سوال ہی نہیں دنیا سے میرے جانے کا
مجھے یقین ہے جب تک کسی کے آنے کا
ملے سفر میں ٹھکانے تو بے شمار مگر
ملا نہ ہم سفروں میں کوئی ٹھکانے کا
کئی تو زندہ و جاوید بھی ہوئے مر کے
کسی کے ہاتھ نہ آیا سِرا زمانے کا
کھلی ہوا کے سوا باغباں سے کیا مانگوں
معاوضہ نہیں لیتے طیور گانے کا
نظامِ زر میں کسی اور کام کا کیا ہو
بس آدمی ہے کمانے کا اور کھانے کا
انور شعور
تبصرے دیکھیں یا پوسٹ کریں