کوئی ارمان میرے دل کا نکلنے نہ دیا
ساتھ چاہا کبھی ساتھ بھی چلنے نہ دیا
آج بھی آس لگائے ہیں وفا کی ان سے
دل سے امید کا سورج کبھی ڈھالنے نہ دیا
ھاۓ اس درد اے موہببت مے قضا سے پہلے
تیرے بیمار کو پہلو بھی بدلنے نہ دیا
ہم اندھیروں کی آنا توڑ کے رکھ دیتے مگر
ان ہواؤں نے چراغوں کو بھی جلنے نہ دیا
وار ہر سمت سے اس طرح. کی ظالم نے
میرے ترکش کا کوئی تیر نکلنے نہ دیا
کام آیا ہے میرے صابر کا سگر لوگو
جس نے آنسو میرے آنکھوں سے نکلنے نہ دیا
زندگی بھر تو سنبھلتے رہے گر گر کے عزیز
اس نے نظروں سے گرایا. تو سنبھلتے نہ دیا
افروز عزیز