ایک یہ دل جو تجھے دے کے گنوا دینے لگا
اور اک چیز کوئی اس کے سوا دینے لگا
ایسی خوشبو ہے کہ اب ضبط نہیں ہے ممکن
میں ہواؤں کو کوئی راز بتا دینے لگا
اب مرے سامنے رستہ ہی کچھ ایسا ہے کہ میں
اپنی منزل کو بھی رستے سے ہٹا دینے لگا
وہ جسے دیکھ کے جلنے میں مزا لینا تھا
وقت وہ داغ تمنا بھی مٹا دینے لگا
جس کی گردش میں مہ و مہر ہوں دہرائے ہوئے
ایسے منظر کو میں محور سے ہٹا دینے لگا
کیا زمانہ تھا ترے وصل کی بیتابی کا
کیا زمانہ ہے ترا ہجر مزا دینے لگا
ایک حسرت میں ہوا اتنا مجھے رنج کہ میں
ہاتھ آئی ہوئی دنیا کو گنوا دینے لگا
اتنا محروم تمنا ہوں کہ اب آخر کار
میں نے جو چاہا وہی مجھ کو خدا دینے لگا
آب سادہ جو برستا ہے دریچے سے پرے
آتش مے کو ذرا اور بڑھا دینے لگا
مجھ کو سننا تھا کسی اور زمانے نے وفاؔ
میں کسی اور زمانے میں صدا دینے لگا
مقصود وفا