سلام اردو سپیشلسوانح حیات

عبد الحلیم شرر کا تعارف

از پروفیسر قمر رئیس

نام عبد الحلیم تھا اور تخلص شرر، مکمل نام عبد الحلیم شرر۔

شرر 1275ھ مطابق 1860 کو لکھنو میں پیدا ہوئے ۔

شرر کا انتقال 1345ھ مطابق 1926 میں چھیاسٹھ برس کی عمر میں لکھنو میں ہوا۔

عبد الحلیم شرر کے والد کا نام تفضل حسین تھا۔

عبد الحلیم شرر کے اساتذہ تفضل حسین، ملامحمد باقر کشمیری منشی عبد اللطیف ، حیدر یار جنگ، ( میر حیدر علی طباطبائی ) مرزا محمد علی ، مرز اہدایت اللہ ، سید جمال الدین ، حکیم محمد سیح، مولانا عبد الحی۔

عبد الحلیم شرر کی شادی 1879 میں اٹھارہ سال کی عمر میں حقیقی ماموں حکیم سعید کی لڑکی سے کرادی گئی تھی۔

شرر نے قیام دہلی کے دوران محمد بن عبدالوہاب نجدی کی کتاب التوحید اور اسماعیل دہلوی کی تقویۃ الایمان کے تقابلی مطالعے کے بعد کتاب التوحید کا اردو ترجمہ کیا تھا۔

اس طرح 1881 میں شرر کی تصنیفی زندگی کا آغاز ہوا تھا۔

عبد الحلیم شرر کا تعلق فرقہ اہل حدیث ( غیر مقلد ) سے تھا۔

عبد الحلیم شرر کو مولوی عبدالحئی کی سفارش پر منشی نول کشور نے اودھ اخبار لکھنو میں تیس روپے ماہوار پر اسٹنٹ ایڈیٹر 1881 میں مقرر کیا تھا۔

شرر کے اودھ اخبار میں چھنے والے مضمون ‘روح’ کے بارے میں سرسید نے لکھا تھا کہ اودھ اخبار میں روح پر جو مضمون چھپا ہے بہت اعلیٰ درجے کا ہے ۔

شرر نے اودھ اخبار میں ملازمت کے دوران اپنے دوست مولوی عبدالباسط کے نام سے ایک ہفت روزہ محشر کے نام سے 1881 میں جاری کیا تھا۔

شرر نے البشیر کے ایڈیٹر بشیر الدین کی تجویز اور اصرار پر اپنا مشہور ماہنامہ دل گداز لکھنو سے جنوری 1887 میں جاری کیا تھا۔

عبد الحلیم شرر نے دل گداز میں تاریخی ناول لکھنے کی داغ بیل 1888 میں ڈالی تھی اور اس طرح نہ صرف ان کا بلکہ اردو کا پہلا تاریخی ناول ملک العزیزودر جینا 1888 میں شائع ہوا تھا ۔

شرر نے ایک ہفت روزہ مہذب 1890 میں نکالا تھا جو اپنی نوعیت کا پہلاغت روزہ تھا۔

ماہنامہ دل گداز حیدر آباد سے دوبارہ لکھنا 1898 میں شرع ہوا تھا۔

پھر لکھنو سے دل گداز کی اشاعت 1900 میں شروع ہوئی تھی ۔

پھر شرر حیدر آباد گئے تھے اور وہاں سے دلگر از نکالا تھا۔

پھر دل گداز میں لکھنو سے 1904 میں نکلنا شروع ہوا تھا ۔

اس طرح دلگداز کئی مرتبہ بند ہوا اور جاری ہوا کبھی لکھنو سے تو کبھی حیدر آباد سے۔

محمد علی جو ہر نے شرر کو اپنے روزنامے ہمدرد کا ایڈیٹر دو سو روپے ماہوار پر 1912 میں مقرر کیا تھا ۔

عبد الحلیم شرر نے اپنے ناولوں کے ذریعہ تاریخ اسلام کو زندہ کیا ہے۔

عبد الحلیم شرر کا قول

علوم کے اعتبار سے لکھنو ہندوستان کا بخارا اور قرطبہ اور اقصائے مشرق کا غیشا پور تھا۔

عبد الحلیم شرر کے متعلق مختلف آرا و خیالات

فراق گورکھپوری نے شرر کے تخلیقات کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ مٹی کے پہاڑ سہی لیکن آپ کو انھیں ٹھٹک کر دیکھنا ضرور پڑے گا۔

شرار اردو کے پہلے ادیب ہیں جنھوں نے شعوری طور پر ناول کے فن کو سمجھنے اور برتنے کی کوشش کی ہے۔

پروفیسر قمر رئیس

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button