آگہی توشۂ رَہ کردی طلبگار کے ساتھ
اور تعزیر کا خطرہ بھی وفادار کے ساتھ
خاک تھے دھول بنے قصہ پارینہ ہوئے
تیری جنت سے گئے دیدۂ خونبار کے ساتھ
دی غریب الوطنی تو نے تو پردیس گئے
ربط ورنہ کبھی پہلے نہ تھے اغیار کے ساتھ
معرفت ذات کی دشوار بنادی تونے
یوں بھی کرتا ہے کوئی اپنے طلبگار کے ساتھ
اہل زر دام چکا لے تو نظر کر لینا
ایک سائل بھی کھڑا ہو گا خریدار کے ساتھ
اب کوئی غم ہو تو لگتا ہے وہ سوغات مجھے
سلسلے جب سے بڑھے ہیں مرے غم خوار کے ساتھ
ظلم وہ بھی ہیں لکھے حاکم کل وقت بتا؟
جو روا رکھتی ہے دنیا ترے بیمار کے ساتھ
ہم ترے ہجر میں مرکے ہی تجھے مل پائیں
ورنہ جی سکتے نہیں رنج گراں بار کے ساتھ
آتشِ عشق کسی طرح تن و من میں جلے
عمر گزرے پھر اسی لذت و آزار کے ساتھ
حنا بلوچ