتی تھیں سنگریزے اڑتے تھے اور جھکّڑ چلتے تھے سواریاں بھی کافی نہ تھیں اس لئے یہ’’ جیش العسرة‘‘ (یعنی سختیوں والا لشکر )کے نام سے مشہور ہوا اس نے تمام سختیوں کو جھیلا اور ماہ شعبان کی ابتداء میں ہجرت کے نویں سال سرزمین ’’تبوک‘‘ میں پہنچا جب کہ رسول اللہ حضرت علی کو اپنی جگہ پر مدینہ میں چھوڑ آئے تھے یہ واحد غزوہ ہے جس میں حضرت علیؓ شریک نہیں ہوئے۔
رسول اللہ کا یہ اقدام بہت ہی مناسب اور ضروری تھا کیونکہ بہت احتمال تھا کہ بعض پیچھے رہنے والے مشرکین یا منا فقین جو حیلوں بہانوں سے میدان تبوک میں شریک نہ ہوئے تھے، رسول اللہ اور ان کی فوج کی طویل غیبت سے فائدہ اٹھائیں اور مدینہ پر حملہ کر دیں، عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیں اور مدینہ کو تاراج کر دیں لیکن حضرت علیؓ کا مدینہ میں رہ جانا ان کی سازشوں کے مقابلے میں ایک طاقتور رکاوٹ تھی۔
بہر حال جب رسول اللہ تبوک میں پہنچے تو وہاں آپ کو رومی فوج کا کوئی نام و نشان نظر نہ آیا عظیم سپاہ اسلام چونکہ کئی جنگوں میں اپنی عجیب و غریب جرأت و شجاعت کا مظاہرہ کر چکی تھی، جب ان کے آنے کی کچھ خبر رومیوں کے کانوں تک پہنچی تو انھوں نے اسی کو بہتر سمجھا کہ اپنے ملک کے اندر چلے جائیں اور اس طرح سے ظاہر کریں کہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے لشکر روم کی سرحدوں پر جمع ہونے کی خبر ایک بے بنیاد افواہ سے زیادہ کچھ نہ تھی کیونکہ وہ ایک ایسی خطرناک جنگ شروع کرنے سے ڈرتے تھے جس کا جواز بھی ان کے پاس کوئی نہ تھا لیکن لشکر اسلام کے اس طرح سے تیز رفتاری سے میدان تبوک میں پہنچنے نے دشمنانِ اسلام کو کئی درس سکھائے، مثلاً:
۱۔یہ بات ثابت ہو گئی کہ مجاہدین اسلام کا جذبہ جہاد اس قدر قوی ہے کہ وہ اس زمانے کی نہایت طاقت ور فوج سے بھی نہیں ڈرتے۔
۲۔ بہت سے قبائل اور اطراف تبوک کے امراء پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آئے اور آپ سے تعرض اور جنگ نہ کرنے کے عہد و پیمان پر دستخط کیے اس طرح مسلمان ان کی طرف سے آسودہ خاطر ہو گئے۔
۳۔ اسلام کی لہریں سلطنت روم کی سرحدوں کے اندر تک چلی گئیں اور اس وقت کے ایک اہم واقعہ کے طور پر اس کی آواز ہر جگہ گونجی اور رومیوں کے اسلام کی طرف متوجہ ہونے کے لئے راستہ ہموار ہو گیا۔
۴۔ یہ راستہ طے کرنے اور زحمتوں کو برداشت کرنے سے آئندہ شام کا علاقہ فتح کرنے کے لئے راہ ہموار ہو گئی اور معلوم ہو گیا کہ آخرکار یہ راستہ طے کرنا ہی ہے۔
یہ عظیم فوائد ایسے تھے کہ جن کے لئے لشکر کشی کی زحمت برداشت کی جاسکتی تھی۔
بہر حال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی سنت کے مطابق اپنی فوج سے مشورہ کیا کہ کیا پیش قدمی جاری رکھی جائے یاواپس پلٹ جایا جائے؟
اکثریت کی رائے یہ تھی، کہ پلٹ جانا بہتر ہے اور یہی اسلامی اصولوں کی روح سے زیادہ مناسبت رکھتا تھا خصوصاً جبکہ اس وقت طاقت فرسا سفر اور راستے کی مشقت و زحمت کے باعث اسلامی فوج کے سپاھی تھکے ہوئے تھے اور ان کی جسمانی قوت مزاحمت کمزور پڑ چکی تھی، رسول اللہ نے اس رائے کو صحیح قرار دیا اور لشکر اسلام مدینہ کی طرف لوٹ آیا۔
ایک عظیم درس
’’ابو حثیمہ ‘‘[103] اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سے تھا، منافقین میں سے نہ تھا لیکن سستی کی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ میدان تبوک میں نہ گیا۔
اس واقعہ کو دس دن گذر گئے، ہوا گرم اور جلانے والی تھی،ایک دن اپنی بیویوں کے پاس آیا انھوں نے ایک سائبان تان رکھا تھا، ٹھنڈا پانی مہیا کر رکھا تھا اور بہترین کھانا تیار کر رکھا تھا، وہ اچانک غم و فکر میں ڈوب گیا اور اپنے پیشوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یاد اسے ستانے لگی، اس نے کہا:رسول اللہ کہ جنھوں نے کبھی کوئی گناہ نہیں کیا اور خدا ان کے گذشتہ اور آئندہ کا ذمہ دار ہے، بیابان کی جلا ڈالنے والی ہواؤں میں کندھے پر ہتھیار اٹھائے اس دشوار گذار سفر کی مشکلات اٹھا رہے ہیں اور ابو حثیمہ کو دیکھو کہ ٹھنڈے سائے میں تیار کھانے اور خوبصورت بیویوں کے پاس بیٹھا ہے، کیا یہ انصاف ہے ؟
اس کے بعد اس نے اپنی بیویوں کی طرف رخ کیا اور کہا:
خدا کی قسم تم میں سے کسی کے ساتھ میں بات نہ کروں گا اور سائبان کے نیچے نہیں بیٹھوں گا جب تک پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نہ جاملوں۔
یہ بات کہہ کر اس نے زاد راہ لیا، اپنے اونٹ پر سوار ہوا اور چل کھڑا ہوا، اس کی بیویوں نے بہت چاہا کہ اس سے بات کریں لیکن اس نے ایک لفظ نہ کہا اور اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ تبوک کے قریب جا پہنچا۔
مسلما ان ایک دوسرے سے کہنے لگے :یہ کوئی سوار ہے جو سڑک سے گذر رہا ہے، لیکن پیغمبر اکرم نے فرمایا:اے سوار تم ابو حثیمہ ہو تو بہتر ہے۔
جب وہ قریب پہنچا اور لوگوں نے اسے پہچان لیا تو کہنے لگے : جی ہاں ؛ ابو حثیمہ ہے۔
اس نے اپنا اونٹ زمین پر بٹھایا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں سلام عرض کیا اور اپنا ماجرا بیان کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے خوش آمدید کہا اور اس کے حق میں دعا فرمائی۔
اس طرح وہ ایک ایسا شخص تھا جس کا دل باطل کی طرف مائل ہو گیا تھا لیکن اس کی روحانی آمادگی کی بنا ء پر خدا نے اسے حق کی طرف متوجہ کیا اور ثبات قدم بھی عطا کیا۔
جنگ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین لوگ
مسلمانوں میں سے تین افراد کعب بن مالک، مرارہ بن ربیع اور بلال بن امیہ نے جنگ تبوک میں شرکت نہ کی اور انھوں نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سفر نہ کیا وہ منافقین میں شامل نہیں ہو نا چاہتے تھے بلکہ ایسا انھوں نے سستی اور کاہلی کی بنا پر کیا تھا،تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ وہ اپنے کئے پر نادم اور پشیمان ہو گئے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میدان تبوک سے مدینہ لوٹے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معذرت کی لیکن رسول اللہ نے ان سے ایک لفظ تک نہ کہا اور مسلمانوں کو بھی حکم دیا کہ کوئی شخص ان سے بات چیت نہ کرے وہ ایک عجیب معاشرتی دباؤ کا شکار ہو گئے یہاں تک کہ ان کے چھوٹے بچے اور عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئیں اور اجازت چاہی کہ ان سے الگ ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں علیحدگی کی اجازت تو نہ دی لیکن حکم دیا کہ ان کے قریب نہ جائیں، مدینہ کی فضا اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی، وہ مجبور ہو گئے کہ اتنی بڑی ذلت اوررسوائی سے نجات حاصل کرنے کے لئے شہر چھوڑ دیں اور اطراف مدینہ کے پہاڑوں کی چوٹی پر جا کر پناہ لیں۔
جن باتوں نے ان کے جذبات پر شدید ضرب لگائی ان میں سے ایک یہ تھی کہ کعب بن مالکؓ کہتا ہے :میں ایک دن بازار مدینہ میں پریشانی کے عالم میں بیٹھا تھا کہ ایک شامی عیسائی مجھے تلاش کرتا ہوا آیا، جب اس نے مجھے پہچان لیا تو بادشاہ غسان کی طرف سے ایک خط میرے ہاتھ میں دیا، اس میں لکھا تھا کہ اگر تیرے ساتھی نے تجھے دھتکار دیا ہے تو ہماری طرف چلے آؤ، میری حالت منقلب اور غیر ہو گئی، اور میں نے کہا وائے ہو مجھ پر میرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ دشمن میرے بارے میں لالچ کرنے لگے ہیں، خلاصہ یہ کہ ان کے اعزا ء و اقارب ان کے پاس کھانا لے آتے مگر ان سے ایک لفظ بھی نہ کہتے، کچھ مدت اسی صورت میں گزر گئی اور وہ مسلسل انتظار میں تھے کہ اس کی توبہ قبول ہو اور کوئی آیت نازل ہو جو ان کی توبہ کی دلیل بنے، مگر کوئی خبر نہ تھی۔
اس دوران ان میں سے ایک کے ذہن میں یہ بات آئی اور اس نے دوسروں سے کہا اب جبکہ لوگوں نے ہم سے قطع تعلق کر لیا ہے، کیا ہی بہتر ہے کہ ہم بھی ایک دوسرے سے قطع تعلق کر لیں (یہ ٹھیک ہے کہ ہم گنہ گار ہیں لیکن مناسب ہے کہ دوسرے گنہ گار سے خوش اور راضی نہ ہوں )۔
انھوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ ایک لفظ بھی ایک دوسرے سے نہیں کہتے تھے اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہتا تھا،اس طرح پچاس دن انھوں نے توبہ و زاری کی اور آخر کار ان کی توبہ قبول ہو گئی۔ [104]
مسجد ضرار[105]
کچھ منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے اور عرض کیا، میں اجازت دیجیئے کہ ہم قبیلہ ’’بنی سالم‘‘ کے درمیان’’مسحد قبا‘‘ کے قریب ایک مسجد بنا لیں تاکہ ناتواں بیمار اور بوڑھے جو کوئی کام نہیں کرسکتے اس میں نماز پڑھ لیا کریں۔ اسی طرح جن راتوں میں بارش ہوتی ہے ان میں جو لوگ آپ کی مسجد میں نہیں آسکتے اپنے اسلامی فریضہ کو اس میں انجام دے لیا کریں۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب پیغمبر خد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنگ تبوک کا عزم کر چکے تھے آنحضرت نے انہیں اجازت دے دی۔
انھوں نے مزید کہا: کیا یہ بھی ممکن ہے کہ آپ خود آ کر اس میں نماز پڑھیں ؟نبی اکرم نے فرمایا: اس وقت تو میں سفر کا ارادہ کر چکا ہوں البتہ واپسی پر خدا نے چاہا تو اس مسجد میں آ کر نماز پڑھوں گا۔
جب آپ جنگ تبوک سے لوٹے تو یہ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہماری درخواست ہے کہ آپ ہماری مسجد میں آ کر اس میں نماز پڑھائیں اور خدا سے دعا کریں کہ ہمیں برکت دے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی آنحضرت مدینہ کے دروازے میں داخل نہیں ہوئے تھے اس وقت وحی خدا کا حامل فرشتہ نازل ہوا اور خدا کی طرف سے پیغام لایا اور ان کے کرتوت سے پردہ اٹھایا۔
ان لوگوں کے ظاہراً کام کو دیکھا جائے تو ہمیں شروع میں تو اس حکم پر حیرت ہوئی کہ کیا بیماروں اور بوڑھوں کی سہولت کے لئے اور اضطراری مواقع کے لئے مسجد بنانا برا کام ہے جبکہ یہ ایک دینی اور انسانی خدمت معلوم ہوتی ہے کیا ایسے کام کے بارے میں یہ حکم صادر ہوا ہے؟لیکن اگر ہم اس معاملہ کی حقیقت پر نظر کریں گے تو معلوم ہو گا کہ یہ حکم کس قدر بر محل اور جچا تلا تھا۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ’’ ابو عامر‘‘ نامی ایک شخص نے عیسائیت قبول کر لی تھی اور راہبوں کے مسلک سے منسلک ہو گیا تھا۔ اس کا شمار عابدوں میں ہوتا تھا، قبیلہ خزرج میں اس کا گھرا اثرورسوخ تھا۔
رسول اللہ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی اور مسلمان آپ کے گرد جمع ہو گئے تو ابو عامر جو خود بھی پیغمبر کے ظہور کی خبر دینے والوں میں سے تھا،اس نے دیکھا کہ اس کے ارد گرد سے لوگ چھٹ گئے ہیں اس پر وہ اسلام کے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا، وہ مدینہ سے نکلا اور کفار مکہ کے پاس پہنچا،اس نے ان سے پیغمبر اکرم کے خلاف جنگ کے لئے مدد چاہی اور قبائل عرب کو بھی تعاون کی دعوت دی، وہ خود مسلمانوں کے خلاف جنگ احد کی منصوبہ بندی میں شریک رہا تھا،اور راہنمائی کرنے والوں میں سے تھا،اس نے حکم دیا کہ لشکر کی دو صفوں کے درمیان گڑھے کھودے جائیں۔ اتفاقاً پیغمبر اسلامایک گڑھے میں گر پڑے، آپ کی پیشانی پر زخم آئے اور دندان مبارک ٹوٹ گئے۔
جنگ احد ختم ہوئی،مسلمانوں کو اس میدان میں آنے والی مشکلات کے باوجود اسلام کی آواز بلند تر ہوئی اور ہر طرف صدائے اسلام گونجنے لگی، تو وہ مدینہ سے بھاگ گیا اور بادشاہ روم ہرقل کے پاس پہنچا تاکہ اس سے مدد چاہے اور مسلمانوں کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر ہیا کرے۔
اس نکتے کا بھی ذکر ضروری ہے کہ اس کی ان کارستانیوں کی وجہ سے پیغمبر اسلام نے اسے ’’فاسق‘‘کالقب دے رکھا تھا۔
بعض کہتے ہیں کہ موت نے اسے مہلت نہ دی کہ وہ اپنی آرزو ہرقل سے کہتا لیکن بعض دوسری کتب میں ہے کہ وہ ہرقل سے جاکر ملا اور اس کے وعدوں سے مطمئن اور خوش ہوا۔
بھر حال اس نے مرنے سے پہلے مدینہ کے منافقین کو ایک خط لکھا اور انہیں خوشخبری دی کہ روم کے ایک لشکر کے ساتھ وہ ان کی مدد کو آئے گا۔اس نے انہیں خصوصی تاکید کی کہ مدینہ میں وہ اس کے لئے ایک مرکز بنائیں تاکہ اس کی آئندہ کی کار گذاریوں کے لئے وہ کام دے سکے لیکن ایسا مرکز چونکہ مدینہ میں اسلام دشمنوں کی طرف سے اپنے نام پر قائم کرنا عملی طور پر ممکن نہ تھا۔ لہٰذا منافقین نے مناسب یہ سمجھا کہ مسجد کے نام پر بیماروں اور معذوروں کی مدد کی صورت میں اپنے پروگرام کو عملی شکل دیں۔
آخر کار مسجد تعمیر ہو گئی یہاں تک کہ مسلمانوں میں سے ’’مجمع بن حارثہ‘‘ (یا مجمع بَن جاریہ)نامی ایک قرآن فہم نوجوان کو مسجد کی امامت کے لئے بھی چن لیا گیا لیکن وحی الٰہی نے ان کے کام سے پردہ اٹھا دیا۔
یہ جو پیغمبر اکرم نے جنگ تبوک کی طرف جانے سے قبل ان کے خلا ف سخت کاروائی کا حکم نہیں دیا اس کی وجہ شاید ایک تو ان کی حقیقت زیادہ واضح ہو جائے اور دوسرا یہ کہ تبوک کے سفر میں اس طرف سے کوئی اور ذہنی پریشانی نہ ہو۔ بھر حال جو کچھ بھی تھا رسول اللہ نے نہ صرف یہ کہ مسجد میں نماز نہیں پڑھی بلکہ بعض مسلمانوں (مالک بن دخشم،معنی بن عدی اور عامر بن سکر یا عاصم بن عدی)کو حکم دیا کہ مسجدکو جلا دیں اور پھر اس کی دیواروں کو مسمار کروا دیا۔ اور آخر کار اسے کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ قرار دے دیا۔
مسجد قبا ء
یہ بات قابل توجہ ہے کہ خداوند عالم اس حیات بخش حکم کی مزید تاکید کے لئے خداوند متعال فرماتا ہے کہ اس مسجد میں ہر گز قیام نہ کرو اور اس میں نماز نہ پڑھو۔[106]
’’بلکہ اس مسجدکے بجائے زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس مسجد میں عبادت قائم کرو جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے‘‘ [107]
نہ یہ کہ یہ مسجد جس کی بنیاد روز اول ہی سے کفر،نفاق،بے دینی اور تفرقہ پر رکھی گئی ہے۔
’’مفسرین نے کہا ہے کہ جس مسجد کے بارے میں مندرجہ بالا جملے میں کہا گیا ہے کہ زیادہ مناسب یہ ہے کہ پیغمبر اس میں نماز پڑھیں اس سے مراد’’ مسجد قبا ‘‘ ہے کہ جس کے قریب منافقین نے مسجد ضرار بنائی تھی‘‘۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے :’’کہ علاوہ اس کے کہ اس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے، مردوں کا ایک گروہ اس میں مشغول عباد ت ہے جو پسند کرتا ہے کہ اپنے آپ کو پاک و پاکیزہ رکھے اور خدا پاکباز لوگوں کو دوست رکھتا ہے ‘‘۔[108]
سب سے پہلی نماز جمعہ
پہلا جمعہ جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب کے ساتھ پڑھا وہ اس وقت پڑھا گیا جب آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ جب آپ مدینہ میں وارد ہوئے تو اس دن پیر کا دن بارہ ربیع الاول اور ظہر کا وقت تھا۔ حضرت چار دن تک ’’قبا ‘‘میں رہے اور مسجد قبا کی بنیاد رکھی، پھر جمعہ کے دن مدینہ کی طرف روانہ ہوئے(قبا اور مدینہ کے درمیان فاصلہ بہت ہی کم ہے اور موجودہ وقت میں قبا مدینہ کا ایک داخلی محلہ ہے)
اور نماز جمعہ کے وقت آپ محلہ ’’بنی سالم‘‘میں پہنچے وہاں نماز جمعہ ادا فرمائی اور یہ اسلام میں پہلا جمعہ تھا جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ادا کیا۔ جمعہ کی نماز میں آپ نے خطبہ بھی پڑھا۔ جو مدینہ میں آنحضرت کا پہلا خطبہ تھا۔
واقعہ غدیر
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کا آخری سال تھا۔ ’’حجة الوداع ‘‘کے مراسم جس قدر با وقار و پر شکوہ ہو سکتے تھے اس قدر پیغمبر اکرم کی ہمراہی میں اختتام پذیر ہوئے۔ سب کے دل روحانیت سے سرشار تھے ابھی ان کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذت کا ذائقہ محسوس کر رہی تھی۔ اصحاب پیغمبر جن کی تعداد بہت زیادہ تھی اس عظیم نعمت سے فیض یاب ہوئے اور اس سعادت کے حاصل ہونے پر جامے میں پھولے نہیں سماتے تھے۔
نہ صرف مدینہ کے لوگ اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصوں کے مسلمان بھی یہ عظیم تاریخی اعزاز و افتخار حاصل کرنے کے لئے آپ کے ہمراہ تھے۔
سرزمین حجاز کا سورج دروں اور پھاڑوں پر آگ برسارہا تھا لیکن اس سفرکی بے نظیر روحانی مٹھاس تمام تکلیفوں کو آسان بنا رہی تھی۔ زوال کا وقت نزدیک تھا۔ آہستہ آہستہ ’’حجفہ ‘‘کی سرزمین اور اس کے بعد خشک اور جلانے والے ’’غدیر خم‘‘ کے بیابان نظر آنے لگے۔
در اصل یہاں پر ایک چوراہا ہے جو حجاز کے لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ شمالی راستہ مدینہ کی طرف دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف،تیسرا مغربی ممالک اور مصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں پر آخری مقصد اور اس عظیم سفر کا اہم ترین کام انجام پذیر ہوتا تھا تاکہ مسلمان پیغمبر کی اہم ذمہ داریوں میں سے ان کا آخری حکم جان کر ایک دوسرے سے جدا ہوں۔
جمعرات کا دن تھا اور ہجرت کا دسواں سال۔ آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے ان کے ہمراہیوں کو ٹھہر جانے کا حکم دیا گیا۔ مسلمانوں نے بلند آواز سے ان لوگوں کو جو قافلے کے آگے چل رہے تھے واپس لوٹنے کے لئے پکارا اور اتنی دیر کے لئے ٹھہر گئے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پہنچ جائیں۔ آفتاب خط نصف النہار سے گزر گیا تو پیغمبر کے مؤذن نے ’’اللہ اکبر ‘‘کی صدا کے ساتھ لوگوں کو نماز ظہر پڑھنے کی دعوت دی۔ مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ہو گئے۔ لیکن فضاء اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ مجبور تھے کہ وہ اپنی عبا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے اور باقی سر کے اوپر لے لیں، ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رہی تھیں۔
اس صحراء میں کوئی سائبان نظر نہ آتا تھا اور نہ ہی کوئی سبزہ یاگھاس صرف چند بے برگ و بار بیابانی درخت تھے جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے کچھ لوگ انھی چند درختوں کا سھارا لئے ہوئے تھے اور انہوں نے ان برہنہ درختوں پر ایک کپڑا ڈال رکھا تھا اور پیغمبر کے لئے ایک سائبان سا بنا رکھا تھا لیکن گرم ہوا اس سائبان کے نیچے سے گزرتی ہوئی سورج کی جلانے والی گرمی کو اس سائبان کے نیچے بھی پھیلا رہی تھی۔ بہر حال ظہر کی نماز پڑھ لی گئی۔
خطبۂ غدیر
مسلمان ارادہ کر رہے تھے کہ فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جا کر پناہ لیں جو انھوں نے اپنے ساتھ اٹھا رکھے تھے لیکن رسول اللہ نے انہیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوند تعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار ہوں جسے ایک مفصل خطبے کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دور تھے وہ پیغمبر کا ملکوتی چھرہ اس عظیم اجتماع میں دور سے دیکھ نہیں پا رہے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا۔پیغمبر اس کے اوپر تشریف لے گئے۔پھلے پروردگار عالم کی حمد و ثنا بجا لائے اور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے یوں خطاب فرمایا:میں عنقریب خداوند متعال کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے تمھارے درمیان سے جا رہا ہوں، میں بھی جوابدہ ہوں اور تم بھی جوابدہ ہو، تم میرے بارے میں کیا گواہی دو گے لوگوں نے بلند آواز میں کہا :
’’ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے فریضۂ رسالت انجام دیا اور خیر خواہی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ہماری ہدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپ کو جزائے خیر دے‘‘۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث ہونے کی گواہی نہیں دیتے؟
سب نے کہا:کیوں نہیں ہم سب گواہی دیتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: خداوند گواہ رہنا۔
آپ نے مزید فرمایا:اے لوگو ! کیا تم میری آواز سن رہے ہو؟
انہوں نے کہا: جی ہاں۔
اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری ہو گیا۔ سوائے ہوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نہیں دیتی تھی۔ پیغمبر نے فرمایا:دیکھو! میں تمھارے درمیان دو گرانمایہ اور گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جا رہا ہوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرو گے؟
حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کہا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ دو گرانمایہ چیزیں کونسی ہیں ؟
تو پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: پھلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو ثقل اکبر ہے۔ اس کا ایک سرا تو پروردگار عالم کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سراتمھارے ہاتھ میں ہے،اس سے ہاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ ہو جاؤ گے۔ دوسری گرانقدر یادگار میرے اہل بیت ہیں اور مجھے خدائے لطیف و خبیر نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آ ملیں گے۔
ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ہی ان سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں بھی تم ہلاک ہو جاؤ گے۔
اچانک لوگوں نے دیکھا کہر سول اللہ اپنے ارد گرد نگاہیں دوڑا رہے ہیں گویا کسی کو تلاش کر رہے ہیں جونہی آپ کی نظر حضرت علیؓ پر پڑی فوراً ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور انہیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کے نیچے کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انہیں دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ تو اسلام کا وہی سپہ سالار ہے کہ جس نے کبھی شکست کا منہ نہیں دیکھا۔
اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اور بلند ہو گئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:
’’ایھا الناس من اولی الناس بالمؤمنین من انفسھم۔‘‘
یعنی اے لوگو! بتاؤ وہ کون ہے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولیت رکھتا ہے ؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ہیں۔
تو پیغمبر نے فرمایا: خدا ا میرا مولا اور رہبر ہے اور میں مومنین کا مولا اور رہبر ہوں اور ان کے اوپر ان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں (اور میرا ارادہ ان کے ارادے سے مقدم ہے)۔
اس کے بعد فرمایا:
’’فمن کنت مولاہ فہذا علی مولاہ‘‘۔
’’یعنی جس جس کا میں مولاہ ہوں علیؓ بھی اس اس کے مولاہ اور رہبر ہے‘‘۔
پیغمبر اکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی اور بعض راویوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دہرایا اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کر کے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:۔
’’اللّٰھم وال من والاہ وعاد من عاداہ واحب من احبہ و ابغض من ابغضہ و انصرمن نصرہ واخذل من خذلہ، وادرالحق معہ حیث دار۔‘‘
یعنی بار الٰہا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی رکھ۔ جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ۔ جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر۔ جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مددسے محروم رکھ اور حق کو ادھر پھیر دے جدھر وہ رخ کرے۔
اس کے بعد فرمایا:
’’ تمام حاضرین آگاہ ہو جائیں اس بات پر کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو ان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں پر اور اس وقت موجود نہیں ہیں ‘‘۔
روز اکمال دین
پیغمبر کا خطبہ ختم ہو گیا پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علیؓ بھی پسینے میں نہائے ہوئے تھے۔ دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رہا تھا۔
ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئی تھیں کہ جبرئیلؑ امین وحی لے کر نازل ہوئے اور تکمیل دین کی پیغمبر کو بایں الفاظ بشارت دی:
’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ‘‘۔[109]
’’آج کے دن میں نے تمھارے لئے تمھارے دین اور آئین کو کامل کر دیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کر دیا‘‘۔
اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر نے فرمایا:
’’اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر علی اکمال الدین واتمام النعمة ورضی الرب برسالتی والولایةلعلی من بعدی‘‘۔
’’ہر طرح کی بزرگی و بڑائی خدا ہی کے لئے ہے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کیا اور میری نبوت ورسالت اور میرے بعد کے لئے علیؓ کی ولایت کے لئے خوش ہوا۔‘‘
امیر المؤمنین علی ابن ابی طالبؓ کی ولایت کا پیغمبر کی زبان مبارک سے اعلان سن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور برپا ہوا لوگ بڑھ چڑھ کر اس اعزاز و منصب پر حضرت علیؑ کو اپنی طرف سے مبارک باد پیش کر رہے تھے۔ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں کہ انہوں نے کہا:
’’بخٍ بخٍ لک یا بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولائی و مولاکل مؤمن و مؤمنةٍ۔‘‘
’’مبارک ہو ! مبارک ہو! اے فرزند ابی طالب کہ آپؓ میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اور عورتوں کے مولا اور رہبر ہو گئے‘‘۔
اس وقت ابن عباس نے کہا :بخدا یہ عہد و پیمان سب کی گردنوں میں باقی رہے گا‘‘۔[110]
فدک
فدک اطراف مدینہ میں تقریباً ایک سو چالیس کلو میٹر کے فاصلہ پر خیبر کے نزدیک ایک آباد قصبہ تھا۔جب سات ہجری میں خیبر کے قلعے یکے بعد دیگر افواج اسلامی نے فتح کر لئے اور یہودیوں کی مرکزی قوت ٹوٹ گئی تو فدک کے رہنے والے یہودی صلح کے خیال سے بارگاہ پیغمبر میں سرتسلیم خم کرتے ہوئے آئے اور انہوں نے اپنی آدھی زمینیں اور باغات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سپرد کر دئیے اور آدھے اپنے پاس رکھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے حصہ زمینوں کی کاشتکاری بھی اپنے ذمہ لی۔ اپنی کاشتکاری کی زحمت کی اجرت وہ پیغمبر اسلام سے وصول کرتے تھے،(سورۂ حشر آیت)کے پیش نظراس کی طرف توجہ کرتے ہوئے یہ زمینیں پیغمبر اسلام کی ملکیت خاص تھیں۔ ان کی آمدنی کو آپ اپنے مصرف میں لاتے تھے یا ان مدات میں خرچ کرتے تھے جن کی طرف اس سورہ کی آیت نمبر۷ میں اشارہ ہوا ہے۔
لہٰذا پیغمبر نے یہ ساری زمینیں اپنی بیٹی حضرت فاطمة الزہراؓ کو عنایت فرما دیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے بہت سے شیعہ اور اہل سنت مفسرین نے تصریح کے ساتھ تحریر کیا ہے۔منجملہ دیگر مفسرین کے تفسیر در المنثور میں ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ جس وقت آیت (فات ذا القربیٰ حقہ)[111] نازل ہوئی تو پیغمبر نے جناب فاطمہؓ کو فدک عنایت فرمایا:
کتا ب کنز العمال جو مسند احمد کے حاشیہ پر لکھی گئی ہے،میں صلہ رحم کے عنوان کے ماتحت ابو سعید خدری سے منقول ہے کہ جس وقت مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فاطمہؓ کو طلب کیا اور فرمایا:
’’ یا فاطمة لکِ فدک‘‘
’’اے فاطمہؓ فدک تیری ملکیت ہے‘‘۔
حاکم نیشاپوری نے بھی اپنی تاریخ میں اس حقیقت کو تحریر کیا ہے۔
ابن ابی الحدید معتزلی نے بھی نہج البلاغہ کی شرح میں داستان فدک تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے اور اسی طرح بہت سے دیگر مورخین نے بھی،لیکن وہ افراد جو اس اقتصادی قوت کو حضرت علیؓ کی زوجہ محترمہ کے قبضہ میں رہنے دینا اپنی سیاسی قوت کے لئے مضر سمجھتے تھے،انہوں نے مصمم ارادہ کیا کہ حضرت علیؓ کے یاور و انصار کو ہر لحاظ سے کمزور اور گوشہ نشیں کر دیں۔ حدیث مجہول(نحن معاشر الانبیاء ولا نورث) کے بھانے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور باوجود یکہ حضرت فاطمہؓ قانونی طور پر اس پر متصرف تھیں اور کوئی شخص ’’ذوالید‘‘(جس کے قبضہ میں مال ہو)سے گواہ کا مطالبہ نہیں کرتا،جناب سیدہؓ سے گواہ طلب کیے گئے۔ بی بیؓ نے گواہ پیش کیے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود انہیں فدک عطا فرمایا ہے لیکن انہوں نے ان تمام چیزوں کی کوئی پرواہ نہیں کی۔بعد میں آنے والے خلفاء میں سے جو کوئی اہل بیتؓ سے محبت کا اظہار کرتا تو وہ فدک انہیں لوٹا دیتا لیکن زیادہ دیر نہ گزرتی کہ دوسرا خلیفہ اسے چھین لیتا اور دوبارہ اس پر قبضہ کر لیتا۔ خلفائے بنی امیہ اور خلفائے بنی عباس بارہا یہ اقدام کرتے رہے۔
واقعہ فدک اور اس سے تعلق رکھنے والے مختلف النوع حوادث جو صدر اسلام میں اور بعد کے ادوار میں پیش آئے،زیادہ دردناک اور غم انگیز ہیں اور وہ تاریخ اسلام کا ایک عبرت انگیز حصہ بھی ہیں جو محققانہ طور پر مستقل مطالعہ کا متقاضی ہے تا کہ تاریخ اسلام کے مختلف حوادث نگاہوں کے سامنے آسکیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت کے نامور محدث مسلم بن حجاج نیشاپوری نے اپنی مشہور و معروف کتاب ’’صحیح مسلم‘‘ میں جناب فاطمہؓ کا خلیفہ اول سے فدک کے مطالبہ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے، اور جناب عائشہ کی زبانی نقل کیا ہے کہ جناب فاطمہ کو جب خلیفہ اول نے فدک نہیں دیا تو بی بی ان سے ناراض ہو گئی اور آخر عمر ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔(صحیح مسلم،کتاب جہاد ج۳ص۱۳۸۰حدیث ۵۲)
’’نحن معاشر الانبیاء لا نورث‘‘
اہل سنت کی مختلف کتابوں میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب ایک حدیث موجود ہے جو اس طرح کے مضمون پر مشتمل ہے:
’’نحن معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقة‘‘
’’ہم پیغمبر لوگ اپنی میراث نہیں چھوڑتے جو ہم سے رہ جائے اسے راہ خدا میں صدقے کے طور پر خرچ کر دیا جائے‘‘۔
اور بعض کتابوں میں ’’لا نورث‘‘ کا جملہ نہیں ہے بلکہ ’’ما ترکناہ صدقة‘‘ کی صورت میں نقل کیا گیا ہے۔
اس روایت کی سند عام طور پر ابوبکرؓ تک جا کر ختم ہو جاتی ہے جنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد مسلمانوں کی زمام امور اپنے قبضے میں لے لی تھی۔ اور جب حضرت فاطمہ زہراؓ یا پیغمبر اکرم کی بعض بیویوں نے ان سے پیغمبر کی میراث کا مطالبہ کیا تو انھوں نے اس حدیث کا سھارا لے کر انہیں میراث سے محروم کر دیا۔
اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح (جلد ۳ کتاب الجہاد والسیر۔ ص۔۱۳۷۹)میں، بخاری نے جزو ہشتم کتاب الفرائض کے صفحہ ۱۸۵۔پر اور اسی طرح بعض دیگر افراد نے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ مذکورہ کتابوں میں سے بخاری میں بی بی عائشہ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے:فاطمہ زہراؓ اور جناب عباس بن عبد المطلبؓ (رسول کی وفات کے بعد )ابو بکرؓ کے پاس آئے اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا۔ اس وقت انھوں نے اپنی فدک کی اراضی اور خیبر سے ملنے والی میراث کا مطالبہ کیا تو ابو بکرؓ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا۔’’ہم میراث میں کوئی چیز نہیں چھوڑتے،جو کچھ ہم سے رہ جائے وہ صدقہ ہوتا ہے‘‘۔
جناب فاطمہ زہراؓ نے جب یہ سنا تو ناراض ہو کر وہاں سے واپس آ گئیں اور مرتے دم تک ان سے بات نہیں کی۔
البتہ یہ حدیث مختلف لحاظ سے تجزیہ و تحلیل کے قابل ہے لیکن اس تفسیر میں ہم چند ایک نکات بیان کریں گے:
۱۔یہ حدیث،قرآنی متن کے مخالف ہے اور اس اصول اور کلیہ قاعدہ کی رو سے نا قابل اعتبار ہے کہ جو بھی حدیث کتاب اللہ کے مطابق نہ ہو اس پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے اور ایسی حدیث کو پیغمبر اسلام یا دیگر معصومین علیھم السلام کا قول سمجھ کر قبول نہیں کیا جا سکتا۔
ہم قرآنی آیات میں پڑھتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑؑ جناب داؤدؑ کے وارث بنے اور آیت کا ظاہر مطلق ہے کہ جس میں اموال بھی شامل ہیں۔ جناب یحییٰؑ اور زکریاؑ کے بارے میں ہے:
’’یرثنی ویرث من اٰل یعقوب‘‘[112]
’’خداوندا! مجھے ایسا فرزند عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث بنے‘‘۔
حضرت ’’زکریاؑ ‘‘کے بارے میں تو بہت سے مفسرین نے مالی وراثت پر زور دیا ہے۔
اس کے علاوہ قرآن مجید میں ’’وراثت‘‘ کی آیات کا ظاہر بھی عمومی ہے کہ جو بلا استثناء سب کے لئے ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے مشہور عالم علامہ قرطبی نے مجبور ہو کر اس حدیث کو غالب اور اکثر فعل کی حیثیت سے قبول کیا ہے نہ کہ عمومی کلیہ کے طور پر اور اس کے لئے یہ مثال دی ہے کہ عرب ایک جملہ کہتے ہیں :
’’انا معشرالعرب اقری الناس للضیف‘‘۔
ہم عرب لوگ دوسرے تمام افراد سے بڑھ کر مہمان نواز ہیں (حالانکہ یہ کوئی عمومی حکم نہیں ہے)۔
لیکن ظاہر ہے کہ یہ بات اس حدیث کی اہمیت کی نفی کر رہی ہے کیونکہ حضرت سلیمانؑ اور یحییٰؑ کے بارے میں اس قسم کا عذر قبول کر لئے تو پھر دوسرے کے لئے بھی یہ قطعی نہیں رہ جاتی۔
۲۔مندرجہ بالا روایت ان کے خلاف ہے جن سے معلوم ہوتا ہو کہ ابو بکر نے جناب فاطمہ زہراؓ کو فدک واپس لوٹا نے کا پختہ ارادہ کر کیا تھا لیکن دوسرے لوگ اس میں حائل ہو گئے تھے چنانچہ سیرت حلبی میں ہے:
فاطمہؓ بنت رسول، ابو بکرؓ کے پاس اس وقت آئیں جب وہ منبر پر تھے۔ انھوں نے کہا:
’’اے ابو بکرؓ! کیا یہ چیز قرآن میں ہے کہ تمھاری بیٹی تمھاری وارث بنے لیکن میں اپنے باپ کی میراث نہ لوں ‘‘؟
یہ سن کر ابو بکر رونے لگے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے پھر وہ منبر سے نیچے اترے اور فدک کی واپسی کا پروانہ فاطمہ کو لکھ دیا۔ اسی اثناء میں عمر ؓآ گئے۔ پوچھا یہ کیا ہے؟انھوں نے کہا کہ میں نے یہ تحریر لکھ دی ہے تا کہ فاطمہ کو ان کے باپ سے ملنے والی وراثت واپس لوٹا دوں !
عمرؓ نے کہا: اگر آپ یہ کام کریں گے تو پھر دشمنوں کے ساتھ جنگی اخراجات کہاں سے پورے کریں گے؟ جبکہ عربوں نے آپ کے خلاف قیام کیا ہوا ہے۔ یہ کہا اور تحریر لے کر اسے پارہ پارہ کر دیا۔[113]
یہ کیونکر ممکن ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے تو صریحی طور پر ممانعت کی ہو اور ابو بکرؓ اس کی مخالفت کی جرأت کریں ؟اور پھر عمرؓ نے جنگی اخراجات کا تو سھارا لیا لیکن پیغمبر اکرم کی حدیث پیش نہیں کی۔
مندرجہ بالا روایت پر اگر اچھی طرح غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہاں پر پیغمبر اسلام کی طرف سے ممانعت کا سوال نہیں تھا۔ بلکہ سیاسی مسائل آڑے تھے اور ایسے موقع پر معتزلی عالم ابن ابی الحدید کی گفتگو یاد آ جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں :
میں نے اپنے استاد’’ علی بن فارقی‘‘ سے پوچھا کہ کیا فاطمہؓ اپنے دعویٰ میں سچی تھیں ؟ تو انھوں نے کہا جی ہاں ! پھر میں نے پوچھا تو ابوبکرؓ انہیں سچا اور بر حق بھی سمجھتے تھے۔
اس موقع پر میرے استاد نے معنی خیز تبسم کے ساتھ نہایت ہی لطیف اور پیارا جواب دیا حالانکہ ان کی مذاق کی عادت نہیں تھی،انھوں نے کہا:
اگر وہ آج انہیں صرف ان کے دعویٰ کی بناء پر ہی فدک دے دیتے تو پھر نہ تو ان کے لئے کسی عذر کی گنجائش باقی رہتی اور نہ ہی ان سے موافقت کا امکان‘‘۔[114]
۳۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک مشہور حدیث ہے جسے شیعہ اور سنی سب نے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے،حدیث یہ ہے: ’’العلماء ورثة الانبیاء‘‘۔ ’’علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں ‘‘۔
نیز یہ قول بھی آنحضرتؐ ہی سے منقول ہے: ’’ان الانبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درھماً‘‘۔ ’’انبیاء اپنی میراث میں نہ تو دینار چھوڑتے ہیں اور نہ ہی درہم‘‘۔
ان دونوں حدیثوں کو ملا کر پڑھنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا اصل مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو یہ بات باور کرائیں کہ انبیاء کے لئے سرمایہ افتخار ان کا علم ہے اور اہم ترین چیز جو وہ یادگار کے طور پر چھوڑ جاتے ہیں ان کا ہدایت و راہنمائی کا پروگرام ہے اور جو لوگ علم و دانش سے زیادہ بہرہ مند ہوں گے وہی انبیاء کے اصلی وارث ہوں گے۔ بجائے اس کے کہ ان کی مال پر نگاہ ہو اور اسے یادگار کے طور پر چھوڑ جائیں۔ اس کے بعد اس حدیث کے نقل بہ معنی کر دیا گیا اور اس کی غلط تعبیریں کی گئیں اور شاید ’’ماترکناہ صدقة‘‘ والے جملے کا بعض روایات میں اس پر اضافہ کر دیا گیا۔
مباہلہ
خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کوئی شخص تم سے حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے’’مباہلہ‘‘کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچوں، عورتوں اور نفسو ں کو لے آئے اور تم بھی اپنے بچوں کو عورتوں اور نفسں کو بلا لو پھر دعا کرو تاکہ خدا جھوٹوں کو رسوا کر دے۔
بغیر کہے یہ بات واضح ہے جب کہ مباہلہ سے مراد یہ نہیں کہ طرفین جمع ہوں، اور ایک دوسرے پر لعنت اور نفرین کریں اور پھر منتشر ہو جائیں کیونکہ یہ عمل تو نتیجہ خیز نہیں ہے۔
بلکہ مراد یہ ہے کہ دعا اور نفرین عملی طور پر اپنا اثر ظاہر کرے اور جو جھوٹا ہو فوراً عذاب میں گرفتار ہو جائے۔
آیات میں مباہلہ کا نتیجہ تو بیان نہیں کیا گیا لیکن چونکہ یہ طریقۂ کار منطق و استدلال کے غیر موثر ہونے پر اختیار کیا گیا تھا اس لئے یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ مقصود صرف دعا نہ تھی بلکہ اس کا خارجی اثر پیش نظر تھا۔
مباہلہ کا مسئلہ عرب میں کبھی پیش نہیں آیا تھا،اور اس راستہ سے پیغمبر اکرم کو صداقت و ایمان کو اچھی سرح سمجھا جاسکتا تھا،کیسے ممکن ہے کہ جو شخص کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو وہ ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دی کہ آؤ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں، اس سے درخواست کریں اور دعا کریسیں کہ وہ جھوٹے کو رسو اکر دے اور پھر یہ بھی کھے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ خود دیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے اور عذاب کرتا ہے۔
یہ مسلم ہے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطرناک معاملہ ہے کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ ہوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ ہوا تو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہو گا۔
کیسے ممکن ہے کہ ایک عقلمند اورسمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمینان کئے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے دعوت مباہلہ اپنے نتائج سے قطع نظر،آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان کی دلیل بھی ہے۔
اسلامی روایات میں ہے کہ ’’مباہلہ‘‘ کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مہلت چاہی تا کہ اس بارے میں سوچ بچار کر لیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کر لیں۔ مشورہ کی یہ بات ان کی نفسیاتی حالت کی چغلی کھاتی ہے۔
بھر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے ما بین یہ طے پایا کہ اگر محمدؐ شور و غل،مجمع اور داد و فریاد کے ساتھ’’مباہلہ‘‘کے لئے آئیں تو ڈرا نہ جائے اور مباہلہ کر لیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نہیں، جب بھی شور و غل کا سھارا لیا جائے گا اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں، بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جان لینا چاہیے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور اس صورت میں اس سے ’’مباہلہ‘‘ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطرناک ہے!۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباہلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسینؑ کو گود میں لئے حسنؑ کا ہاتھ پکڑے اور علیؑ اور فاطمہؑ کو ہمراہ لئے آ پہنچے ہیں اور انہیں فرما رہے ہیں کہ جب میں دعا کروں، تم آمین کہنا۔
عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتہائی پریشان ہوئے اور مباہلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لئے تیار ہو گئے اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ ہو گئے۔
عظمت اہل بیت کی ایک زندہ سند
شیعہ اورسنی مفسرین اور محدثین نے تصریح کی ہے کہ آیۂ مباہلہ اہل بیت رسولؓ کی شان میں نازل ہوئی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جن افراد کو اپنے ہمراہ وعدہ گاہ کی طرف لے گئے تھے وہ صرف ان کے بیٹے امام حسنؑ اور امام حسینؑ ، ان کی بیٹی فاطمہ زھراؓ اور حضرت علیؑ تھے۔ اس بناء پر آیت میں ’’ابنائنا ‘‘سے مراد صرف امام حسنؑ اور امام حسینؑ ہیں۔ ’’نسائنا‘‘سے مراد جناب فاطمہؓ ہیں اور’’انفسنا‘‘ سے مراد صرف حضرت علیؑ ہیں۔
اس سلسلے میں بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں۔ اہل سنت کے بعض مفسرین نے جو بہت ہی تعداد میں ہیں۔ اس سلسلے میں وارد ہونے والی احادیث کا انکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً مولفِ’’المنار‘‘ نے اس آیت کے ذیل میں کہا ہے:
’’یہ تمام روایات شیعہ طریقوں سے مروی ہیں، ان کا مقصد معین ہے،انہوں نے ان احادیث کی نشر و اشاعت اور ترویج کی کوشش کی ہے۔ جس سے بہت سے علماء اہل سنت کو بھی اشتباہ ہو گیا ہے‘‘!!۔
لیکن اہل سنت کی بنیادی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے تو وہ نشاندہی کرتی ہیں کہ ان میں سے بہت سے طریقوں کا شیعوں یا ان کی کتابوں سے ہر گز کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر اہل سنت کے طریقوں سے مروی ان احادیث کا انکار کیا جائے تو ان کی باقی احادیث اور کتب بھی درجۂ اعتبار سے گر جائیں گی۔
اس حقیقت کو زیادہ واضح کرنے کے لئے اہل سنت کے طریقوں سے کچھ روایات ہم یہاں پیش کریں گے۔
قاضی نوراللہ شوستری اپنی کتاب نفیس ’’احقاق الحق‘‘[115]میں لکھتے ہیں :
’’مفسرین اس مسئلے میں متفق ہیں کہ ’’ابنائنا‘‘سے اس آیت میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ مراد ہیں، ’’نسائنا‘‘سے ’’حضرت فاطمہؓ ‘‘اور’’انفسنا‘‘میں حضرت علیؓ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘‘۔
اس کے بعد کتاب مذکور کے حاشیے پر تقریباً ساٹھ بزرگان اہل سنت کی فھرست دی گئی ہے جنہوں نے تصریح کی ہے کہ آیت مباہلہ اہل بیت رسولؓ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔[116]
’’غایة المرام‘‘ میں صحیح مسلم کے حوالے سے لکھا‘‘:
’’ایک روز معاویہ نے سعد بن ابی وقاص سے کہا:‘‘
تم ابو تراب ( علیؑ ) کو سب و شتم کیوں نہیں کرتے۔وہ کہنے لگا۔
جب سے علیؑ کے بارے میں پیغمبر کی کہی ہوئی تین باتیں مجھے یاد آتی ہیں، میں نے اس کام سے صرف نظر کر لیا ہے۔ان میں سے ایک یہ تھی کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو پیغمبر نے فاطمہؓ ،حسنؓ ،حسینؑ ،اور علیؓ کو دعوت دی۔اس کے بعد فرمایا’’اللھم ھٰؤلاء اہلی‘‘(یعنی خدایا! یہ میرے نزدیکی اور خواص ہیں )۔
تفسیر’’کشاف‘‘کے مؤلف اہل سنت کے بزرگوں میں سے ہیں۔ وہ اس آیت کے ذیل میں کہتے ہیں۔ ’’یہ آیت اہل کساء کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے قوی ترین دلیل ہے‘‘۔
شیعہ مفسرین،محدثین اور مؤرخین بھی سب کے سب اس آیت کے ’’اہل بیت ‘‘کی شان میں نازل ہونے پر متفق ہیں چنانچہ ’’نورالثقلین‘‘ میں اس سلسلے میں بہت سی روایات نقل کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب ’’عیون اخبار الرضا‘‘ ہے۔ اس میں ایک مجلس مناظرہ کا حال بیان کیا گیا ہے،جو مامون نے اپنے دربار میں منعقد کی تھی۔
اس میں ہے کہ امام علی بن موسیٰ رضا نے فرمایا:
’’خدا نے اپنے پاک بندوں کو آیت مباہلہ میں مشخص کر دیا ہے اور اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے:
’’فمن حاجک فیہ من بعد ما جاء ک من العلم فقل۔۔۔‘‘
اس آیت کے نزول کے بعد پیغمبر، علیؓ ، فاطمہؓ ،حسنؓ ،اور حسینؓ کو اپنے ساتھ مباہلہ کے لئے لے گئے اور یہ ایسی خصوصیت اور اعزاز ہے کہ جس میں کوئی شخص اہل بیت ؓپر سبقت حاصل نہیں کرسکا اور یہ ایسی منزلت ہے جہاں تک کوئی شخص بھی نہیں پہنچ سکا اور یہ ایسا شرف ہے جسے ان سے پہلے کوئی حاصل نہیں کرسکا‘‘۔
تفسیر’’برہان‘‘،’’بحارالانوار‘‘ اور تفسیر’’عیاشی‘‘میں بھی اس مضمون کی بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جو تمام اس امر کی حکایت کرتی ہیں کہ مندرجہ بالا آیت ’’اہل بیت‘‘کے حق میں نازل ہوئی ہے۔
زینبؓ سے آنحضرتؐ کی شادی[117]
زمانۂ بعثت سے پہلے اور اس کے بعد جب کہ حضرت خدیجة الکبریٰؑ نے پیغمبر اسلام سے شادی کی تو حضرت خدیجہؑ نے ’’زید‘‘ نامی ایک غلام خریدا،جسے بعد میں آنحضرت کو ہبہ کر دیا۔
آپ نے اسے آزاد کر دیا۔ چونکہ اس کے قبیلے نے اسے اپنے سے جدا کر دیا تھا،لہٰذا رسول رحمت نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا تھا،جسے اصطلاح میں ’’تبنّی‘‘ کہتے ہیں۔
ظہور اسلام کے بعد زید مخلص مسلمان ہو گیا اور اسلام کے ہر اول دستے میں شامل ہو گئے اور اسلام میں ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ آخر میں جنگ موتہ میں ایک مرتبہ لشکر اسلام کے کمانڈر بھی مقرر ہوئے اور اسی جنگ میں شربت شہادت نوش کیا۔
جب سرکار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زید کا عقد کرنا چاہا تو اپنی پھوپھی زاد،بہن زینب بنت جحش ‘‘بنت امیہ بنت عبد المطلب سے اس کے لئے خواستگاری کی۔ زینب نے پہلے تو یہ خیال کیا کہ آنحضرت اپنے لئے اسے انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا وہ خوش ہو گئی اور رضا مندی کا اظہار کر دیا،لیکن بعد میں جب اسے پتہ چلا کہ آپ کی یہ خواستگاری تو زید کے لئے تھی تو سخت پریشان ہوئیں اور انکار کر دیا۔ اس کے بھائی عبداللہ نے بھی اس چیز کی سخت مخالفت کی۔
یہی وہ مقام تھا جس کے بارے میں وحی الٰہی نازل ہوئی اور زینب اور عبداللہ جیسے افراد کو تنبیہ کی کہ جس وقت خدا اور اس کا رسول کسی کام کو ضروری سمجھیں تو وہ مخالفت نہیں کر سکتے۔
جب انھوں نے یہ بات سنی تو سر تسلیم خم کر دیا۔ (البتہ آگے چل کر معلوم ہو گا کہ یہ شادی کوئی عام شادی نہیں تھی بلکہ یہ زمانۂ جاہلیت کی ایک غلط رسم کو توڑنے کے لئے ایک تمہید تھی کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں کسی با وقار اور مشہور خاندان کی عورت کسی غلام کے ساتھ شادی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی تھی،چاہے وہ غلام کتنا ہی اعلی قدر و قیمت کا مالک کیوں نہ ہوتا۔
لیکن یہ شادی زیادہ دیر تک نہ نبھ سکی اور طرفین کے درمیان اخلاقی نا اتفاقیوں کی بدولت طلاق تک نوبت جا پہنچی۔ اگر چہ پیغمبر اسلام کا اصرار تھا کہ یہ طلاق واقع نہ ہو لیکن ہو کر رہی۔
اس کے بعد پیغمبر اکرم نے شادی میں اس نا کامی کی تلافی کے طور پر زینب کو حکم خدا کے تحت اپنے حبالہ عقد میں لے لیا اور یہ بات یہیں پر ختم ہو گئی۔
لیکن دوسری باتیں لوگوں کے درمیان چل نکلیں جنہیں قرآن نے مربوط آیات کے ذریعے ختم کر دیا۔ اس کے بعد زید اور اس کی بیوی زینب کی اس مشہور داستان کو بیان کیا گیا ہے جو پیغمبر اسلام کی زندگی کے حساس مسائل میں سے ایک ہے اور ازواج رسول کے مسئلہ سے مربوط ہے۔
چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ:’’اس وقت کو یاد کرو جب اس شخص کو جسے خدا نے نعمت دے رکھی تھی اور ہم نے ابھی، اے رسول!اسے نعمت دی تھی اور تم کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو روکے رکھو اور خدا سے ڈرو‘‘۔[118]
نعمت خدا سے مراد وہی ہدایت اور ایمان کی نعمت ہے جو زیدؓ بن حارثہ کو نصیب ہوئی تھی اور پیغمبرؐ کی نعمت یہ تھی کہ آپؐ نے اسے آزاد کیا تھا اور اپنے بیٹے کی طرح اسے عزت بخشی تھی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زید اور زینب کے درمیان کوئی جھگڑا ہو گیا تھا اور یہ جھگڑا اس قدر طول پکڑ گیا کہ نوبت جدائی اور طلاق تک جا پہنچی۔ اگر آیت میں لفظ ’’تقول‘‘ کی طرف توجہ کی جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ فعل مضارع ہے اور اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ آنحضرت بارہا بلکہ ہمیشہ اسے نصیحت کرتے اور روکتے تھے۔
کیا زینبؓ کا یہ نزاع زیدؓ کی سماجی حیثیت کی بناء پر تھا جو زینبؓ کی معاشرتی حیثیت سے مختلف تھی؟کیونکہ زینبؓ کا ایک مشہور و معروف قبیلہ سے تعلق تھا اور زیدؓ آزاد شدہ تھا۔ یا زید کی اخلاقی سختیوں کی وجہ سے تھا؟یا ان میں سے کوئی بات بھی، نہیں تھی بلکہ دونوں میں روحانی اور اخلاقی موافقت اور ہما آہنگی نہیں تھی؟کیونکہ ممکن ہے دو افراد اچھے تو ہوں لیکن فکر و نظر اور سلیقہ کے لحاظ سے ان میں اختلاف ہو جس کی بناء پر اپنی ازدواجی زندگی کو آئندہ کے لئے جاری نہ رکھ سکتے ہوں ؟
پیغمبر کی نظر میں تھا کہ اگر ان میاں بیوی کے درمیان صلح صفائی نہیں ہو پائی اور نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے تو وہ اپنی پھوپھی زاد بہن زینب کی اس نا کامی کی تلافی اپنے ساتھ نکاح کی صورت میں کر دیں گے،اس کے ساتھ آپ کو یہ خطرہ بھی لاحق تھا کہ لوگ دو وجوہ کی بناء پر آپ پر اعتراض کریں گے اور مخالفین ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیں گے۔
اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے :’’تم اپنے دل میں ایک چیز کو چھپائے ہوئے تھے جسے خدا آشکار کرتا ہے اور تم لوگوں سے ڈرتے ہو حالانکہ تمھارا پروردگار زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس سے ڈرو‘‘۔[119]
پہلی وجہ تو یہ تھی کہ زیدؓ آنحضرت کا منہ بولا بیٹا تھا،اور زمانۂ جاہلیت کی رسم کے مطابق منہ بولے بیٹے کے بھی وہی احکام ہوتے تھے جو حقیقی بیٹے کے ہوتے ہیں۔ منجملہ ان کے یہ بھی تھا کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے بھی شادی کرنا حرام سمجھاجاتا تھا۔
دوسری یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیونکراس بات پر تیار ہوسکتے ہیں کہ وہ اپنے ایک آزاد کردہ غلام کی مطلقہ سے عقد کریں جبکہ آپ کی شادی بہت بلند و بالا ہے۔
بعض اسلامی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ ارادہ حکم خداوندی سے کیا ہوا تھا اور بعد والے حصے میں بھی اس بات کا قرینہ موجود ہے۔
اس بناء پر یہ مسئلہ ایک تو اخلاقی اور انسانی مسئلہ تھا اور دوسرے یہ زمانۂ جاہلیت کی غلط رسموں کو توڑنے کا ایک نہایت ہی مؤثر ذریعہ تھا (یعنی منہ بولے بیٹے کی مطلّقہ سے آزاد کردہ غلام کی مطلّقہ سے عقد)۔
مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان مسائل میں نہ تو لوگوں سے ڈرنا چاہئے تھا اور نہ ہی فضا کے مکدر ہونے اور زہریلے پروپیگنڈے سے خوف و وحشت کا شکار ہی ہو جاتے، خاص کر جب یہ احتمال ہو کہ ایک جنجال کھڑا ہو جائے گا اور آپ اور آپ کے مقدس مشن کی ترقی اور اسلام کی پیش رفت کے لئے رکاوٹ کھڑی ہو جائے گی اور یہ بات ضعیف الایمان افراد کو متزلزل کر دے گی اور ان کے دل میں شک و شبہات پیدا ہو جائیں گے۔
اس لئے قرآن میں اس سلسلہ کے آخر میں فرمایا گیا ہے:
’’ جس وقت زید نے اپنی حاجت کو پورا کر لیا اور اپنی بیوی کو چھوڑ دیا تو ہم اسے تمھاری زوجیت میں لے آئے تاکہ منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے مطلّقہ ہونے کے بعد مومنین کو ان سے شادی کرنے میں کوئی مشکل نہ ہو‘‘۔[120] یہ کام ایسا تھا جسے انجام پا جانا چاہئے تھا ’’اور خدا کا فرمان انجام پاکر رہتا ہے‘‘۔ [121]
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن ہرقسم کے شک و شبہ کو دور کرنے کے لئے پوری صراحت کے ساتھ اس شادی کا اصل مقصد بیان کرتا ہے جو زمانہ جاہلیت کی ایک رسم توڑنے کے لئے تھی یعنی منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ عورتوں سے شادی نہ کرنے کے سلسلے میں یہ خود ایک کلی مسئلہ کی طرف اشارہ ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مختلف عورتوں سے شادی کرنا کوئی عام سی بات نہیں تھی بلکہ اس میں کئی مقاصد کا ذکر کرنا مقصود تھا جو آپ کے مکتب کے مستقبل کے انجام سے تعلق رکھتا تھا۔ [122]
ثعلبہ
’’ثعلبہ بن حاطب انصاری‘‘ ایک غریب آدمی تھا،روزانہ مسجد میں آیا کرتا تھا اس کا اصرار تھا کہ رسول اکرم دعا فرمائیں کہ خدا اس کو مالا مال کر دے۔ حضور نے اس سے فرمایا:
’’مال کی تھوڑی مقدار جس کا تو شکر ادا کر سکے مال کی کثرت سے بہتر ہے جس کا تو شکر ادا نہ کرسکے‘‘۔
کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تو خدا کے پیغمبرؐ کی پیروی کرے اور سادہ زندگی بسر کرے۔
لیکن ثعلبہ مطالبہ کرتا رہا اور آخر کار اس نے پیغمبر اکرم سے عرض کیا کہ میں آپ کو اس خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ اگر خدا نے مجھے دولت عطا فرمائی تو میں اس کے تمام حقوق ادا کروں گا۔چنانچہ آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی۔
ایک روایت کے مطابق زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ اس کا ایک چچا زاد بھائی جو بہت مال دار تھا، وفات پا گیا اور اسے بہت سی دولت ملی۔
ایک اور روایت میں ہے کہ اس نے ایک بھیڑ خریدی جس سے اتنی نسل بڑھی کہ جس کی دیکھ بھال مدینہ میں نہیں ہوسکتی تھی۔ اس لئے انہیں مدینہ کے آس پاس کی آبادیوں میں لے گیا اور مادی زندگی میں اس قدر مصروف ہو گیا کہ نماز با جماعت تو کیا نماز جمعہ میں بھی نہ آتا تھا ایک مدت کے بعد رسول اکرم نے زکوٰة وصول کرنے والے عامل کو اس کے پاس زکوٰة لینے کے لئے بھیجا لیکن اس کم ظرف کنجوس نے نہ صرف خدائی حق کی ادائیگی میں پس و پیش کیا بلکہ شرع مقدس پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ یہ حکم جزیہ کی طرح ہے یعنی ہم اس لئے مسلمان ہوئے تھے کہ جزیہ دینے سے بچ جائیں۔ اب زکوٰة دینے کی شکل میں ہم میں اور غیر مسلموں میں کون سافرق باقی رہ جاتا ہے۔ حالانکہ اس نے نہ جزیہ کا مطلب سمجھا تھا اور نہ زکوٰة کا اور اگر اس نے سمجھا تھا تو دنیا پرستی جو اسے حقیقت کے بیان اور اظہار حق کی اجازت نہیں دیتی تھی،غرض جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی باتیں سنیں تو فرمایا:
’’یا ویح ثعلبہ ! یا ویح ثعلبہ‘‘۔
’’وائے ہو ثعلبہ پر ہلاکت ہو ثعلبہ پر‘‘۔[123]
(منتخب از تفسیر نمونہ)
حوالہ جات
[88] سورہ فتح آیت ۱۵۔[89] سورہ فتح آیت ۱۵۔
[90] سورہ فتح آیت ۱۵۔
[91] سورہ فتح آیت۔
[92] سورہ یوسف آیت۔ ۹۲۔
[93] سورۂ ممتنحہ آیت ۱۲۔
[94] ’’مقوقس‘‘(بہ ضم میم وبہ فتحہ ھردو ’’قاف‘‘)’’ھرقل ‘‘بادشاہ روم کی طرف سے مصر کا والی تھا۔
[95] بعض کا نظریہ یہ ہے کہ یہ واقعہ اس سورہ کے واضح مصادیق میں سے ایک ہے،یہ اس کا شان نزول نہیں ہے۔
[96] ذیل آیات ۲۵ تا ۲۷ سورہ ٴ توبہ۔
[97] واقعہ جنگ تبوک سورۂ توبہ آیت ۱۱۷ کے ذیل میں بیان ہوا ہے۔
[98] سورہ توبہ آیت ۳۸۔
[99] سورہ توبہ آیت ۳۸۔
[100] سورہ توبہ آیت ۳۹۔
[101] سورہ توبہ آیت ۳۹۔
[102] سور ہ توبہ آیت ۳۹۔
[103] یہ شخص انہیں افراد میں سے تھا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سورہ توبہ آیت۱۱۷ نازل ہوئی۔
[104] سورہ توبہ:آیت ۱۱۸۔ اس سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔
[105] مسجد ضرار کے سلسلے میں سورۂ توبہ۔ ۱۰۷ تا۱۱۰ میں بیان ہوا ہے۔
اس کے فوراً بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ مذکورہ مسجد کو جلا دیا جائے اور اسکے باقی حصے کو مسمارکر دیا جائے اور اس کی جگہ کوڑاکرکٹ ڈالاجایا کرے۔
[106] سورۂ توبہ آیت ۱۰۸۔
[107] سورۂ توبہ آیت ۱۰۸۔
[108] سورۂ توبہ آیت ۱۰۸۔
[109] سورۂ مائدہ آیت ۳۔
[110] اس سلسلے میں مزید آگہی کے لئے کتاب الغدیر، علامہ امینی، احقاق الحق، قاضی نوراللہ شوشتری، المراجعات شرف الدین اور دلائل الصدق محمدحسین مظفر پر رجوع کریں۔
[111] سورۂ روم آیت ۳۸۔
[112] سورۂ مریم آیت ۶.
[113] سیرۂ حلبی ج۳/ص۳۶۱۔
[114] شرح نہج البلاغہ،ابن ابی الحدید جلد۔۱۶۔ص۔۲۸۴۔
[115] جلد سوم طبع جدید صفحہ۴۶۔
[116] ان کے نام اور ان کی کتاب کی خصوصیات صفحہ۔ ۴۶۔ سے لیکر صفحہ۔۷۶۔ تک تفصیل سے بیان کی گئی ہے ان شخصیتوں میں سے یہ زیادہ مشہور ہیں۔
۱۔مسلم بن حجاج نیشاپوری،مؤلف صحیح مسلم جو نامور شخصیت ہیں اور ان کی حدیث کی کتاب اہل سنت کی چھ قابل اعتماد صحاح میں سے ہے ملاحظہ ہو مسلم،ج۔۷۔ص۔۱۲۰طبع مصر زیر اہتمام محمد علی صبیح۔
۲۔احمد بن حنبل نے اپنی’’مسند‘‘میں لکھا ہے ملاحظہ ہو، ج۔۲۔ص۔۱۸۵۔طبع مصر۔
۳۔طبری نے اپنی مشہور تفسیر میں اسی آیت کے ضمن میں لکھا ہے۔ دیکھئے۔ ج۔۳۔ص۔۱۹۲۔طبع میمنیہ۔ مصر۔
۴۔حاکم نے اپنی’’مستدرک‘‘میں لکھا ہے،دیکھئے۔ج۔۳۔ص۔۱۵۔مطبوعہ حیدرآباد دکن۔
۵۔حافظ ابو نعیم اصفھانی،کتاب ’’دلائل النبوة‘‘۔ص۔۲۹۷۔مطبوعہ حیدرآباد دکن۔
۶۔واحدی نیشاپوری،کتاب’’اسباب النزول‘‘۔ص۔۷۴۔طبع ہند۔
۷۔فخر رازی، نے اپنی مشہور تفسیر کبیر میں لکھا ہے، دیکھئے۔ ج۔۸۔ ص۔۸۵۔ طبع بھیہ،مصر۔
۸۔ابن اثیر،’’جامع الاصول‘‘ جلد۔۹۔ص۔۴۷۰۔طبع سنتہ المحمدیہ،مصر۔
۹۔ابن جوزی ’’تذکرة الخواص‘‘ صفحہ۔۱۷۔طبع نجف۔
۱۰۔قاضی بیضاوی،نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے،ملاحظہ کریں۔ ج۔۲۔ ص۔۲۲۔ طبع مصطفی محمد،مصر۔
۱۱۔آلوسی نے تفسیر’’روح المعانی‘ ‘میں لکھا ہے۔ دیکھئے۔ ج۔ ۳۔ص۔۱۶۷۔طبع منیریہ۔ مصر۔
۱۲۔معروف مفسر طنطاوی نے اپنی تفسیر ’’الجواھر‘‘ میں لکھا ہے۔۔ ج۔۲۔ ص۔ ۱۲۰۔ مطبوعہ مصطفی الیابی الحلبی،مصر۔
۱۳۔زمخشری نے تفسیر’’کشاف‘‘میں لکھا ہے،دیکھئے۔ج۔۱۔ص۔۱۹۳،مطبوعہ مصطفی محمد،مصر۔
۱۴۔حافظ احمد ابن حجر عسقلانی، ’’الاصابة‘‘۔ج۔۲۔ص۔۵۰۳،مطبوعہ مصطفی محمد، مصر۔
۱۵۔ابن صباغ،’’فصول المھمة‘‘۔ص۔۱۰۸۔مطبوعہ نجف۔
۱۶۔علامہ قرطبی،’’الجامع الاحکام القرآن‘‘۔ج۔۳۔ص۔۱۰۴۔مطبوعہ مصر ۱۹۳۶۔
[117] اکثر مفسرین و مورخین اسلامی کے بقول سورہ احزاب کی آیات ۳۶تا۳۸/اس سلسلے میں نازل ہوئی ہیں۔
[118] سورۂ احزاب آیت ۳۷۔
[119] سورۂ احزاب آیت۳۷۔
[120] سورہ احزاب آیت ۳۷۔
[121] سورہ احزاب آیت ۳۷۔
[122] پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زینب کے ساتھ شادی کی داستان قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ بیان کر دی ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اس کا ہدف منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کے ذریعے دور جاہلیت کی ایک رسم کو توڑنا تھا، اس کے باوجود دشمنان اسلام نے اسے غلط رنگ دے کر ایک عشقیہ داستان میں تبدیل کر دیا اس طرح سے انہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات کو آلودہ کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے اور اس بارے میں مشکوک اور جعلی احادیث کا سھارالیا ہے ان داستانوں میں ایک یہ بھی ہے کہ جس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زید کی احوال پرسی کے لئے اس کے گھر گئے اور جونہی آپ نے دروازہ کھولا تو آپ کی نظر زینب کے حسن و جمال پر جا پڑی تو آپ نے فرمایا :
’’سبحان اللہ خالق النور تبارک اللہ احسن الخالقین‘‘
’’منزہ ہے وہ خدا جو نور کا خالق ہے اور جاویدو بابرکت ہے وہ اللہ جو احسن الخالقین ہے‘‘۔
ان لوگوں نے اس جملے کو زینبؓ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لگاؤ کی دلیل قرار دیا ہے، حالانکہ، عصمت و نبوت کے مسئلہ سے قطع نظر بھی اس قسم کے افسانوں کی تکذیب کے لئے واضح شواہد ہمارے پاس موجود ہیں :
پہلا یہ کہ حضرت زینبؓ، رسول پاک کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور خاندانی ماحول میں تقریباً آپ کے سامنے پلی بڑھی تھیں اور آپ ہی نے زید کے لئے ان کی خواستگاری کی تھی اگر زینبؓ حد سے زیادہ حسین تھیں اور بالفرض اس کے حسن و جمال نے پیغمبر اکرم کی توجہ کو اپنی طرف جذب کر لیا تھا تو نہ تو اس کا حسن و جمال ڈھکا چھپا تھا اور نہ ہی اس ماجرے سے پہلے ان کے ساتھ آنحضرت کا عقد کرنا کوئی مشکل امر تھا بلکہ اگر دیکھا جائے تو زینبؓ کو زیدؓ کے ساتھ شادی کرنے سے دلچسپی نہ تھی، بلکہ اس بارے میں انہوں نے اپنی مخالفت کا اظہار صراحت کے ساتھ بھی کر دیا تھا اور وہ اس بات کو کا ملاً ترجیح دیتی تھیں کہ زید کی بجائے رسول اللہ کی بیوی بنیں، کیونکہ جب آنحضرت زید کے لئے زینب سے رشتہ دینے آئے تو وہ نہایت خوش ہو گئیں، کیونکہ وہ یہ سمجھ رہی تھیں کہ آپ ان سے اپنے لئے خواستگاری کی غرض سے تشریف لائے ہیں، لیکن بعد میں وحی الٰہی کے نزول اور خدا و پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے زید کے ساتھ شادی کرنے پر راضی ہو گئیں۔ تو ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے توہم کی کونسی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہیں آپ زینب کے حالات سے بے خبر تھے؟ یا آپ ان سے شادی کی خواہش رکھتے ہوئے بھی اقدام نہیں کرسکتے تھے؟
دوسرا یہ کہ جب زیدؓ نے اپنی بیوی زینبؓ کو طلاق دینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف رجوع کیا تو آپ نے بار باراسے نصیحت کی اور اطلاق دینے کے لئے روکا اور یہ چیز بجائے خود ان افسانوں کی نفی کا ایک اور شاہد ہے۔
پھر یہ کہ خود قرآن صراحت کے ساتھ اس شادی کا مقصد بیان کرتا ہے تاکہ کسی قسم کی دوسری باتوں کی گنجائش باقی نہ رہے۔
چوتھا امر یہ ہے کہ قرآنی آیت میں خداوند عالم اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرماتا ہے کہ زید کی مطلقہ بیوی کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی خاص بات تھی جس کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں سے ڈرتے تھے، جبکہ انہیں صرف خدا سے ہی ڈرنا چاہئے۔
خوف خدا کا مسئلہ واضح کرتا ہے کہ یہ شادی ایک فرض کی بجا آوری کے طور پر انجام پائی تھی کہ خدا کی ذات کے لئے شخصی معاملات کو ایک طرف رکھ دینا چاہئے تاکہ ایک خدائی مقدس ہدف پورا ہو جائے، اگرچہ اس سلسلے میں کور دل دشمنوں کی زبان کے زخم اور منافقین کی افسانہ طرازی کا پیغمبر کی ذات پر الزام ہی کیوں نہ آتا ہو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم خدا کی اطاعت اور غلط رسم کو توڑنے کی پاداش میں یہ ایک بہت بڑی قیمت ادا کی ہے اور اب تک کر رہے ہیں۔
لیکن سچے رہبروں کی زندگی میں ایسے لمحات بھی آ جاتے ہیں، جن میں انہیں ایثار اور فدا کاری کا ثبوت دینا پڑتا ہے، اور وہ اس قسم کے لوگوں کے اتہامات اور الزامات کا نشانہ بنتے رہتے ہیں تاکہ اس طرح سے وہ اپنے اصل مقصد تک پہنچ جائیں
البتہ اگر پیغمبر گرامی قدر نے زینبؓ کو بالکل ہی نہ دیکھا ہوتا اور نہ ہی پہچانا ہوتا اور زینبؓ نے بھی آپ کے ساتھ ازدواج کے بارے میں رغبت کا اظہار نہ کیا ہوتا اور زید بھی انہیں طلاق دینے پر تیار نہ ہوتے (نبوت و عصمت کے مسئلہ سے ہٹ کر)پھر تو اس قسم کی گفتگو اور توہمات کی گنجائش ہوتی،لیکن پیغمبر کی تو وہ دیکھی دکھائی تھیں لہٰذا ان تمام امکانات کی نفی کے ساتھ ان افسانوں کا جعلی اور من گھڑت ہونا واضح ہو جاتا ہے۔
علاوہ ازیں نبی اکرم کی زندگی کا کوئی لمحہ یہ نہیں بتاتا کہ آپ کو زینب سے کوئی خاص لگاؤ اور رغبت ہو،بلکہ دوسری بیویوں کی نسبت ان سے کوئی رغبت رکھتے تھے اور ان افسانوں کی نفی پر یہ ایک اور دلیل ہے۔
[123] مفسرین کے درمیان مشہور ہے کہ سورہ توبہ کی آیت ۷۵تا ۷۸ اس واقعہ کو بیان کیا گیا ہے۔
آیہ اللہ العظمی مکارم شیرازی