دل کو مآل ِ عشق سے بیگانہ کیجیے
پروانہ کہہ رہا ہے کہ پروا نہ کیجیے
ہر خواب ناگزیر ہے ہر کام فرض ہے
کس کس سے ہاتھ کھینچیے کیا کیا نہ کیجیے
وہ بات جو ابھی ابھی میں نے نہیں سُنی
وہ بات ہو سکے تو دوبارہ نہ کیجیے
مخلص ہیں؟؟ اور وہ بھی مجھ ایسے حقیر سے ؟؟
اپنے ہی ساتھ آپ یہ دھوکہ نہ کیجیے !!
کیا سچ میں آپ جی نہیں سکتے مرے بغیر ؟؟
تو پھر کوئی جواز مہیا نہ کیجیے !!
اتنی بھی میری درگزری مستقل نہیں..!!
کتنی دفعہ کہا ہے کہ ایسا نہ کیجیے..!!
ہاں شکر تو ضرور بجا لائیے حضور !!
لیکن ہمارے ضبط پہ تکیہ نہ کیجیے
اچھا ہے انفراد بھی اپنی جگہ مگر
جواد کوئی کام تو اُلٹا نہ کیجیے !!
جواد شیخ