دل تو بس خواہشات کرتا ہے
عقل والوں کو مات کرتا ہے
اُس کی آنکھیں مجھے بتاتی ہیں
جب بھی غیروں سے بات کرتا ہے
آدمی جس قدر بھی تنہا ہو
آرزوئے حیات کرتا ہے
بند کرتا ہے عقل کی کھڑکی
عشق جب واردات کرتا ہے
مجھ سے بیزار ہو گیا جب سے
تلخ لہجے میں بات کرتا ہے
عرش پر فیصلے نصیبوں کے
خالقِ کائنات کرتا ہے
گھر میں لاتا ہے سَو بلاؤں کو
جو بھی رستے میں رات کرتا ہے
منزّہ سیّد