میکدہ ،رات غم کا گھر نکلا
دل، حویلی تلے کھنڈر نکلا
میں اسے ڈھونڈتا تھا آنکھوں میں
پھول بن کر وہ شاخ پر نکلا
کس کے سائے میں سر چھپاؤ گے
وہ شجر، دھوپ کا شجر نکلا
اس کا آنچل بھی کوئی بادل تھا
وہ ہواؤں کا ہمسفر نکلا
کوئی کاغذ نہ تھا لفافے میں
صرف تتلی کا ایک پر نکلا
جب سے جانا کہ وہ بہادر ہیں
دل سے کچھ دشمنوں کا ڈر نکلا
زندگی ایک فقیر کی چادر
جب ڈھکے پاوں ہم نے سر نکلا
بشیر بدر