کانچ دکھ درد کے دل اور جگر کاٹتے ہیں
زیست مشکل ہی سہی لوگ مگر کاٹتے ہیں
پھول، پھل اور پرندوں کے بھی گھر کاٹتے ہیں
لوگ کب سوچتے ہیں جب وہ شجر کاٹتے ہیں
چھین سکتے ہی نہیں ہیں وہ ارادوں کی سَکَت
کتنے خوش فہم ہیں پنچھی کے جو پر کاٹتے ہیں
زندگی ساری بصد شوق، محبت والے
بس محبت ہی کے ہم زیرِ اثر کا ٹتے ہیں
یہ جو مفہوم سمجھ میں نہیں آتا تیرا
زندگی لوگ ترے زیر و زبر کاٹتے ہیں
قد نکلتا ہے یہاں شہرِ عداوت، کس کا
اب تو دستار کے ہم ساتھ ہی سر کا ٹتے ہیں
روح پرور سی یہ منزل، ہے تصور، ایسا
ہم کہ خوش خوش بھی یہ عمروں کا سفر کا ٹتے ہیں
سحر یہ حُسن کا سر چڑھ کے جو اَب بو لتا ہے
کھیل کر جان پہ ہم اس کا اثر کا ٹتے ہیں
جنگ جو لے کے نکلتے ہیں سبھی تیغ و تبر
جن کے بازو میں سَکَت ہے وہ سپر کا ٹتے ہیں
اکرم کنجاہی