جب بھی نیزے کی انی چھوتا تھا یہ سر بابا
عرشِ لاھوت پہ ہلتے تھے کوئی پر بابا
خاک کی نذر ہوئے، خون کا مقصود ہوئے
تیرے ماہتاب مرے سر و صنوبر بابا
میں نے تلوار چلائی تو امڈ آیا تھا
کل عناصر کے رگ و پے میں وہی ڈر بابا
مہلتیں اور عِطا کرنی تھیں شر زادوں کو
یعنی انگشت سے کرنے تھے فروتر بابا
میں نے جو پھول رہِ عشق میں تمہید کیے
ایک سے ایک تھے خوش رنگ و معطر بابا
اسپِ کے ٹاپ تو ساحل کی ہی مہمیز پہ تھے
آگے پانی کا بھی ہوتا ہے مقدر بابا
دیر کیا کرنی تھی اس وقت کہ رہ تکتا تھا
آنکھ میں ٹھہرا ہوا خواب کا پیکر بابا
کوئی سجدہ تھا جو تجسیم ہو اچاہتا تھا
میں نے ریتی پہ کیا اس کو مکرر بابا
ماہ نور رانا