- Advertisement -

دم بہ دم اس ڈھب سے رونا دیر کر آیا ہمیں

میر تقی میر کی ایک غزل

دم بہ دم اس ڈھب سے رونا دیر کر آیا ہمیں
کیا لہو اپنا پیا تب یہ ہنر آیا ہمیں

گرچہ عالم جلوہ گاہ یار یوں بھی تھا ولے
آنکھیں جوں موندیں عجب عالم نظر آیا ہمیں

ہم تبھی سمجھے تھے اب اس سادگی پر حرف ہے
خط نکلنے سے جو نامہ بیشتر آیا ہمیں

پاس آتا یک طرف مطلق نہیں اب اس کے پاس
کچھ گئے گذرے سے سمجھا وہ پسر آیا ہمیں

تجھ تک اس بے طاقتی میں کیا پہنچنا سہل تھا
غش ترے کوچے میں ہر ہر گام پر آیا ہمیں

صبح نکلا تھا پسر تلوار جوں خورشید لے
دیکھ کر خونخوار سج اس کی خطر آیا ہمیں

کر چلا بے خود غم زلف دراز دلبراں
دور کا اے میر درپیش اب سفر آیا ہمیں

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
اشک کے جوش سے ہوں شام و سحر پانی میں…