- Advertisement -

عبرت سرائے دہر میں وہ بھی لہولہان تھا

ایک اردو غزل از منیر جعفری

عبرت سرائے دہر میں وہ بھی لہولہان تھا
اپنے تئیں جو شہر میں دہشت کا اک نشان تھا

خوف میں رکھ دیا گیا کیسی کشش کا ذائقہ
وہ بھی ہے محوِ گفتگو کل تک جو بے زبان تھا

اس میں کئی حجاب تھے آنچل تھے اور علم بھی تھے
کپڑے کا ایک تھان تو جیسے کہ خاندان تھا

تیری طلب کی جھیل کا آبِ خراب کیا چکھا
خود سے بھی ہو گیا ہوں دور دنیا کے درمیان تھا

اس کے بدن کے کاخ و کو روشن تھے میرے چار سو
جلتا تھا پور پور دل رات وہ مہربان تھا

سب کو الاؤ بانٹ کر دامن جلا لیے گئے
تھوڑے ہی دن میں شہر بھر ماضی کا راکھ دان تھا

میری مہار تھام کر چلتا ہے کیسی شان سے
پچھلے جنم میں وقت بھی لگتا ہے ساربان تھا

آگ لگے پڑاؤ کو رستے ترستے رہ گئے
آیا ہی راس کیوں اسے میرا جو کاروان تھا

ہم نے تھے اپنے ظرف میں خود ہی شگاف کر لیے
دعوت پہ کیا گلہ کریں جیسا بھی میزبان تھا

آتا ہے خوف کیوں تجھے نیچے کی سمت دیکھ کر
دھرتی کا شانہ مت پکڑ تیرا یہ پائدان تھا

پچھلے دنوں کی بات ہے ڈرتے تھے سارے ناتواں
دریا جو اب کہیں نہیں وادی میں پہلوان تھا

مجھ کو اب اپنا آپ بھی چھوٹا ہے کس قدر منیر
لیکن وہ ساعتیں کہ جب وسعت میں آسمان تھا

منیر جعفری

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از منیر جعفری