- Advertisement -

دو سانحات اور برڈباکس

سیمیں کرن کا اردو کالم

دو سانحات اور برڈباکس

فلم ’برڈ باکس‘ دیکھ کر میں ششدر ہوں کہ کیسے کوئی شاہکار بیک وقت بہت سی صورت احوال پہ منطبق ہوتا چلا جاتا ہے یا شاید میرے لاشعور پہ فلم نے گہرا اثر چھوڑا ہے کہ میں دو مختلف سانحات یا دو مختلف صورت احوال پہ ایک سے سوال کھڑے کر رہی ہوں۔ یہ ایک ناول بیسڈ فلم ہے جسے دنیا بھر میں سراہا گیا۔

آئیے ان دو سانحات پہ بات کرتے ہیں۔ پہلا سانحہ تو موٹر وے پہ ہونے والی معزز خاتون کے ساتھ جنسی تشدد کا ہے جی ہاں ہم اسے جنسی تشدد اور بدفعلی ہی کہیں گے۔ کسی کے گندے مذموم فعل کی سزا آپ ایک معزز عورت کو کیسے دے سکتے ہیں کہ وہ بے آبرو ہو گئی؟ کسی کا بد فعل اس کو مجرم ٹھہراتا ہے اور ٹھرانا چاہیے اور اپ مجھے اپنا ’برڈ باکس‘ تھامے رکھنے دیجیے۔ سانحہ در سانحہ یہ ہے کہ ملزم تو ہماری لائق فائق پولیس سے پکڑے نہ گئے۔

شور و غوغا خوب ہو گیا، وزیر اعلی نے بڑھکیں بھی لگا لیں مگر جانے کیا راز پنہاں ہے یا مجرم اس قدر کائیاں ہے کہ پکڑائی نہیں دے رہا اور حکومتی مشینری دھری کی دھری رہ گئی مگر ہم نے پٹرول نہ ہونے اور خاتون کے موٹر وے پہ اکیلے جانے کو سوشل میڈیا پر ٹرول بنا کر مخالف پارٹی کی معزز خواتین کو جیسے بازار میں کھڑا کر دیا۔ تصاویر کے ساتھ لکھا ہے ’موٹر وے پہ اکیلے کھڑی ہوں اور پٹرول ختم ہے۔‘ میں اس پہ کیا کہوں یہ ذلت و پستی اور اخلاقی تنزلی کی وہ آخری منزل ہے جہاں بے بسی سے ’برڈ باکس‘ ہی صرف شور کر سکتا ہے مگر تاحال کسی کے کان پہ کوئی جوں نہیں رینگ رہی۔ مرض کسی ظالم وبا کی طرح تیزی سے پھیل رہا ہے مگر تاحال ہم بے خبر ہیں کہ دستک ابھی ہمارے دروازوں پہ نہیں ہوئی جہاں کوئی مثبت خبر موجود ہو۔

دوسرا سانحہ ہماری سیاسی قیادت اور مقتدرہ کی کشتی کا ہے۔ ان ملاقاتوں کا بھانڈا سر عام پھوڑنے والے ڈھٹائی کی آخری انتہا پہ کھڑے بتا رہے ہیں کہ ہم جو چاہے کر سکتے ہیں، ہم جب چاہے ملتے ہیں، مداخلت کرتے ہیں اور جب جی چاہتا ہے اس کو طشت از بام کر کے اس معروف تھیوری پہ ایک مزید کیل ٹھونک دیتے ہیں کہ سیاست دھندہ ہے اور بہت گندا ہے اور اس ملک میں سیاست دان نہیں چلے گا۔ سیاسی قیادت کی جانب سے ان ملاقاتوں کی مذمت کیا کی جائے کہ انہوں نے اس وبا کی آمد۔ بلکہ پورے کے پورے اونٹ کے خیمے میں داخلے کو تسلیم کر لیا ہے اور خیمے سے نکالنے کے لئے اب اونٹ سے مذاکرات ضروری ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاستدانوں کی ایسی ملاقاتیں اس بات کا پیش خیمہ ہیں کہ انہوں نے برڈ باکس تو کم ازکم تھام رکھا ہے جب کہ دوسرا فریق اس برڈ باکس کو گم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اب آپ یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ یہ ’برڈ باکس‘ کیا ہے تو عرض یہ ہے کہ یہ 2018 ء کی ایک شاندار فلم ہے جو جانے کیوں اپنے ملک کے ان سانحات پہ مجھے منطبق ہوتی لگی۔ اس فلم میں دنیا میں بائیو کیمیکل ہتھیاروں کی وجہ سے ایک وبا پھیل گئی ہے اور لوگ فضا میں جانے ایسا کیا دیکھتے ہیں کہ خودکشی کرلیتے ہیں ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ہیں، تباہی ہی تباہی اور بربادی ہے۔ دریا کے کنارے ایک متروک گھر میں کچھ لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے گھر کے سب دروازوں کھڑکیوں کو ڈھک دیا گیا ہے۔ واحد علاج یہی ہے کہ دیکھنے سے احتراز کیا جائے۔

خوراک کے ختم ہونے پہ گاڑی کے شیشے سیاہ کر کے گروسری سٹور تک جانا ایک مشکل ٹاسک بن جاتا ہے جب کہ اس اندھی گاڑی کو جی پی آر ایس سسٹم کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔ یہاں ایک خاتون میلوری سٹور میں موجود پرندے جو پنجرے میں بند تھے انہیں وہاں سے نکال کر اپنے ساتھ اٹھا لاتی ہے۔ جونہی مصیبت اور آفت فضا میں بلند ہوتی ہے یہ پرندے شور مچا دیتے ہیں۔ میلوری سمیت اس گھرمیں دو حاملہ خواتین موجود ہیں جو وقت آنے پر دو بچوں کو جنم دیتی ہیں، ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔

مگر گھر میں ایک ایسا شخص آ گھسا ہے جو انہیں گھر سے باہر دیکھنے پہ مجبور کرتا ہے جس کا نتیجہ خود کشی ہے اور اس طرح تمام افراد مارے جاتے ہیں۔ اب گھر میں میلوری، اس کا بوائے فرینڈ جس سے اس کی ملاقات اسی گھر میں اکٹھ کے دوران ہی ہوئی ہوتی ہے اور دو بچے ہیں۔ لڑکی کی ماں بھی بچی کی پیدائش کے عمل کے بعد اس دیکھنے کے عارضے کے دوران خود کشی کر لیتی ہے لہذا دونوں بچے میلوری ہی پال رہی ہے۔ پانچ سال گزر جاتے ہیں بچوں کی ٹریننگ اس طرح دی جاتی ہے کہ وہ آنکھوں پہ پٹی باندھ کر چل پھر سکیں۔

دیکھنے پہ مجبور کرنے والے وہ لوگ ہیں جو پہلے بدی کی علامت تھے وہ بچ جانے والے لوگوں کو دیکھنے پہ مجبور کر کے موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔ مسلسل کوشش کے دوران ایک دن اس خاندان کا رابطہ بذریعہ واکی ٹاکی دریا کے دوسرے سرے پر موجود لوگوں سے ہوجاتا ہے جو انہیں کہتے ہیں کہ وہ چاہیں تو وہاں پہنچ جائیں۔ وہاں خوراک اور محفوظ ماحول ہے۔ اسی اثنا میں شر کے نمائندے آ پہنچتے ہیں جو انہیں دیکھنے پہ مجبور کرتے ہیں دوسرے لفظوں میں خود کشی پر مجبور کرتے ہیں۔

میلوری کا بوائے فرینڈ اپنی جان پہ کھیل کر بچوں اور میلوری کو اس جگہ سے باہر نکال دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ایک اکیلی عورت دو چھوٹے بچے تنہا کشتی کھینے اور دیکھنے پہ ممانعت کے ساتھ آنکھوں پہ پٹی باندھ کر دریا کا یہ مشکل سفر شروع کرتے ہیں۔ دوران سفر اگر بچوں کے ساتھ میلوری کو بات کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ ایک کمبل اپنے اوپر ڈال کر آنکھوں سے پٹی اتار کر بات کرتی ہے۔ اس سفر کے دوران بچوں کے پاس ایک برڈ باکس ہے جس میں دو پرندے موجود ہیں۔

دریا میں اڑتالیس مشکل گھنٹوں کا سفر طے کرنے کے بعد جب یہ لوگ ایک جنگل میں سفر کرتے ہیں تو یہ پرندے پھڑپھڑا کر اور شور کر کے ان کی مدد کرتے ہیں۔ جب وہ منزل پہ پہنچتے ہیں تو یہاں ایک بلائنڈ سکول ان کا استقبال کرتا ہے جہاں کئی پناہ گزیں بھی موجود ہیں اور یہاں افراد کی ٹریننگ اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ زندگی دیکھے بغیر گزار سکیں۔ ساری فضا سبزے سے ڈھکی ہے جہاں پرندے چہکتے پھرتے ہیں اور یہی اندھوں کی دنیا کی آخری پناہ گاہ ہے۔

کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہوس کا بے قابو جن ہماری فضاؤں میں پھیل چکا ہے جو معصوم بچیوں، بچوں عورتوں حتی کہ لاشوں تک کو نہیں چھوڑتے۔ اقتدار کی ہوس کا بے قابو جن جسے تسلیم کر لیا گیا ہے کہ یہ ہے اور جانے کب تک رہے گا۔ ایسے میں ہمارے پاس اس کے سوا کیا حل ہے کہ اپنے پرندے کسی برڈ باکس میں ڈال کر اپنے پاس رکھیں اور اندھوں کی طرح جینا سیکھنا شروع کردیں۔

سیمیں کرن

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شیخ خالد زاہد کا اردو کالم