ایسے وہ جانے لگا مجھ کو دلاسہ دے کر
جیسے بچہ کو کوئی جائے کھلونا دے کر
جو بھی آتا ہے ٹھہرتا ہے چلا جاتا ہے
کوئی رکتا ہی نہیں مجھ کو سہارا دے کر
سارے ہم راز وفادار نہیں ہوتے ہیں
مجھ کو سمجھا ہی دیا دوست نے دھوکا دے کر
میرے بابا نے بہت ناز سے رکھا مجھ کو
ماں نے پالا ہے مجھے منہ کا نوالہ دے کر
کیوں پریشان رہا کرتے تھے والد میرے
آج محسوس ہوا گھر کا کرایہ دے کر
علمہ ہاشمی