آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعریفارحہ نوید

منسوب تری ذات سے سب رنگ

ایک اردو غزل از فارحہ نوید

منسوب تری ذات سے سب رنگ مرے ہیں
اس روز سے جب سے کہ ترے سنگ چلے ہیں

اک عمر ہوئی ہے کہ ملے ہم نہیں خود سے
یوں وقت سے آزاد ہیں ہم جب سے ترے ہیں

دلدار مرے جب تجھے ہنستے ہوئے دیکھا
پھر آٹھویں سر میں بھی کئی ساز بجے ہیں

خیرات میں دے دیتا اگر دید تو کیا تھا
ہم جس کے لیے پورے قرینے سے لڑے ہیں

مجھ سے نہیں ہوتا یہ خوشامد کا ڈرامہ
اُن کو ہی سراہا جو مرے دل کو لگے ہیں

دشوار ہوا مجھ پہ سفر رہ گئی پیچھے
پیروں میں مرے گھاؤ مسافت کے لگے ہیں

میں جھونک دوں چولھے میں منافق سبھی رشتے
جو خار لیے دل میں کہیں!! ہم تو ترے ہیں

دستار جو رکھنی ہے تمہیں سر پہ ہمیشہ
رکھ ان سے روابط جو بڑے قد سے کھڑے ہیں

زندان میں بھی دم نہیں گھٹتا ہے ہمارا
ہر حال میں ہر رنگ میں باطل سے لڑے ہیں

چپ ہیں کہ خدا پر ہے انہیں پختہ عقیدہ
جس شخص پہ بہتان ذلیلوں نے دھرے ہیں

پہنچائیں گے غزلیں تری تاثیر نگر تک
اک خضر تجھے فارحہ لے کے جو چلے ہیں

فارحہ نوید

فارحہ نوید

السلام علیکم میرا نام فارحہ نوید ہے ۔۔میں لاہور سے تعلق رکھتی ہوں ۔۔ پیشے کے لحاظ سے استاد ہوں الگ الگ نجی اداروں میں عرصۂ دس سال سے اردو انگریزی پڑھا رہی ہوں میرے تحریری سفر کا آغاز کہنے کو تو میٹرک کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا مگر گھر والوں کے خوف سے کبھی کھل کر لکھ نہ سکی کہ اس وقت درسی کتب کے علاوہ کچھ لکھنے پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔۔ پھر کبھی چھپ چھپا کر اپنی سکول کی سب سے قریبی دوست کے لیے کچھ بھی لکھ کر اسے ضائع کر دیتی تھی۔۔۔ گریجویشن میں کالج کے میگزین میں دو افسانے لکھ کر بھیجے جانے شائع ہوئے کہ نہیں۔۔ مگر میری اردو ادب کے شعبے سے تعلق رکھنے والی دو فرینڈز جن کی لیکچرار سر احمد ندیم قاسمی صاحب کی دختر تھیں وہ میری تحاریر پڑھ کر کافی خوش تھیں اور میری حوصلہ افزائی کرتی رہتی تھیں ۔۔۔ گریجویشن کے بعد میں نے باقاعدہ صوفیانہ کلام لکھنا شروع کر دیے چونکہ عروض سے واقفیت نہیں تھی تو ان کو کبھی پوسٹ نہیں کیا مگر لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔۔ گذشتہ سال لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر جناب محمد بنیامین ایڈوکیٹ نے میری کچھ پوسٹ ہوئی تحاریر کو سراہا اور مجھے انہی سے عروض سیکھنے کی صلاح دی جس کو میں نے اپنی خوش نصیبی جانا۔۔ اور تقریباً ایک مہینے ان کی بھرپور توجہ اور اپنی محنت سے کافی حد تک عروض پر رسائی حاصل کی۔۔ اور باقاعدہ باوزن اور بامقصد اشعار کہنے لگی انہوں نے مجھے نت نئی مشکل آسان ہر بحر اتنی خوبصورتی سے سمجھائی کہ میرے لیے سب آسان ہوتا چلا گیا ۔۔۔ پھر میرے اشعار کی بُنت روانی اور ردھم ایک اور استاد کی شفقت سے بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہے اور ان شاءاللہ میں بہت جلد اپنے اساتذہ کے لیے فخر کا باعث بنوں گی۔۔اللہ پاک ان دونوں محترم ہستیوں کو رہتی دنیا تک چمکدار اورسرسبز وشاداب رکھے آمین فارحہ نوید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button