عشق میں تخت و تاج کیا کرتے
اپنے دل کا علاج کیا کرتے
جب لکھی تھی شکست قسمت میں
جو نہ دیتے خراج کیا کرتے
میرے صد چاک پیرہن کے لیے
کچھ بٹن چند کاج کیا کرتے
گر بغاوت پہ ہم اتر آتے
پھر یہ رسم و رواج کیا کرتے
اس کا برہم مزاج کیا کہنے
ہم شگفتہ مزاج کیا کرتے
اس کی بستی میں بے وفائی کا
چل پڑا تھا رواج کیا کرتے
کل ملاقات اس سے طے تھی مگر
یہ بتاؤ کہ آج کیا کرتے
کچھ نہ بولے کوئی گلہ نہ کیا
اس کی رکھنی تھی لاج کیا کرتے
اتنی مہلت کبھی ملی ہی نہیں
ہم کسی دل پہ راج کیا کرتے
سعید سعدی