اردو غزلیاتشعر و شاعریعدیم ہاشمی

کیوں میرے لب پہ وفاؤں کا سوال آ جائے

عدیم ہاشمی کی اردو غزل

کیوں میرے لب پہ وفاؤں کا سوال آ جائے
عین ممکن ہے اسے خود ہی خیال آ جائے

ہجر کی شام بھی سینے سے لگا لیتا ہوں
کیا خبر یونہی کبھی شامِ وصال آ جائے

گھر اسی واسطے جنگل میں بدل ڈالا ہے
شاید ایسے ہی ادھر میرا غزال آ جائے

دھنک ابھرے سرِ افلاک کڑی دھوپ میں بھی
دشتِ وحشت میں اگر تیرا خیال آ جائے

کوئی تو اڑ کے دہکتا ہوا سورج ڈھانپے
گرد ہی سر پہ گھٹاؤں کی مثال آ جائے

چھوڑ دے وہ مجھے تکلیف میں ممکن تو نہیں
اور اگر ایسی کبھی صورتِ حال آ جائے

اس گھڑی پوچھوں گا تجھ سے یہ جہاں کیسا ہے
جب تیرے حسن پہ تھوڑا سا زوال آ جائے

کچھ نہیں ہے تو بھلانا ہی اسے سیکھ عدیم
زندگی میں تجھے کوئی تو کمال آ جائے

عدیم ہاشمی 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button