منسوب تری ذات سے سب رنگ مرے ہیں
اس روز سے جب سے کہ ترے سنگ چلے ہیں
اک عمر ہوئی ہے کہ ملے ہم نہیں خود سے
یوں وقت سے آزاد ہیں ہم جب سے ترے ہیں
دلدار مرے جب تجھے ہنستے ہوئے دیکھا
پھر آٹھویں سر میں بھی کئی ساز بجے ہیں
خیرات میں دے دیتا اگر دید تو کیا تھا
ہم جس کے لیے پورے قرینے سے لڑے ہیں
مجھ سے نہیں ہوتا یہ خوشامد کا ڈرامہ
اُن کو ہی سراہا جو مرے دل کو لگے ہیں
دشوار ہوا مجھ پہ سفر رہ گئی پیچھے
پیروں میں مرے گھاؤ مسافت کے لگے ہیں
میں جھونک دوں چولھے میں منافق سبھی رشتے
جو خار لیے دل میں کہیں!! ہم تو ترے ہیں
دستار جو رکھنی ہے تمہیں سر پہ ہمیشہ
رکھ ان سے روابط جو بڑے قد سے کھڑے ہیں
زندان میں بھی دم نہیں گھٹتا ہے ہمارا
ہر حال میں ہر رنگ میں باطل سے لڑے ہیں
چپ ہیں کہ خدا پر ہے انہیں پختہ عقیدہ
جس شخص پہ بہتان ذلیلوں نے دھرے ہیں
پہنچائیں گے غزلیں تری تاثیر نگر تک
اک خضر تجھے فارحہ لے کے جو چلے ہیں
فارحہ نوید