ایک دن اِک مور سے کہنے لگی یہ مورنی
خوش صَدا ہے ، خوش اَدا ہے، خوش قدم خوش رَنگ ہے،
اِس بیاباں تک مگر افسوس تُو محدود ہے۔
جب کبھی میں دیکھتی ہوں محو تجھ کو رقص میں ،
ایک خواہش بے طرح کرتی ہے مجھ کو بے قرار۔
کاش تجھ کو دیکھ سکتی آنکھ ہر ذی روح کی!
کاش مخلوقِ خدا ہو تیرے فن سے فیض یاب!
مور بولا: اے مِری ہم رقص میری ہم نوا،
تُو نہیں واقف کہ میں گھوما پھرا ہوں کس قدر،
کتنے جنگل میں نے جھانکے کتنی دیکھیں بستیاں ۔
اَن گنت آنکھوں نے دیکھا میرا فن میرا ہنر۔
داد لینا دیکھنے والوں سے تھا مقصد مِرا۔
اِس طرح گویا اُنہیں تسخیر کر لیتا تھا میں ۔
دیکھتا جب اُن کی آنکھوں میں ستائش کی چمک،
بس اُسی لمحے پَروں کو میرے لگ جاتے تھے پَر۔
پھر ہوا یوں ایک دن دورانِ رقص،
غالباَ شیشے کا ٹکڑا یا کوئی کنکر چُبھا۔
رقص تو کیا چلنے پھرنے سے ہُوا معذور میں
رفتہ رفتہ ہو گیا اہلِ جہاں سے دُور میں ۔
بعد مُدّت ایک دن پہنچا جو میں پنڈال میں ،
دیکھتا کیا ہوں کہ اک طاؤسِ خوش قد خوش جمال،
مجھ سے بہتر اور کتنا مختلف،
کر رہا تھا اپنے فن سے اہلِ مجلس کو نہال۔
دیر تک دیکھا کیا میں اُس کو اوروں کی طرح
یوں لگا جیسے وہ تھا میری جگہ میری طرح۔
کاروانِ زندگی رکتا نہیں
وقت کا دریا کبھی رکتا نہیں
آج میں ، کل کوئی ،پرسوں کوئی اور،
اپنا اپنا وقت اپنا اپنا دور۔
رقص کرتا ہوں اگر میں اب تو بس اپنے لیے
یا فقط تیرے لیے، تیرے لیے، تیرے لیے
باصر کاظمی