لڑکھڑائی ہوئی رات کے دو …پہر
جیسے بیکار لمحوں کی
اُجلی گزرگاہ سے
آج گزرے نہیں
جھینگروں کی سَنن سَن کے آگے
کسی یاد کا قافلہ
جیسے ٹھہرا نہیں
چاند بس دو فریبی سی
شاخوں کی باہوں میں
ہلکورے لیتا رہا
اور تارے کسی
غیر ممکن تصور کو تکتے رہے
دھیمی سرگوشیوں سے بھرے
سبز پتے یوں جیسے ہلے ہی نہیں
لمبی ویران سڑکوں پہ
جھونکوں کی آہٹ کا کچھ
شائبہ تک نہ تھا
اور کھوئی ہوئی
سوچ کے کارواں
دل کی خالی فصیلوں پہ
اُترے نہیں
رات کے دو … پہر
زندگی کی کسی رہ سے
گزرے نہیں
گلناز کوثر