اگر دل میسر بدن
کے مقابل کھڑا ہو گیا
تو رگوں میں روانی
لہو کی یہ بانی
بدن کے کسی
ایک کونے میں تیار
ہوتے ہوئے آنسووں میں
اگر گھُل گئی تو
یہ تکرار
آنکھوں سے وہ رنگ
برسائے گی جو
نہ دیکھا گیا
اور نہ چاہا گیا
دل کو اس سے
غرض کیا بدن کس کا ہے
جب بدن کے الگ ہی تقاضے ہیں
اور دل
الگ سوچتا ہے
تو پھر عقل کا سوچ سے
جسم کا جان سے
دل کا ایمان سے
اور لہو کا
روانی کی
پہچان سے
پھر گلہ ہی نہیں
دوسرا گر کوئی راستہ ہی نہیں
فیصلہ کیا کریں
کس طرح طے کریں
اہمیت کس کی ہے
کون منصب سنبھالے
یا پھر کون ہوگا
یہاں ماتحت
کُچھ بھی ہو
اب یہ جاگیر ہے
تو چلو
ان کی تخلیق
پر جو بھی مقصود تھا
اس کا جو کُچھ بھی حاصل
ہے سب بانٹ دیں
روح کو
اس خرابے سے
ہم چھانٹ دیں
عمران سیفی