مرے خیال کے برعکس، وہ بھی کیسا ہے
میں چھاؤں چھاؤں سی لڑکی وہ دھوپ جیسا ہے
ہزار شور میں رہنے کے باوجود اس کا
وہ بات کرنے کا لہجہ کھنکتی لَے سا ہے
ہے تتلیوں کے پروں پر لکھا ہوا چہرہ
دریچہ کھول کے دیکھا تو رنگ ایسا ہے
تمہیں گلاب کے کھلنے کی کیا صدا آتی
تمہارے گرد تو ہر وقت صرف پیسا ہے
تپش سے جلنے لگی ہے نگاہ پانی میں
جو مینہ برستا ہے وہ بھی عجیب شے سا ہے
میں اپنے دل کی گواہی کو کیسے جھٹلاؤں
جو کہہ رہا ہے مرا دل، وہ بالکل ایسا ہے
یونہی نہیں تمہیں نیناں نے روشنی لکھّا
تمہارے ساتھ ہمارا یہ رشتہ طے سا ہے
فرزانہ نیناں