- Advertisement -

سرائے کے باہر

کرشن چندر کا ایک افسانہ

ڈرامے کے افراد

اندھا بھکاری

منی:اندھے بھکاری کی ایک نوجوان لڑکی۔

بھکارن:اندھے بھکاری کی بیوی۔

جانی لنگڑا:ایک چالاک پر فن بھک منگا۔

ایک آوارہ شاعر

سرائے کا مالک

بی بی:سرائے کی نوکرانی

چند شکاری اور ان کی بیویاں

منظر :(ایک پہاڑی قصبے کی سرائے کے دروازے پر، دروازے سے چند گز کے فاصلہ پر اندھا بھکاری اور اس کی بیوی الاؤ پر بیٹھے آگ تاپ رہے ہیں۔ منی سرائے کے بڑے دروازے پر کھڑی سرائے کی نوکرانی سے باتیں کر رہی ہے۔)

منی :بی بی کچھ کھانے کودو گی، صبح سے بھوکی ہوں۔

بی بی :پرے ہٹ مردار، کیوں اندر گھسی چلی آتی ہے۔ جا کسی مشٹنڈے کی بغل میں بیٹھ اور چین سے رہ، تیری جوانی کو آگ لگے۔

منی :بی بی کیوں ناحق گالی دیتی ہو؟

بی بی :گالی، اری دو ٹکے کی بھکارن، تجھے بھی گالی لگتی ہے۔ اے ہے میری شرم کی ماری لاجونتی دن بھر دیدے مٹکاتی پھر تی ہے اور سرائے کے مسافروں کو تاکتی پھر تی ہے اور اب رات کے وقت معصوم، بڑی شریف، بڑی وہ، اونہہ چڑیل۔

منی :بی بی۔

بی بی :بی بی کی بچی۔ اری اگر میں تجھے گالی دیتی ہوں تو اس کے بدلے تجھے کھانا بھی تو دیتی ہوں ، تجھے اور تیرے بوڑھے بھکاری باپ کو اور تیری چڑیل کٹنی کو۔ دو گالیوں میں کیا یہ سودا مہنگا ہے۔ مجھے دیکھ اس سرائے میں صبح سے لے کر شام تک جھوٹے برتن مانجھتی ہوں ، کنویں سے پانی نکالتی ہوں مالک اور مالکن کی سو سو خوشامدیں کرتی ہوں اور ۔۔۔ دیکھ اس وقت مجھے نہ ستا، مسافر خانے کے اندراس وقت بہت لوگ جمع ہیں۔ مجھے کئی کی دیکھ بھال کرنی ہے جب یہ لوگ کھانا کھا چکیں گے ، اس کھڑکی کی طرف آ جائیو اور جو کچھ تیری قسمت میں ہو گا لے جائیو۔ اری دیکھ اب موٹے موٹے دیدوں میں آنسو نہ چھلکا۔ ہائے رام، ان فقیروں نے تو ناک میں دم کر رکھا ہے۔ میں مالکن سے کہتی ہوں کہ ان بھک منگوں کو کم از کم سرائے کے باہر عین دروازے پرتو جمع نہ ہونے دیا کرے۔

(سرائے کا دروازہ بند کر دیتی ہے۔)

بھکارن :منی؟

منی :آئی ماں۔

(وقفہ)

بھکارن :کیا ہوا منی۔

اندھا بھکاری :منی، بیٹا بڑی بھوک لگی ہے۔

منی :تو مجھے کھالو۔ بھوک لگی ہے۔ بھوک لگی ہے۔ جب سنو بھوک لگی ہے۔ جانے یہ پیٹ ہے کیا بلا۔ کبھی بھرتا ہی نہیں۔ ادھر بی بی الگ گالیاں دیتی ہیں اور ادھر یہ میری جان کو کھائے جاتے ہیں بھوک لگی ہے تومیں روٹی کہاں سے لاؤں ، بی بی کہہ گئی ہے کہ جب کھڑکی کھلے گی جب روٹی ملے گی۔

اندھا بھکاری :کھڑکی کب کھلے گی؟

منی :جب مسافر کھانا کھا چکیں گے۔

اندھا بھکاری :مسافر کب کھانا ختم کریں گے ؟

منی :جب کھڑکی کھلے گی۔

اندھا بھکاری :جب کھڑکی کھلے گی۔۔۔ کب کھڑکی کھلے گی؟میں کچھ نہیں جانتا۔ منی تو کیا کہہ رہی ہے۔۔۔ جب سے میری آنکھوں میں روشنی نہیں رہی، مجھے وقت پر بھیک کی روٹی بھی کوئی نہیں لا دیتا۔ منی کی اماں کیا تمہارے پاس تھوڑی سی روٹی بھی نہیں ہے۔ ہاں نہیں ہو گی۔۔۔ میں اندھا ہوں۔۔۔ بوڑھا ہوں۔۔۔ اپنی گستاخ بیٹی کا محتاج ہوں۔

بھکارن :صبر کرو، اب تھوڑی دیر میں بی بی کھڑکی کھولے گی۔ پھر تمہیں پیٹ بھر کھانا ملے گا۔ آج سرائے میں بہت سے مسافر آئے ہیں میں تو ہر روز دعا مانگتی رہتی ہوں کہ سرائے مسافروں سے بھری رہے تا کہ ان کی پلیٹوں سے بہت سا جھوٹا کھانا ہمارے لئے بچ جایا کرے۔

منی :لیکن اماں بعض مسافر تو اتنے پیٹو ہوتے ہیں کہ پلیٹیں بالکل صاف کر دیتے ہیں اور کھانا تو ذرا بھی نہیں بچتا۔ ایسے موقع پر اگر بی بی سچ مچ مہربان نہ ہو تو۔۔۔

بھکارن :بری باتیں منھ سے نہ نکال، وہ سب کا والی ہے۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔ آج کتنی تیز سردی ہے۔ منی آگ ذرا تیز کر دے۔

(الاؤ کی لکڑیاں ادھر ادھر کرتی ہے۔)

منی :یہ چیڑ کی لکڑیاں دھواں زیادہ دیتی ہیں آگ کم۔

بھکارن :تو جنگل سے کاؤ کی لکڑیاں چن کر لایا کر، میں نے تجھ کئی بار سمجھایا ہے۔

منی :ماں ، کاؤ کا جنگل بہت گھنا ہے۔ مجھے ڈر معلوم ہوتا ہے۔

بھکارن :باؤلی ہوئی ہے۔ ڈر کا ہے کا؟

اندھا بھکاری :منی دیکھ، ابھی کھڑکی کھلی کہ نہیں۔ یہ کون آ رہے ہیں ؟

منی :مسافر ہیں ، سرائے کے اندر جا رہے ہیں۔ اچھا میں جا کر کھڑکی کے پاس کھڑی ہوتی ہوں۔ ابا، امید ہے کہ اب کے کچھ نہ کچھ ضرور ہی ہو گا۔

(چلی جاتی ہے۔)

بھکارن :تم نے سنا۔ منی کو کاؤ کے جنگل میں لکڑیاں چننے سے ڈر لگتا ہے۔

اندھا بھکاری :ہاں منی جوان ہو گئی ہے۔

بھکارن :تم اس کا بیاہ کیوں نہیں کر دیتے۔

اندھا بھکاری :اس قصبے میں تو کوئی ایسا بھک منگا ہے نہیں یہ سنا ہے کہ شہروں کے بھک منگے بڑے امیر ہوتے ہیں مجھے ایک دفعہ سرائے کا ایک مسافر بتا رہا تھا کہ اس نے ایک دفعہ اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک شہر میں ، مجھے اس شہر کا نام یاد نہیں رہا۔ بھلا سا نام تھا۔ایک بھک منگا رہتا تھا جب وہ مرا تو منی کی اماں ، ساٹھ ہزار روپیہ چھوڑ کر مرا۔ساٹھ ہزار روپیہ کتنا ہوتا ہے۔ تمہیں معلوم ہے ؟

بھکارن :نہیں۔ پر میں سوچتی ہوں کہ میری منی کو بھی کوئی ایسا ہی بھک منگا مل جائے۔

اندھا بھکاری :تم نے تو میری بات نہیں مانی۔ وہ بنیا پانسو روپئے دیتا تھا، اسی کے پلے باندھ دیتے۔منی کی زندگی بھی سدھر جاتی اور ہم بھی۔

بھکارن :تم کیا کرتے ان پانسو روپئے سے۔

اندھا بھکاری :ان پانسو روپئے سے میں پھر ایک قطعہ زمین خرید لیتا۔ گائیں رکھتا، بھیڑ بکریاں۔ میرا ایک چھوٹا سا خوبصورت گھر ہوتا۔ کچی مٹی کا بنا ہوا۔ کھڑیا مٹی سے تپا ہوا۔ منی کی اماں ، تجھے کیا معلوم ہے کہ بھکاریوں کی ٹولی میں داخل ہونے سے پہلے میں ایک کسان تھا۔

بھکارن :مجھے معلوم ہے تم ایسی باتیں مجھے کئی بار سنا چکے ہو۔

اندھا بھکاری :تم ایک بوڑھے اندھے کی باتوں پر کب اعتبار کرو گی!لیکن منی کی اماں میں نے بھی اچھے دن دیکھے ہیں۔ جہاں میں رہتا تھا وہاں چاروں طرف خوبصورت کھیت تھے ، کھیتوں سے پرے پہاڑ۔ ایک اجلی اجلی ندی دھان کے کھیتوں میں میٹھے میٹھے گیت گاتی ہوئی بہتی تھی، اس ندی کے ساتھ چلتے چلتے میں اپنی بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کو رکھ میں جایا کرتا تھا جہاں لمبی لمبی دوب تھی اور بنفشے کے پھول اور کھٹے اناروں کے جنگل اور ۔۔۔

بھکارن : اور پھر تمہارا باپ مرگیا اور تمہارے باپ کو گاؤں کے بنیے کا بہت سا روپیہ قرضہ دینا تھا اور بنیے نے تمہاری زمین قرق کرالی اور تم ہوتے ہوتے بھک منگے بن گئے اور پھر تم ہماری ٹولی میں آملے۔ میں یہ سب باتیں اچھی طرح جانتی ہوں کہ تم ہمیشہ سے ایک بھک منگے تھے ہمیشہ رہو گے اور ایک بھک منگے کی موت ہی مرو گے۔ صرف یہ بات سچ ہے باقی سب جھوٹ ہے۔ نہ تمہارا باپ کسان تھانہ میری ماں امیر زادی تھی۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں میری ماں کون تھی ایک کھتری سی چڑیل کی یاد ہے جو میرے سارے پیسے جو میں بازار میں لوگوں کے پیچھے بھاگ بھا گ اکٹھے کیا کرتی تھی چھین لیا کرتی تھی اور اکثر راتوں کو بھی بھوکا رکھا کرتی تھی تا کہ میں کہیں موٹی نہ ہو جاؤں۔

(دو مسافر داخل ہوتے ہیں۔)

بھکارن :کون ہے ؟

اندھا بھکاری :کون ہے ؟

شاعر اور جانی لنگڑا:مسافر ہیں ، بابا، ذرا آگ تاپ لیں۔

اندھا بھکاری :مسافر ہو تو سرائے میں جاؤ۔ ہم فقیروں کے پاس کیا کام ہے۔

جانی لنگڑا :سرائے میں جانے کی توفیق ہوتی توہم تم سے بات ہی کیوں کرتے۔

اندھا بھکاری :تم کون ہو؟

جانی لنگڑا :میرا نام جانی لنگڑا۔ پہلے میں تور پور میں بھیک مانگتا تھا، پر وہاں پولیس والوں نے تنگ کر رکھا ہے۔ بے چارے بھکاریوں کی ہر روز پیشی، ہر روز بلاوا، میری ٹانگ لنگڑی تھی۔ کچھ اس پر پرانے دو چار گلے سڑے ناسور بھی ہیں۔ مزے سے بیٹھے بٹھائے روٹی مل جاتی تھی۔ لیکن برا ہو ان پولیس والوں کا۔

اندھا بھکاری : اور تمہارے ساتھ یہ دوسرا ساتھی کون ہے ؟

جانی لنگڑا :یہ اسی سے پوچھو۔

شاعر :میں۔ میں شاعر ہوں۔

اندھا بھکاری :شاعر کیا ہوتا ہے۔ بھئی بڑے بڑے بھک منگے دیکھے ، قسم قسم کے بھکاری لیکن یہ قسم آج ہی سننے میں آئی۔

جانی لنگڑا :ارے بابا یہ شاعر کبت بناتا ہے کبت، اور گاؤں گاؤں سنا کر اپنا پیٹ پالتا ہے۔

اندھا بھکاری :آں ہاں ، تو بھاٹ کہو نا۔۔۔ کہ میں بھاٹ ہوں۔ شاعر!عجب نام ڈھونڈا ہے اس نے بھی۔

جانی لنگڑا :یہ راستے میں مجھے مل گیا تھامیں نے کہا سفر میں دوہوں تو راستہ آسانی سے کٹ جاتا ہے۔اسی لئے اسے ساتھ لیتا آیا۔ بابا تم تو یہاں بڑے مزے میں ہو۔ یہ بڑھیا کون ہے ؟

اندھا بھکاری :یہ میری بیوی ہے۔(قدموں کی آواز) اور یہ میری منی آ رہی ہے۔ میری لڑکی۔منی۔ یہ جانی لنگڑا ہے۔ یہ شاعر کبت بناتا ہے۔ بی بی نے کھڑکی کھولی؟

منی :ہاں۔

اندھا بھکاری :تو جلدی سے کھانا دے مجھے۔

منی :لیکن بی بی کہتی ہے کہ ابھی کھانے کے بعد ملے گا۔ آج سرائے میں مسافروں کی بہت بھیڑ ہے۔

اندھا بھکاری :تو کچھ تھوڑا ساہی اس نے دے دیا ہوتا۔ میں بھوک سے مرا جا رہا ہوں۔

شاعر :یہ ایک مکی کا بھٹا ہے۔ بھائی اسے بھون کر کھالو۔

اندھا بھکاری :کدھر ہے ، کدھر ہے۔ کہاں ہے۔ منی بیٹا۔ ذرا اسے آگ پر بھون ڈال۔اف کتنی سردی ہو رہی ہے ، آج اس گرم گدڑی میں بھی جان نکلی جا رہی ہے۔۔۔ کون ہے ؟کسی امیر آدمی کی گاڑی آ کر رکی ہے۔ منی جا ذرا بھاگ کر۔

جانی لنگڑا :میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔ شاید ایک دو چھدام مجھے بھی مل جائیں۔ منی ذرا مجھے سہارا دینا۔ آہ!

(سرائے کے دروازے پر ایک گھوڑا گاڑی آ کر رکتی ہے۔)

پہلا شکاری :اف، آج تو تھک کر چور ہو گئے۔

پہلے شکاری کی بیوی:یہ تو کوئی بڑی ذلیل سی سرائے معلوم ہوتی ہے۔ ذرا مجھے سہارا دینا۔ تھینک یو۔

دوسرے شکاری کی بیوی: اور بھئی ہمیں تو بہت بھوک لگی ہے۔ جان نکلی جا رہی ہے اور پھر یہ بلا کی سردی، شکر کریں گے جب کل گھر پہنچیں گے۔

دوسرا شکاری :شکار پر مردوں کے ساتھ آنا بھی کوئی ہنسی کھیل نہیں۔

دوسرے شکاری کی بیوی:شکار پر مردوں کے ساتھ آنا بھی کوئی ہنسی کھیل نہیں۔ دیکھ لی آج ہم نے تمہاری دلیری۔

منی :صاحب ایک پیسہ میم صاحب کی جوڑی بنی رہے۔ ایک پیسہ مل جائے۔

جانی لنگڑا :غریب محتاج لنگڑے پر ترس کر جاؤ رے بابا۔

تیسرا شکاری :او ڈیم۔ یہ کم بخت ہر جگہ موجود ہیں۔ اب کسے خیال تھا کہ اس سرائے میں بھی یہ مخلوق مغز چاٹنے کے لیے موجود ہو گی۔

منی :میم صاحبوں کی جوڑی سلامت، صاحب کا اقبال بلند ہو، میم صاحب جی آپ کے گھر ایک خوبصورت پیارا بچہ۔۔۔

پہلے اور دوسرے شکاریوں کی بیویاں :ہش ہش چلو جلدی اندر چلیں ورنہ یہ بھک منگے تو ہماری جان کھا جائیں گے۔

(سرائے کے اندر داخل ہوتی ہیں۔)

پہلا شکاری :ہاں آپ چلئے ، ہم ذرا سامان اتروا لیں۔۔۔ بھئی وہسکی کدھر ہے ؟

تیسرا شکاری :کیریر میں۔ فکر نہ کرو، اسے میں کیسے بھول سکتا ہوں !

منی :کچھ مل جائے حضور۔

دوسرا شکاری :بیرہ۔ انھیں کچھ دینا۔

(بیرہ منی کوایک دونی دیتا ہے۔)

سرائے کامالک:آئیے۔ آئیے۔ حضور۔ اندرتشریف لائیے۔

پہلا شکاری :اوہ۔ تم اس سرائے کا مالک ہے۔

جانی لنگڑا :حضور کا اقبال بلند ہو، اس غریب محتاج لنگڑے کو بھی کچھ مل جائے۔

پہلا شکاری :اوہ بیرہ۔ جلدی سے بلڈی بیگر کو کچھ دے کر ٹالو۔۔۔ اور تم اس سرائے کا مالک ہے اور دروازے پر بھک منگوں کو بٹھائے رکھتا ہے۔

دوسرا شکاری :مسافروں کو دونوں طرح سے لوٹتا ہے اندر بھی باہر بھی۔

سرائے کا مالک:حضور اندر تشریف لائیے۔ سرائے کے باہر کی زمین کا میں مالک نہیں ہوں۔ اندر تشریف لائیے حضور۔

منی :صاحب جی، آپ بھی۔

تیسرا شکاری :یہ بھکارن لڑکی تو مجھے خاصی اچھی معلوم ہوتی ہے تمہارا کیا خیال ہے اس بارے میں۔۔۔

دوسرا شکاری :ہش۔ بڑے بے ہودہ ہو تم۔ بیرا سب سامان ٹھیک ہے ؟

بیرا :جی حضور۔

پہلا شکاری :چلو بھئی اندر چلیں۔ یہاں کھڑے کھڑے تو لہو بھی جم جائے گا۔

سرائے کا مالک:اندر تشریف لے چلئے حضور۔

منی :صاحب جی آپ بھی ایک دونی۔

(صاحب لوگ دروازے کے اندر چلے جاتے ہیں۔)

بیرا :بھاگو بھاگو یہاں سے کس وقت سے کھڑی چلا رہی ہے مشٹنڈی کہیں کی۔

دوسرا سین

اندھا بھکاری :کچھ ملا؟

جانی لنگڑا :ایک اکنی۔

منی : اور ایک دونی مجھے بھی۔

جانی لنگڑا :جوان عورتوں کو لوگ یوں بھی زیادہ خیرات دے دیتے ہیں اور تمہاری لڑکی تو۔۔۔

اندھا بھکاری :ہاں ، ایک بنیا اس کے پانسو روپئے دیتا تھا لیکن منی کی ماں نے۔

جانی لنگڑا :منی کی اماں نے عقل مندی سے کام لیا۔ اگر تم بھی عقل مندی سے کام لو تو یہ لڑکی تمہاری عمر کے لیے روٹیاں مہیا کر سکتی ہے۔ شاعر میاں ، تمہارا کیا خیال ہے۔

(وقفہ)

جانی لنگڑا :شاعر بھائی۔

شاعر :ایں ، کیا کہا۔ معاف کرنا میں نے سنا نہیں۔

جانی لنگڑا :ہی ہی ہی اچھا ہوا تم نے نہیں سنا۔ اب یہ بتاؤ تم کیا کوئی نیا کبت بنا رہے تھے۔

شاعر :ہاں ایک نیا کبت ہی تھا۔

جانی لنگڑا :ذرا سناؤ اور اس سارنگی کو کاندھے پرسے اتارو۔

گانا

میں ہوں ایک بھکاری میرا جیون ہے کشکول

پھیلی پھیلی دھرتی پر پھر تا ہوں میں آوارہ

نہ میں کسی کا پریمی ہوں نہ کوئی میرا پیار

دیکھتا ہوں جب زخمی آہیں یا نینوں کی دھارا

سونے گانے گاتا ہے من ہو کر ڈانوا ڈول

میں ہوں ایک بھکاری میرا جیون ہے کشکول

میری طرح یہ گیت ہیں میرے ننگے بھوک کے مارے

میری طرح یہ گیت ہیں میرے آوارہ بے چارے

دن کو پھر تے ہیں یہ در در، رات کو گنتے تارے

دنیا والے ان کی خاطر پیٹ کا مندر کھول

میں ہوں ایک بھکاری میرا جیون ہے کشکول

(وشوا متر عادل)

شاعر :تم کیوں رو رہے ہو بابا۔

اندھا بھکاری :مجھے اپنے سکھ کے دن یاد آ گئے۔ وہ دھان کے پیارے کھیت، وہ بہتی ہوئی ندی کا نرمل شفاف پانی، وہ رکھ جہاں اپنا ریوڑ چرایا کرتا تھا، میری ماں جو مجھے لوریاں دیا کرتی تھی، میرا باپ جو مجھے کاندھے پر بٹھا کر قصبہ کے بازار میں سیر کرانے کے لیے لایا کرتا تھا۔

بھکارن :جھوٹ ہے۔ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ میں اس قصبے کے بازار میں اسے بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ہے۔ کسان کا بیٹا۔ اونھ، رہنا سرائے کے باہر اور خواب دیکھے محلوں کے۔

شاعر :ہاں ہاں تم سچ کہتی ہو۔ ہم سرائے کے باہر رہنے والی مخلوق ہیں۔ کتے اور بھکاری جو مسافروں کا بچا کھچا کھانا کھا کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور اکثر اوقات تو پیٹ بھی نہیں بھر سکتے ہمیں ایسے سنہرے خواب نہیں دیکھنے چاہئیں۔ کبھی نہیں دیکھنے چاہئیں۔

جانی لنگڑا :میاں ان باتوں کے سوچنے سے کیا ہوتا ہے۔ اپنے نے تو بس یہ سمجھ رکھا ہے کہ جیو بھکاری اور مرو بھکاری۔ ایمان کی بات ہے کہ یہ پیشہ کوئی برا نہیں۔ بیٹھے بٹھائے روٹی مل جاتی ہے لوگ دو چار گالیاں ہی دے دیتے ہیں نا۔ لیکن سچ پوچھو تو گالیاں کس پیشے میں نہیں۔ ہم نے بڑے بڑے لوگوں کو دیکھا ہے کہ گالیاں کھاتے ہیں اور چوں نہیں کرتے۔۔۔ یار، اپنے نے تو بس یہی پیشہ پسند کیا ہے۔

(وقفہ)

منی :شاعر، کیا تمہارے گیت سبھی ایسے ہوتے ہیں۔

شاعر :کیا مطلب ہے تمہارا منی۔

منی :تمہارا گیت بڑا برا تھا ا س نے بابا کو رلا دیا اور مجھے بھی۔

شاعر :تم بھی۔

منی :ہاں ، میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔

شاعر :منی میرے پاس آنسوؤں کا ایک خزانہ ہے۔ اسے میں نے دھرتی کے مختلف کونوں سے چن چن کر اکٹھا کیا ہے۔ ان آنسوؤں کے اندر جھانک کر دیکھا ہے۔ ان میں میلوں تک سرخ سرخ انگاروں کے میدان ہیں اور لاکھوں شعلے اپنی خوفناک زبانیں پھیلائے ہوئے آسمان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان میں زخمیوں کی چیخ پکا رہے اور کم سن بچوں اور بیوہ عورتوں کے شیون، ان آنسوؤں کے افق پر ہمیشہ کالی گھٹا چھائی رہتی ہے جس میں کبھی کبھی ایک ایسی خوفناک بجلی کا کوندہ لہراتا ہے کہ بڑے بڑے جیالوں کے دل دہل جاتے ہیں۔

منی :ہائے۔ تم نے تومجھے ڈرا دیا ہے۔

شاعر :لیکن ان آنسوؤں کے پیچھے کبھی کبھی سات رنگوں والی دھنک کا نرم و نازک جھولا بھی نظر آ جایا کرتا ہے۔ بس ایک لمحے کے لیے ، پھر وہ اسی کالی گھٹا میں غائب ہو جاتا ہے اور لاکھوں کی سرخ پتلی زبانیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔

منی :میں آج تک کبھی کسی جھولے پر نہیں بیٹھی۔ شاعر۔ کیا میں اس سات رنگوں والی دھنک پر بیٹھ سکتی ہوں۔ بس صرف ایک لمحے کے لیے۔

شاعر :تم بڑی بھولی ہو منی۔ ابھی تک کسی انسان نے اس دھنک کو نہیں چھوا ہے۔ چھونا تو کیا بہت سوں نے تو اسے دیکھا بھی نہیں ہے۔ میں نے بھی تو کبھی کبھی اسے دیکھا ہے۔ یہ دھنک ہر ایک آدمی کے آنسوؤں میں نہیں جھلملاتی۔ ہاں جب میں گیت گاتا ہوں اور جب میرے گیت سن کر کسی معصوم بچے کی آنکھوں میں آنسو مچلنے لگتے ہیں اس وقت میں اس دھنک کو ایک لمحہ کے لیے دیکھ لیتا ہوں۔ اگر وہ دھنک ہر ایک آنسو میں دکھائی دے تو یہ آگ کے جہنمی شعلے ہمیشہ کے لیے بجھ جائیں۔

منی :تو پھر کیا ہو شاعر، تم بڑے ہی عجیب آدمی ہو۔

شاعر :پھر کیا ہو گا منی۔ پھر وہ ہو گا جو تمہاری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا۔ جس کھڑکی کے کھلنے کی تمنا تم ہر دم کرتی رہتی ہو، وہ کھڑکی ہمیشہ کے لیے کھل جائے گی۔

منی :تو کیا تم اس واسطے دھرتی کے مختلف کونوں سے آنسو جمع کرتے رہتے ہو۔

شاعر :ہاں۔

منی :ابا ابا۔ یہ مسافر کہتا ہے کہ دھرتی کے مختلف کونوں سے آنسو جمع کرتا رہتا ہوں تا کہ ہماری یہ سرائے والی کھڑکی ہمیشہ کے لیے کھلی رہے۔

(شاعر کے علاوہ باقی سب خوب ہنستے ہیں۔)

جانی لنگڑا :یہ گیت بنانے والے سبھی پاگل ہوتے ہیں۔

(ہوا کا تیز جھونکا اور جنگل میں گیڈروں کے بولنے کی آواز)

اف، یہ ہوا کتنی سرد اور برفیلی ہے بے چارے انسانوں پر تو آفت ہے ہی یہ جنگل میں گیڈروں تک سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے چلا رہے ہیں۔

اندھا بھکاری :کیا تم نے وہ کہانی نہیں سنی؟ایک تھا راجہ، اس نے جب سردی کے دنوں میں گیدڑوں کو یوں چلاتے ہوئے سنا تو اپنے وزیر سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے۔ وزیر نے بتایا کہ مہاراج ان گیدڑوں کو سردی لگتی ہے۔ مہاراج نے حکم دیا کہ اسی وقت ان گیدڑوں میں کمبل اور لحاف مفت تقسیم کئے جائیں۔

(شاعر ہنستا ہے۔)

اندھا بھکاری :(خفا ہو کر) کیوں ہنستے ہو شاعر؟

شاعر :میں پوچھتا ہوں کیا اس راجہ کے شہر میں کوئی بھکاری نہ تھا؟

(ہنستا ہے۔)

اندھا بھکاری :بھکاری کیوں نہ ہوں گے۔ یہ شاعر کیسی باتیں کرتا ہے۔ بھلا جہاں راجہ ہو گا وہاں بھکاری بھی ہوں گے۔ لیکن اس بات کا میری کہانی سے کیا تعلق؟میں کہانی سنا رہا ہوں اور بیچ میں ٹوک دیتا ہے۔ خواہ مخواہ یہ کیسا آدمی ہے ، تمہارا دوست جانی؟

جانی لنگڑا :معاف کرو بھئی، اسے تم جانتے ہی ہو یہ کبت بنانے والے اسی طرح بے سر و پا باتیں کیا کرتے ہیں۔

بھکارن :گیدڑوں والی کہانی سے مجھے بھی ایک بات یاد آ گئی۔ ایک دفعہ میں سڑک پر بیٹھی بھیک مانگ رہی تھی، اور کہہ رہی تھی ’’کوئی روٹی، کوئی پیسہ بھکارن بھوکی ہے۔‘‘ اتنے میں میرے قریب سے ایک خوبصورت عورت گزری۔ اس کے ساتھ ایک نہایت پیاری ننھی لڑکی تھی۔ میں نے انھیں دیکھ کر اور بھی مسکین آواز میں کہا:’’کوئی روٹی، کوئی پیسہ، بھکارن بھوکی ہے۔‘‘ اس پروہ ٹھٹھک کر کھڑی ہو گئی اور اس نے اپنے بٹوے سے ایک پیسہ نکال کر میری ہتھیلی پر رکھا ننھی بول اٹھی۔ کہنے لگی: ’’ماں ، یہ بھوکی ہے۔‘‘ ماں نے کہا:’’ہاں بیٹا یہ بھکارن ہے ، غریب ہے۔بھوکی ہے۔‘‘ ننھی لڑکی بولی:’’ماں یہ بھوکی ہے تو بسکٹ کیوں نہیں کھاتی‘‘ بسکٹ؟! سنا تم نے منی کے ابا۔ بسکٹ(کھوکھلے انداز میں ہنستی ہے) اس کی ماں نے اسے ایک زور کا طمانچہ لگایا اور پھر اپنی روتی ہوئی لڑکی کولے کر آگے نکل گئی۔

(کھوکھلے انداز میں ہنستی ہے۔)

اندھا بھکاری :ابھی میری کہانی تو پوری ہوئی نہیں کہ تم لوگوں نے بیچ میں سے۔۔۔

بی بی :(دور سے آواز دیتی ہے) منی منی منی بٹیا۔

اندھا بھکاری :کھڑکی کھل گئی ہے۔ منی کھڑکی کھل گئی ہے۔ بی بی تجھے بلا رہی ہے ، بھاگ کرجا۔

بی بی :منی منی۔

جانی لنگڑا :بی بی کھڑکی پر نہیں ہے ، وہ تو سرائے کے دروازے پر کھڑی ہوئی آوازیں لگا رہی ہے۔

بھکارن :منی، جا بھاگ کر!

منی :آئی بی بی جی۔ (دوڑتی ہوئی جاتی ہے) بی بی، اب کھانا دو گی؟

بی بی :ہاں ہاں چڑیل تجھے کھانا بھی دوں گی اور بہت سی اچھی اچھی چیزیں بھی دوں گی، چل، سرائے کے اندرچل، سرائے کے مالک تجھے بلا رہے ہیں۔

منی :اہاہا(تالی بجا کر) کہاں ہیں سرائے کے مالک!

(سرائے کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔)

بھکارن :منی سرائے کے اندر چلی گئی۔

جانی لنگڑا :بی بی منی کولے کر سرائے کے اندر چلی گئی۔ سرائے کا دروازہ بند ہو گیا۔

اندھا بھکاری :سرائے کے اندر چلی گئی؟کیا کہہ رہے ہو جانی؟میری منی تو آج تک سرائے کے اندر نہ گئی تھی۔۔۔ منی کیسے سرائے کے اندر چلی گئی سرائے کے اندر۔۔۔ منی منی منی۔

شاعر :آخر ایک نہ ایک دن اسے سرائے کا اندر جانا ہی تھا۔

اندھا بھکاری :نہیں میری بیٹی۔۔۔

شاعر : اور آج سرائے کی دہلیز نے اس کی زندگی کے دو ٹکڑے کر دئیے ، سرائے کے اندر اور سرائے کے باہر اور اب منی کی لاج اسی سرائے کی دہلیز پر آوارہ ہو کر بھٹکا کرے گی۔ذرا آگ تیز کر دو جانی، میرے گیت اس برفیلی رات میں سردی سے ٹھٹھرے جا رہے ہیں۔ وہ ان آوارہ گیدڑوں کی طرح ہیں جنھیں سردیوں میں کوئی کمبل نہیں دیتا۔ وہ ان اندھے بھکاریوں کی طرح ہیں جن کی بوسیدہ اور پرانی گدڑی میں ہوا برف کے گالے بن کر چبھتی ہے۔ میرے گیت بھوکے ننگے اور پیاسے ہیں انھیں کوئی بسکٹ نہیں دیتا۔ میرے گیت کائنات کے گلے سڑے ناسور ہیں ، ان رستے زخموں پر آج تک کسی نے پھاہا نہیں رکھا۔

(سارنگی بجانے لگتا ہے۔)

جانی لنگڑا :ہی ہی ہی۔ دماغ چل گیا ہے سردی سے بے چارے کا۔

شاعر :(گاتا ہے۔)

میری طرح یہ گیت ہیں میرے ننگے بھوک کے مارے

میری طرح یہ گیت ہیں میرے آوارہ بے چارے

دن کو پھر تے ہیں یہ در در، رات کو گنتے تارے

دنیا والے ان کی خاطر پیٹ کا مندر کھول

میں ہوں ایک بھکاری میرا جیون ہے کشکول

ان کی خاطر پیٹ کا مندر کھول اور دنیا والے

اس میں پھر اک سندر سی آشا کی جوت جگالے

تن کی دولت کو ٹھکرا دے ، من کی دولت پالے

من کی دولت ڈھونڈنے والے سن لے میرے بول

میں ہوں ایک بھکاری میرا جیون ہے کشکول

(اندھا بھکاری اپنی گدڑی سمیٹنے لگتا ہے۔)

بھکارن :کہاں جا رہے ہو منی کے ابا۔

اندھا بھکاری :میں اپنی منی کو واپس بلانے جا رہا ہوں۔ میں سرائے کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا، شور و غل مچاؤں گا، چیخوں گا، چلاؤں گا۔گالیاں دوں گا، سمجھا کیا ہے انھوں نے میں بھی کبھی کسان تھا، میرا بھی گھر تھا، بیلوں کی جوڑی تھی، خوبصورت کھیت تھا۔۔۔ میری منی۔

جانی لنگڑا :چلوچلو۔ میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ آؤ شاعر میاں۔

(آہستہ آہستہ جاتے جاتے ہیں۔)

جانی لنگڑا :دروازہ کھٹکھٹاؤ۔(کھٹ کھٹ)

کوئی نہیں بولتا۔(کھٹ کھٹ)

سرائے میں خاموشی۔(کھٹ کھٹ)

شاعر :(طنز سے)منی بھی سو رہی ہو گی؟

اندھا بھکاری :(چیخ کر) دروازہ کھول دو۔ دروازہ کھول دو۔ سرائے کے بدمعاش کتو، دروازہ کھول دو۔ میری بچی کو میرے حوالے کر دو، میری بیٹی کو میرے حوالے کر دو۔ میں منی کا باپ ہوں ، دروازہ کھول دو۔ دروازہ کھول دو (کھٹ کھٹ)آہ، ظالمو، شیطان کے جہنمی بیٹو، میری معصوم بچی کو مجھے واپس دے دو، اس نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔ تم نے مجھ سے میرا گھر چھینا، میرے سنہرے کھیت چھینے ، میرے خوبصورت بیلوں کی جوڑی۔ میری آنکھیں بھی تم نے مجھ سے چھین لیں۔ اب میں اندھا ہوں۔۔۔ تمہارے دروازے کا بھکاری، آہ یہ دروازہ کھول دو(کھٹ کھٹ) کھول دو ظالمو، ایک اندھے بھکاری پر رحم کرو، اس کے بڑھاپے کا سہارا، اس کی اندھی زندگی کی جوت اسے واپس دے دو۔ ہاں مجھے میری منی واپس کر دو۔ میں اب تم سے کبھی کچھ نہیں مانگوں گا، چپ چاپ یہاں سے چلا جاؤں گا اور جنگل کے گیدڑوں میں جا کر بسیرا کر لوں گا، چپ چاپ چلا جاؤں گا۔ چپ چاپ۔

(ہلکے ہلکے کھٹ کھٹ کرتا ہے۔)

(سسکیاں لیتا ہے۔)

شاعر :(دکھ بھرے لہجے میں)میں جانتا ہوں ، یہ سرائے کبھی نہ بولے گی، سرائے کا ہر سانس جامد ہوتا ہے ، اس کا سینہ پتھر کا ہوتا ہے ، پتھر جو ہر روز تمہارے ننگے پاؤں سے ٹکراتے ہیں اور ان میں زخم پیدا کر دیتے ہیں ، یہ پتھر جن سے سرائے کی دیواریں بنی ہیں ، صرف دیواریں ہی نہیں ، ان کا سینہ بھی پتھر ہی کا ہے ، اس سینے میں دھڑکن پیدا نہیں ہوتی اور جہاں دھڑکن پیدا نہ ہو وہاں آواز بھی نہیں ہوتی، اسی لیے تو سرائے خاموش ہے لیکن گھبراؤ نہیں ، اس بے آواز سرائے میں جس طاقت نے منی کو نگل لیا ہے وہ وقت آنے پر خودبخود اسے اگل کر باہر پھینک دے گی، آؤ الاؤ پر چلیں۔ بڑھیا بے چاری اکیلی رو رہی ہو گی۔

(آہستہ آہستہ الاؤ کی طرف مڑ جاتے ہیں۔)

تیسرا سین

(قصبہ کا کلاک ایک بجاتا ہے۔ اندھیرا چاروں طرف گھرا ہے۔)

شاعر :ایک!

(وقفہ)

(قصبے کا کلاک دو بجاتا ہے۔)

شاعر :دو!!

(وقفہ)

(کلاک تین بجاتا ہے۔)

شاعر :تین!!!

(خراٹوں کی مدھم آوازیں)

شاعر :سو گئے ، سب سو گئے ، اندھا، لنگڑا، بھکارن سب سو گئے۔ الاؤ کے تپتے ہوئے سرخ شعلے بھی جاگ جاگ کر سو گئے۔ اب کالی برفیلی رات ہے اور ہواؤں کے تیز فراٹے۔ لیکن یہ تیز فراٹے سرائے کے منجمد سینے کو نہیں چیر سکتے۔ جس طوفان کاتو منتظر ہے وہ یہاں کبھی نہیں آئے گا۔ اس لنگڑے کو اپنے ناسوروں سے محبت ہے ، اس بھکاری کو اپنی بھوک سے اور تو۔۔۔ تو اس بے مصرف سارنگی کے بوجھ کو کاندھے پر اٹھائے اس بجھتے الاؤ کے کنارے کیوں بیٹھا ہے۔ اٹھ چل۔ پگڈنڈی کی پرانی راہ تجھے بلا رہی ہے۔ تو راہی ہے ، عاشق نہیں۔ تو مسافر ہے ، محبت کرنے والا نہیں۔

(قدموں کی آہٹ)

شاعر :کون ہے ؟

منی :میں ہوں من۔۔۔نی۔۔۔ من نی۔۔۔ منی سرائے کی ملکہ ہے۔ اس نے کہا۔

شاعر :کس نے کہا تھا۔ یہ تیرے قدم کیوں لڑکھڑا رہے ہیں۔ یہ تیرے۔۔۔ منھ سے کیسی بو آ رہی ہے۔

منی :بو آ رہی ہے۔۔۔ ہی ہی۔۔۔ بو کہ خوشبو، تم شاعر ہو کر بھی بو اور خوشبو میں تمیز نہیں کر سکتے۔ اہاہاہا!

جانی لنگڑا :(جاگ کر) کون؟

اندھا بھکاری :یہ منی کی آواز تھی۔

بھکارن :منی، میری بٹیا، تو اتنے عرصے کہاں رہی؟

منی :س۔۔۔ س۔۔۔ سرائے کے اندر اور اب سرائے کے باہر ہوں۔ آج میں بہت خوش ہوں۔ آج میں نے انگوروں کا رس پیا ہے۔ ریشم کے کپڑے پہنے ہیں ، لذیذ اور میٹھے کھانے کھائے ہیں ، تمہارے لیے بھی لائی ہوں لو۔۔۔ لو اس رومال میں سب کچھ بندھا ہے اور یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ بھی لے لو۔

بھکارن :یہ کیا ؟

جانی لنگڑا :نوٹ۔ دس۔ بیس۔ تیس۔ چالیس۔ واہ میرے یار، یہ لونڈیا تو بڑی ہوشیار ہے۔

بھکارن :چالیس؟وہ بنیا تو پانسو دیتا تھا۔

اندھا بھکاری :(چلا کر) منی منی۔۔۔ ذرا میرے قریب آ میری بیٹی۔

منی :کیا بات ہے ابا۔

اندھا بھکاری : اور قریب آ۔ میرے قریب آ جا میری بیٹی!

(اندھا منی کا گلا دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ منی چیختی ہے۔ شاعر اور جانی ان دونوں کو الگ الگ کر دیتے ہیں۔)

منی :کیا بات ہے ابا؟!۔۔۔ کیا بات ہے ؟!!۔۔۔ تم تو مجھے (لمبی لمبی سانسیں لے کر) جان ہی سے مارے ڈالتے تھے۔ میں نے کیا کوئی بری بات کی ہے۔ میں تمہارے لیے کھانا لائی ہوں ، اپنے لیے یہ خوبصورت کپڑے ، دیکھو شاعر یہ میرے بدن پر کیسے سجتے ہیں ، اچھے ہیں نا؟! وہ بہت ہی اچھا آدمی ہے ، وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے ، کہتا تھا جب میں نے سرائے کے باہر دوانی دی تھی اسی لمحے سے میں تم سے محبت کرنے لگا تھا، اس کی باتیں بہت ہی رسیلی تھیں۔ اس نے مجھے پیار کیا شاعر۔ وہ کہتا ہے۔۔۔ میں تم سے شادی کر لوں گا۔ وہ کل اپنے گھر جائے گا پھر وہاں سے سرائے کے مالک کو خط لکھے گا اور پھر میرے لیے ایک خوبصورت چار گھوڑوں والی گاڑی آئے گی اور میں اس میں بیٹھ کر اپنے خاوند کے گھر جاؤں گی۔ اماں تمہیں یاد ہے نا ایک بار ایک بھکاری نے میرا ہاتھ دیکھ کر کہا تھا کہ یہ لڑکی بڑی ہو کر شہزادی بنے گی۔ بھکارن سے شہزادی۔ اماں وہ بہت ہی امیر ہے میلوں تک اس کے کھیت پھیلے پڑے ہیں۔ اس کے پاس بیلوں کی جوڑیاں ان گنت ہیں ، اس کا گھر سرخ اینٹوں کا بنا ہوا ہے اور اس کے چاروں طرف ایک وسیع باغ ہے۔ ماں وہ بڑا ہی اچھا آدمی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ میں اپنے ابا اور اماں کو بھی ساتھ لے چلوں گی۔ وہ کہنے لگا یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے میں ان دونوں کے لیے ایک الگ مکان بنوا دوں گا اور تمہارے ابا کے لیے کھیت اور بیلوں کی جوڑی بھی خرید دوں گا۔ تم میرے ساتھ چلو گے نا ابا؟اماں تم بھی؟ اب ہم بھکاری نہیں رہیں گے ، دربدر بھیک نہیں مانگیں گے۔ بی بی کی گالیاں نہیں سنیں گے۔ سرائے کے باہر سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے الاؤ کی مدھم آگ نہیں تاپیں گے۔ ہاں جانی کو بھی ساتھ لیتے چلیں گے۔ میں اس سے کہہ دوں گی وہ بڑا اچھا آدمی ہے۔ شاعر تم بھی ہمارے ساتھ چلنا۔ تمہارے میٹھے گیت سن کراس کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے۔ کیوں ٹھیک ہے نا ابا، (وقفہ) اماں (وقفہ)جانی(وقفہ) تم سب چپ کیوں ہو۔ شاعر کیا بات ہے۔ تم بھی نہیں بولتے۔۔۔ (مدھم آواز میں سسکیاں لیتے ہوئے) تم بھی نہیں بولتے !

(سسکیاں لیتی ہے۔)

شاعر :رو مت منی۔ آج تم واقعی اس کالی رات اندھیاری رات کی شہزادی ہو۔ اس سرائے کی ملکہ ہو۔ تمہارا لباس ریشم کا ہے ، تمہارے بالوں میں گلاب کے پھول ٹکے ہوئے ہیں ، تمہارے لبوں پر تمہارے محبوب کے بوسے چمک رہے ہیں۔ آج کی رات تم نے سات رنگوں والی قوس قزح دیکھی ہے۔ آج کی رات وہ تمہارا خاوند ہے ، آج کی رات وہ تمہیں اپنی چار گھوڑوں والی گاڑی میں بٹھا کر اپنی بیاہتا بنا کر اپنے گھر لے گیا ہے ، آج کی رات اس نے تمہیں اپنے سونے اور جواہرات کے بنے ہوئے محلوں کی سیر کرائی ہے ، تمہاری کمر میں ہاتھ ڈالے اپنے وسیع باغات میں پھر ایا ہے ، رو مت منی ان خوشی کے آنسوؤں کو سنبھال کر رکھ۔ ان آنسوؤں کوتو دوبارہ حاصل نہ کر سکے گی۔ آج کی رات تو نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ یہ شاید تو اس وقت نہیں جان سکتی۔ کل صبح جب وہ مسافر اپنی چار گھوڑوں والی گاڑی میں سوار ہو کر اپنے سونے کے محل میں واپس چلا جائے گا۔اس وقت تجھے معلوم ہو گا کہ تو ظالم سرائے کی پتھریلی دہلیز سے بیاہی گئی ہے جس کے آستانے کی جبہ سائی کرتے کرتے تیرا باپ اندھا ہو چکا ہے ، رو مت منی۔ رو مت منی، رونے کے لیے ساری عمر پڑی ہے۔ کل تجھے معلوم ہو گا کہ وہ قوس قزح غائب ہو چکی ہے۔ وہ سونے کا محل راکھ کا ڈھیر ہو گیا ہے۔ وہ وسیع باغات اور کھیت بنجر اور ویران ہو گئے ہیں۔ ان میں تپتی ہوئی ریت کے بگولے اٹھتے ہیں اور غول بیابانی چیخیں مارتے ہیں اور تواپنے چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی ہاتھ پھیلائے بھیک مانگتی پھر تی ہے : ’’کوئی روٹی، کوئی پیسہ، بھکارن ہوں۔۔۔ ‘‘

منی :نہیں نہیں شاعر، یہ کیسے خوفناک الفاظ ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ میں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔

شاعر :تیری بدنصیبی یہی ہے کہ تو نے ابدی مسرت کے چند لا زوال لمحے اپنی پاک اور صاف روح کی پہنائیوں سے نکال کر ایک ایسے آدمی کو بخش دیے جوان کی قدر و قیمت نہیں جانتا، وہ لمحات جن کا جواب چاند اور سورج کی دنیاؤں کے پاس بھی نہیں۔ لیکن انسان ابھی بھی انسان نہیں ہے۔ وہ ہراس چیز کو گزند پہنچاتا ہے جو خوبصورت ہو، مقدس ہو اور معصوم ہو اور ہراس چیز کا پجاری ہے جواس پر ظلم کرتی ہے اس کی روح کو کچل کراس کے نازک احساسات کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی ہے۔

جانی لنگڑا :چچ چچ۔ بہک گیا ہے بے چارہ۔ دماغ چل نکلا ہے اس کا۔ چاند اور سورج شعلے اور قوس قزح بھلا ان باتوں کا چالیس روپوں سے کیا تعلق جا بھائی جا۔ بہت مغز چاٹ لیا تو نے۔ اب اگر یوں سیدھی طرح نہ جائے گا تو جانی لنگڑا تجھے اپنی لنگڑی ٹانگ کے کرتب دکھائے گا۔ یہ میری لنگڑی ٹانگ ایسے موقعوں پر خوب چلتی ہے۔ بڑا آیا منی کو سمجھانے والا۔ چلا جا یہاں سے !!

(شاعر آہستہ آہستہ پگڈنڈی کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔)

منی :شاعر ٹھہرو(وقفہ) مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو۔

شاعر :نہیں میں اب نہیں ٹھہر سکتا۔ میں تمہارے آنسو اپنے ساتھ لیے جا رہا ہوں منی۔محبت کرنا یا زخمی زندگیوں پر پھاہا رکھنا میرا کام نہیں۔ میں تو صرف دھرتی کے آنسو جمع کرتا ہوں۔

(چلا جاتا ہے۔)

(خاموشی۔ پھر جنگل میں گیدڑوں کے بولنے کی آواز۔)

(پردہ)

کرشن چندر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سید محمد زاہد کی اردو نظم