- Advertisement -

اِقرار

گلناز کوثر کی ایک اردو نظم

کہو جب ایک ڈولتی پکار نے

دبیز آسمان کی

خموش، خشک سلوٹوں کو چُھو لیا

گھنیری سبز شاخ سرد رات کی منڈیر پر

جو جُھک گئی

تو کائنات رُک گئی

کبھی کسی اُداس دل کی

دھڑکنیں مچل گئیں

تو کیسی اندھے فیصلوں کی ساعتیں

بھی آہنی گرفت سے پھسل گئیں

کہو سمے کی آنکھ میں رُکے ہوئے

لہو نے سرسراتے سوکھے بادلوں سے کیا کہا

کہ حبس رات میں کہیں سے جھوم کر گھٹا چلی

گھٹا چلی تو دیر سے

تپکتے گرد راستے مہک اُٹھے

وہ حرف تھے کہ تتلیوں کے قافلے

رُکے کسی اجاڑ زرد پیڑ پر

سسکتے سرد راستوں سے

اِک کرن گزر گئی

تو رنگ پھیلتے رہے

تو رنگ پھیلتے رہے تھے دیر تک

ہواؤں میں ، فضاؤں میں

کوئی صدا رُکی رہی

کہو وہ کوئی

گنگناتے ساز تھے

کہ روشنی کے سلسلے

کہ پتھروں سے پھوٹنے لگی تھی

کوئی آبجُو

وہ رنگ تھے کہ پھول تھے

کہ چاندنی کی نرم لَو

کہو کہو

گلناز کوثر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
گلناز کوثر کی ایک اردو نظم