- Advertisement -

عیدکادن

از قلم فرح عباسی

عیدکادن

میں اپنی بیٹی کا کالج میں داخلہ کراوں گا میری پیاری بیٹی خالد نے اپنی بیٹی کو دیکھتے ہوئے کہا دیکھا امی لاڈلی بیٹی ہوں اپنے بابا کی حنا تم اپنی ساری تیاری مکمل رکھو کل ہم باپ بیٹی کالج میں داخلہ کے لیے چلیں گے لیکن خالد!
کلثوم نے ٹوکتے ہوئے کہا اتنے خراجات ہیں ہم کالج کی فیس کیسے ادا کریں گے باقی بچے بھی بڑے ہو رہے ہیں ان کےاخراجات بھی بڑھتے جا رہے ہیں کلثوم تم گھبراؤ نہیں ان کا باپ زندہ ہے اسی تندور میں روٹیاں پکاتے پکاتے ساری زندگی گزار دے گا لیکن اپنے بچوں کو کبھی گرم دھوپ نہیں لگنے دے گا۔۔۔ کلثوم بس ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی
بس حنا تم دل لگا کر پڑھنا میں چاہتا ہوں تم ایف ایس سی کرو آگے بھی بی ایس سی اسی کالج سے کر لینا یہ سیمی گورنمنٹ کالج ہے پڑھائی بھی اچھی ہوگی
تم اپنے بہن بھائیوں کے لئے ایک آئینہ بننا جسے دیکھ کر وہ اپنی منزل تلاش کر سکیں تمہیں پتہ ہے نہ ہمارے خاندان میں اپنے بچیوں کو آگے کالج میں نہیں بھیجتے لیکن تم میری بیٹی نہیں بیٹا ہوں اپنے باپ کا نام فخر سے بلند کرنا اسی کی عزت کی پاسداری کرنا ہی حنا اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے باپ کی آنکھوں میں اپنے لیے اعتماد دیکھ رہی تھی
ابھی کالج جاتے ہوئے دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ چھوٹی عید کی چھٹیاں ہو گئ
امی اس بار عید پر بریانی بنانا ہر بار نہیں بنتی ہیں اچھا ٹھیک ہے اس بار ہم پارک بھی چلیں گے صبا آفان بھی خوشی سے اچھل پڑے ہیں لیے ابو آپ نے اس بارات کے کپڑے نہیں لیے حنا کی پیار بھری نظریں باپ سے سوال کر رہی تھی میری عید کی خوشیاں تم لوگوں سے ہی ہیں تم لوگ اچھے کپڑے پہنو گے تو خوشی مجھے ہی ہوگی شاہد باپ کی ہستی ہوتی ہی ایسی ہے اتنی سایہ دار
جو خود تو دھوپ سردی برداشت کرتی ہے لیکن اپنے بچوں پر آنچ نہیں آنے دیتی
ابو جان عید کی نماز کا وقت ہو گیا ہے کہ حنا خوشی سے باپ کو ہلاتے ہوئے بولی
ابو جی اٹھے نہ ہم نے پارک بھی جانا ہے آج اور ایک آپ ہی اٹھ ھی نہیں رہے جائیں میں نہیں بولتی آپ سے ابو ابو امی ابو نہیں اٹھ رہے
پاگل تو نہیں ہو گئی تم
ایک چیخ کی گونج سی اٹھی پورے گھر میں
11 22 کو کال کرو جلدی کلثوم بھی پکار دی
We are sorry he is no more
ان کو دل کا دورہ پڑا ہے جس سے ان کا انتقال ہوگیاصبر رکھیں ڈاکٹر بس یہی کہہ سکا
ابو ابو نہیں ہٹو میرے آگے سے
میرے ابو مجھے چھوڑ کر چلے گئے
حنا کی دردناک آواز سے پورے ہسپتال میں گونج رہی تھی
عید ہے ابو آج عید کے دن تو سب ملتے ہیں آپ ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں ابو جی ہمیں نئے کپڑے پہنا کر خود کفن اوڑھ لیا اللہ کے لئے اٹھ جائیں ماں غم سے نڈھال ایک کونے میں جیسے بے جان پڑ گئی ہو
ہم آپ کے بغیر کیا کریں گے
ہمیں بھی ساتھ لے جائیں
چھوٹے بہن بھائی تو معصومیت سے باپ کو دیکھ رہے تھے انہیں کیا پتا تھا کہ ان سے کیا لے لیا گیا ہے ایک سایہ جس کے آٹھتے ہی ساری دنیا کی دھوپ تو بہت واضح لگنے لگے گی
نہیں چھوڑ دو میرے ابو کو نہیں لے کر جاؤ ہمیں عید منانی ہے ابو کے ساتھ مت لے کر جاؤ انہیں اللہ کے واسطے
حنا بغیر دوپٹے کے پوری گلی میں دھاڑیں مار مار کر باپ کے پیچھے بھاگتی رہیں
ابو جی او میرے ابو آج کے دن نہیں او میرے ابو
سر میری درخواست ہے آپ میری فیس معاف کردیں ابو کے بعد میرےگھر کا واحد سہارا ہوں میں شاید رحم دلی ہوئی تھی اس شخص میں اس نے فیس معاف کر دی اتنے دنوں بعد آج کالج اور کیوں نہ آتی میرے ابو نے مجھے یہاں داخلہ دلوایا تھا ان کے سارے خواب پورے کر ونگی ہمت سے صبر سے کام لو گی میری دنیا لٹ چکی ہے میں نے کیا کھویا ہے لیکن میں صبر کروں گی
اللہ کسی کو بے یارومددگار نہیں چھوڑتا
امی نے تو شاید جینا ہی چھوڑ دیا تھا
شوہر کے ایسے چلے جانے پر وہ عورت جس کو صحیح اردو بول نی نہ آتی ہو وہ بھلا گھر کے سارے معاملات کیسے چلا سکتی تھی اللہ کے لئےصبر رکھیں امی ابو کی بات کیا آپ ہم سے ماں کا سہارا بھی چھین لینا چاہتی ہیں ڈپریشن کی گولیاں کھا کھا کر زندہ تھی اور بھول بھی کیسے جاتی ایسے شوہر کو جس نے ساری زندگی اونچی آواز میں بات نہ کی ہو کوئی کوئی رشتہ دار پڑوسی مدد کے لیے نہ آیا نے آنکھیں دکھا دیں تندور میں شراکت داری تھی باقی ٹیوشن پڑھاکر گزر بسر چل رہا تھا
چار سال گزر چکے تھے اور ان چار سالوں میں سوائے تندور کی روٹی کے کچھ نہیں کھایا تھا امی پاس ہو گئی ہوں بس آپ دعا کریں کوئی نوکری مل جائے.. جوان بیٹیوں کو مردوں کا معاشرہ صرف ہوس کی نظر سے دیکھتاہے نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو برداشت کیا
لیکن عزت اور ذلت دینے والی صرف اللہ ہی کی ذات ہے
بے شک اللہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے
. …. . .اے میرے اللہ اپنے باپ کی عزت کی پاسداری کی میں نے کتنے ہی لوگوں نے میری ماں اور میرے سر سے چادر اتار دینی چاہیئے لیکن ہم نے فاقہ کاٹ کر بھی اپنی عزتوں کی پاسداری کی
اے میرے اللہ مجھے پاک آئینہ بنا دے مجھے ناپاک آئینہ نہ بننے دے نا اے اللہ ہمارا سہارا بن جا شاید وہی قبولیت کی گھڑیاں تھی……..

کۀ آر ٹی سی ایک سیمی گورنمنٹ میں ایک دوست کی بہن نے جاب دلادی پچیس ہزار کی جاب کسی معجزے سے کم نہ تھیں ہمارے لئے آج بھی میں حنا یہاں کام کر رہی ہوں آگے اخراجات کی وجہ سے پڑھائی تو جاری نہ کر سکیں لیکن ایک آئینہ ضرور ہوں اپنے بہن بھائیوں کے لئے اور ماں کا سہارا …………

ہر سال کی طرح عید بھی آتی ہے لیکن ابو کی موت کے غم کو تازہ کر دیتی ہے آج بھی میں یہی کہتی ہوں اپنے باپ کی قبر پر جاکر ابو اٹھیں عید ملے
مجھے آپ کے ساتھ عید منانی ہے ہمیں نئے کپڑے پہنا کر خود کفن اوڑھ لیا تو آج میں کہتی ہوں ہاں میں آئینہ ہوں اپنے باپ کا اپنی ماں کے لیے اپنے بہن بھائیوں کے لئے ہاں میں آئینہ ہوں وہ جو آنسوؤں سے غسل کرکے پہلے سے زیادہ چمکدار ہو جاتا ہے 💕💕💕💕

از قلم فرح عباسی
💖

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عابد ضمیر ہاشمی کا اردو کالم