ایک ادنٰی سی استدعا
ابھی میرے کمرے میں ہر جانب سےآذان کی صدائیں آ رہی ہیں۔ لوگ خداۓ بزرگ و برتر سے اُس کی رحمت کے طالب ہیں مگر اُس کے بناۓ قوانین سے منحرف ہو کر۔ اُس کے کھنچے دائروں سے باہر نکل کر۔ اُس کی مقرر کی کئ حدود سے تجاوز کے مُرتکب ہو کر ـ اُس کی خَلق سے ظلم ، جبر، استبداد، تفاوت ، استحصال اور ناانصافی جیسے سنگین جرائم کا اتکاب کر کے۔ ان حالات میں بھی ناجائز منافع، بد اخلاقی، جعلسازی اور بدتہذیبی اپنی رفعتوں کو چھو رہی ہے۔ ہر شئے اپنی اصل قیمت سے ڈیڑھ گنا زیادہ پر اور وہ بھی منت سماجت سے دستیاب ہے۔
ہر وہ عمل جسے کرنا سہل ہو یا جس میں ہمارا ذاتی نفع یا نقصان شامل نہ ہو ہم بہت دلجمئی سے کرتے ہیں۔ بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے زندگی کو خُدا کے بتاۓ اصولوں کے مطابق ڈھالنا اور بہت آسان ہے بدیسی شراب کا گلاس ہاتھ میں پکڑے نشے کی سرمستی میں خُدا اور رسول سے عشق جھاڑنا۔ جیب میں چھینا جھپٹی اور ناجائز دولت سے ہزاروں انسانوں کو کھانا کھلا کر یہ سمجھ لینا کہ یہ عمل صالح ہے ہاں صالح عمل ہے مگر دُنیوی قواعدوضوابط کے تحت ۔ دین اور خدا کے نزدیک جس معدے میں حرام کی کمائ کا لقمہ ہے اُس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
مذہبی پیشوا اور اکابرین کا کہنا ہے کہ اُسی ماں کے پیروں تلے جنت ہے جو باکردار اور صالح ہے۔ ذات کو سدھارنا زرا مشکل عمل ہے۔ اپنی خامیوں پر تنقید اور اصلاح مشکل ترین کام ہے اس لیئے ہم اس پر بات کرنے والے ہی کو تنقید اور گالم گلوچ کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ پانچ روپے کا ماسک پچاس میں فروخت کر کے۔ اشیاۓ خوردونوش کو خلقِ خُدا سے چھپا کر اور مہنگے داموں بیچنے، دوستوں کو آنے والے دنوں میں کس شۓ کی طلب زیادہ ہوگی سٹاک کر لو کا مشورہ دینے ، اپنے گھر بھرنے اور اہلِ ثروت کو دوکانوں سے اشیاۓ ضرورت کو اُٹھانے سے اگر فرصت ہو تو یہ کام بھی شوق سے کیجیئے وگرنہ خُدا سے مدد کی خواہش کو اپنے دل میں ہی کہیں دفن کر دیجیئے کہ خُدا ہم ایسے نوسر بازوں کی نصرت اور مُشکل کشائ ہرگز نہیں کرے گا۔
خُدارا ابھی بھی وقت ہے انسانوں کیلئے آسانیاں بانٹیے، خود سے سچ بولیئے، اپنا تجزیہ حقیقی اور دیانتداری کی بنیادوں پر کیجیئے۔ آئیے سوچتے ہیں کہ اس موجودہ آفت نے کیا ہمارے رویوں اور مزاج کو بدلا ہے؟؟ کیاہم حد سے تجاوز کرنے والے تو نہیں؟ کیاہم استحصال اور دوسروں کی ضرورتوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے تو نہیں؟ کیا ہمارے اندر حلم، دیانت، درگزر اور بانٹنے کی صلاحیت ہے؟؟ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم خدا اور اس کی خلق کے ہاہمی ربط کو حقیقی معنوں میں سمجھ لیں وگرنہ بھگت تو ہم رہے ہی ہیں اور بھگتیں گے۔
محبوب صابر
29 مارچ 2020 سیالکوٹ۔