آپ کا سلاماردو افسانےاردو تحاریر

ابدی موت

ہما فلک کا ایک اردو افسانہ

پردہ سیمیں پر مناظر تیزی سے گزر رہے تھے فلم کا کردار ایک استخوانی ڈھانچہ تھا جو زمین پر گرا کراہ رہا تھا -اس کے جسم کے کچھ حصوں میں انگارے سے لپکے تھے جن سے خوفزدہ ہوکر وہ بول ااتھا
“وہ مجھے بھول رہی ہے ‘”
پیٹرنے اپنی نشست پر پہلو بدلا اور پھر سے فلم میں مگن ہوگیا –
وہ سب موت کے بعد والی زندگی کے مقام پر اکٹھے ہوکر انتظار کر رہے تھےکہ کب ان کے رشتہ دار ان کی یاد کے جشن کا آغاز کریں، اور وہ زمین پر اتر کر ان کو دیکھ سکیں ۔
فلم کی کہانی کے مطابق مردہ لوگوں کی یاد میں اکتیس اکتوبر کو ان کے رشتہ دار اکٹھے ہو کر ان کو یاد کرتے ہیں، اس دن کھانے، موسیقی اور رقص کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ایسے لوگ عارضی موت مرتے ہیں لیکن جن لوگوں کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا یا پھر جن لوگوں کو ان کے رشتہ دار بھول جاتے ہیں، ان کو ابدی موت مرنا پڑتا پے ۔اس منظر سے پہلے ایک شخص کو اسی طرح بھسم ہو کر اس کی راکھ کو غائب ہوتے دکھایا گیا تھا۔اب ایک اور ڈھانچہ اس خوف کا شکار تھا کہ اس کی بیٹی اس کی اکلوتی وارث ، جو اب بہت ضعیف ہوچکی تھی ، اسے بھول رہی تھی۔یہ سال کا آخری دن تھا ۔مہینے میں ایک بار اس سینما ہال میں آکر فلم دیکھنا پیٹر کا معمول تھا ۔آج جانے اسے کیا ہوا کہ بہت سے بچوں کو اکٹھا دیکھ کر اس نے کائونٹر پر کھٖڑی عورت سےکہا کہ یہ بچے جس فلم کی ٹکٹیں خرید رہے ہیں اس کو بھی وہی ٹکٹ دے دے ۔پیٹرعموماٰٰ وقت گزاری کے لئے فلم دیکھتا تھا ۔مگر آج اسے یہ فلم دیکھ کر بے چینی محسوس ہونا شروع ہو چکی تھی –

فلم ختم ہونے پر سب لوگ اپنے بچوں کے ساتھ مگن سے انداز میں تبصرے کرتے ہوئے ہال سے نکلنےلگے – وہ ہال خالی ہونے کا انتظار کرتا رہا تاکہ اطمینان سے نکل سکے –
حسب روایت وہ اس برس کا اخری ڈنرلینے اپنے پسندیدہ ریستوران میں آکر بیٹھ گیا ۔ریستوران کا ماحول پر سکون اور گرم تھا،اسے یہ جگہ سکون اور خاموشی کی وجہ سے ہی پسند تھی جہاں بے ہنگم موسیقی اور شور شرابہ نہیں ہوتاتھا-اور آج کی رات تو بارہ بجتے ہی شور ہنگامے عروج پر ہوتے جن کا دورانیہ تقریبا ساڑھے گیارہ سے ایک بجے تک رہتا -پیٹر اس سے بہت پہلے گھر چلا جانا چاہتا تھا کیونکہ اسے آتش بازی کےیہ مناظر کبھی پسند نہیں رہےتھے–
بیرا کھانا اس کے سامنے چن کر چلا گیا – کھانے کی طرف متوجہ ہوتے ہی اس کی نظر کھانے کو گرم رکھنے والی ٹرے میں پڑے انگاروں کی طرف چلی گئی – اس کی آنکھوں میں بھسم ہوتے اس ڈھانچے کا منظر گھوم گیا –
اس نے سر جھٹک کر اپنی سٹیک کو کانٹے سے پکڑ کر چھری کی مدد سے کاٹنے کی کوشش کی، اس کی نظر پھر سے اس جلتے انگارے پر پڑ گئی اسے اپنی وصیت یاد آئی ،
جس کے مطابق اس کے جسم کو جلایا جائے گا- سٹیک کے اس ٹکڑے کو دیکھ کر اسے عجیب سی کراہیت کا احساس ہوا اس نے بل کی رقم سے کچھ زیادہ پلیٹ کے نیچے رکھی اور باہر نکل آیا ۔تازہ اور سرد ہوا کا جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا صبح سے شام تک ہوئی برف باری نے حد نگاہ تک ہر چیز پر سفید چادر بچھا دی تھی اب آسمان صاف تھا اور چاند چمک رہا تھا جس کی روشنی برف پر منعکس ہو کر بہت مسحور کن نظارہ پیش کر رہی تھی وہ کچھ دیر مبہوت کھڑا اس منظر کو دیکھتا رہا –
پھر وہ چلتے ہوئے ایک درخت کے پاس سے گزرا، اسی وقت تیز ہوا کا جھونکا آیا اور درخت پر پڑی کچھ برف اس کے کالے کوٹ پر آگری – اس کا ذہن پچاس برس پیچھے کسی برف کے گولےمیں جا اٹکا ،اسے یوں لگا درخت نے کوئی سرگوشی کی ہے – جانے کیوں اس کا دل چاہا وہ اس درخت سے بات کر سکتا یا وہ درخت اس سے کچھ کہہ دے –
اسے اپنی اس خواہش پر حیرت ہوئی ۔ اس سے پہلےتو ایسی کوئی خواہش اسے نہیں ہوئی تھی–
اس دن بھی شدید برف باری ہوئی تھی -کرسمس کی چھٹیاں تھیں ۔ہر طرف سفیدی دیکھ کر بچوں کا جوش بڑھ گیا ۔برف کا آدمی بنانے کا اس سے اچھا موقع کون سا ہوتا اور سب سے زیادہ مزہ تو ایک دوسرے کو برف کے گولے مارنے کا آتا تھا–
پیٹر نے کھڑکی سے باہر جھانکا اور کہا ،
” میں باہر برف صاف کرنے جارہا ہوں تم میں سے کوئی بھی باہر نہیں آئے گا – ”
برف ہٹانے والا بیلچہ لے کر اس نے گھر کے آگے کی برف صاف کرنا شروع کر دی –
“ّّ مام ہم کھیلیں گے کیسے ۔؟ّّجینی نے پریشان ہو کر پوچھا ۔
ّّ پاپا ساری برف ختم کر دیں گے ننھے جان نے معصومیت سے کہا۔”وہ کھڑکی کے نیچے صفائی کررہا تھا جب اس کے کانوں میں بچوں کی آوازیں پڑیں –
“تم لوگ سارہ کےگارڈن میں کھیل لینا ،برف نہیں ختم ہوگی بہت زیادہ ہے ۔کلائوڈیا نے جان کی بات پر ہنستے ہوئے جواب دیا – پیٹر اپنے دھیان میں مگن صفائی کر رہا تھا،وہ دروازے کے سامنے کا حصہ صاف کر چکا تھا،اور اب رک کر اپنے کام کا جائزہ لینے لگا کہ ایک برف کا گولہ اس کی پشت سے آکر ٹکرایا ۔کوٹ تو اس قسم کا تھا کہ اس پر برف ٹھہری ہی نہیں لیکن زمین پر ہر طرف بکھر گئی ۔اس نے مڑکر دیکھا تو وہ تینوں کھڑے ہنس رہے تھے، اس نے بیلچہ ایک طرف کھڑا کیا اور ان کے قریب چلا آیا ،واپس اندر جاو اور آج کی سزا کے لئے تیار رہو، اس نے ان کے سہمے ہوئے چہروں پر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالی اور بیلچہ اٹھا کر پھر سے صفائی میں مصروف ہوگیا–
“اس بار کرسمس کے تحائف نہیں کھولے جائیں گے ۔”پیٹر نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے اعلان کیا ،۔
“چھوٹی سی بات کی اتنی بڑی سزا ۔۔۔۔ کلاوڈیا کا احتجاج سن کر اسے شدیدغصہ آیا–
یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے انہوں نے ایک ہی وقت میں کتنی باتوں کی خلاف ورزی کی ہے ۔میں نے ان کو باہر نکلنے سے منع کیا تھا اور یہ اوور آل اور سنو بوٹس کے بغیر ہی باہر آگئے
برف کا گولا بنانے سے ان کو پچھلے سال ہی منع کر دیا تھا ۔مگر انہوں نے مجھ پر پھینکا ،اور جہاں میں نے صفائی کی تھی وہ ساری جگہ مجھے دوبارہ صاف کرنا پڑی ۔
“شام تک دوبارہ برف باری ہو کر سب ویسا ہی ہو جاتا- ٹھیک ہے بچوں نے غلطی کی ہے ،مگر کرسمس کے تحائف کے لئے انہوں نے پورا سال انتظار کیا ہے-”
“تم ہمیشہ بحث کیوں کرتی ہو؟ میں نے جو ان کو پورے سال میں سکھایا اس میں سے کیا کچھ بھی سیکھا؟”
“بچے ہی ہیں نا!”اسے کلاوڈیا کی اس قسم کی باتوں سے ہمیشہ ہی سخت چڑ ہوتی –
یہ سب باتیں وہ دوسرے کمرے میں بہت آہستہ آواز میں کر رہے تھے ان کے درمیان طے تھا کہ اگر انہیں ایک دوسرے کی کسی بات پر اختلاف ہوگا تو بچوں کے سامنے ایک دوسرے کو نہیں ٹوکیں گے تاکہ بچے اس حمایت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں
“دیکھو کچھ اور کہہ دو مگر تحائف والی سزا رہنے دو -”
“اوکے ٹھیک ہے ___”وہ کمرے سے باہر نکلا –
یا تو اس بار انکل مارکوس کی طرف مت جاو یا پھر اپنے کرسمس کے تحائف نہ لو تم لوگوں کے پاس پندرہ منٹ ہیں سوچ کر ایک جواب دو اس کے بعد اس میں تبدیلی نہیں ہوگی اب تم لوگوں کا ٹائم شروع ہو گیا ہے -“یہ کہہ کرپیٹر اپنے کمرے میں چلا گیا–
اس نے اپنی زندگی ایک ترتیب اور نظم و ضبط سے گزاری تھی ۔ جس میں کسی قسم کی تبدیلی یا معمول سے ذرا سا بھی ہٹ کر کچھ کرنے کی گنجائش موجود نہ تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے جنگ کی تباہ کاریاں اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں اور پھر جرمنی کی تعمیر نو میں اپنی دن رات کی محنت سے اپنا حصہ ڈالا تھا۔وہ سنجیدہ مزاج اپنے کام کے لیے خود کو وقف کر دینے والوں میں سے تھا ۔لیکن اس کی بیوی کا مزاج اس سے برعکس تھا وہ ہمیشہ زندگی سے لطف کشید کرنے کی قائل تھی -نظم و ضبط اور وقت کی پابندی کے معاملے میں پیٹر کو اس سے کوئی شکایت نہ تھی، ان باتوں کا وہ بھی خیال رکھتی ، مگر بچوں کے لئے کھیل کود اور فطرت سے نزدیک ہونا کس قدر ضروری ہے، وہ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو جاتی ۔اور کئی بار کہتی کہ بچے کبھی کوئی ایسی بے ضرر سی اصول کی خلاف ورزی کریں تو نظریں دوسری طرف کر لینی چاہیئیں کہ جیسے دیکھا ہی نہیں- لیکن پیٹر کہتاکہ یہی عمر ہوتی ہے جب بچوں کو ہر چیز اس طرح سے سکھائی جا سکتی ہے کہ ان کے خون میں رچ بس جائے۔
بچوں کو کھیل کے میدان میں مٹی والی جگہ پر کھیلنے کی اجازت نہیں تھی جب کہ کلاوڈیا کے مطابق یہ بچوں کے لئے ضروری ہے، اس طرح وہ فطرت سے قریب رہتے ہیں، اور بیماری سے بھی بچے رہتے ہیں ۔لیکن پیٹر کو اپنے گھر میں ان کے کپڑوں کے ساتھ لگ کر آئی مٹی سے نفرت تھی ۔
کھیل کے بعد کلاؑؤڈیا ان کے لباس کو اچھی طرح جھاڑ دیتی ۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے ان کے جوتے اور کھیلنے والا اوور آل اتروا دیتی اور ان کو نہلانے لے جاتی ایسا عموما وہ پیٹر کی غیر موجودگی میں ہی کرتی ، مگر اسے پتہ چل جاتا کہ بچے آج پھر مٹی میں کھیل کر آئے ہیں –
‏اس دن کوئی نہ کوئی سزا تجویز ہوتی جو بچوں کے لئے واقعی ایک سزا ہی ہوتی،ایسے وقت میں کلاؤڈیا کا احتجاج کرنا اس کے مزاج پر گراں گزرتا -“یہ عورت میری تمام محنت پر پانی پھیر دے گی -“اسے اپنا کئی بار کا سوچا ہوا جملہ یاد آیا-صاف شفاف برف پر اپنے قدموں کے نشان چھوڑ کر آگے بڑھتے ہوئے اس کا ذہن پیچھے اور پیچھے سفر کر رہا تھا–
“کیا سوچا ہے پھر؟” پورے پندرہ منٹ بعد پیٹر نے اپنے کمرے سے نکل کر پوچھاتھا–
“ہم انکل مارکوس کی طرف جائیں گے”،بچوں نے کرسمس ٹری کے نیچے پڑے تحائف پر نظریں جمائے ہوئے کہا -ان کے لہجے کی حسرت کو اس نے صاف محسوس کیا،مگر یہ ان کی تربیت کا سوال تھا جس پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا تھا–
“ٹھیک ہے یہ مت سوچنا کہ واپس آکر تم لوگ یہ پیکٹس کھول سکو گے۔”
“جی پاپا ہم جانتے ہیں -”
سال میں ایک دن انکل مارکوس کی سنگت میں گزارنا ان کے لئے تحائف سے زیادہ قیمتی تھا ۔وہ بات بے بات ہنسنے والا غیر سنجیدہ اور شوخ مزاج کا مالک تھا –پیٹر اسے اس کے اس مزاج کی وجہ سے ہی ناپسند کرتا- مگر جانتا تھاکہ بچوں کو وہ اسی وجہ سے پسند تھا ۔اس کے بچوں کے ساتھ ان کا دن بہت خوبصورت گزرتا ۔وہ سمجھ گیا کہ انہوں نے کرسمس کے تحائف پرایک پورا دن مکمل آزادی کو ترجیح دی تھی۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا بس سٹاپ کی طرف بڑھ رہا تھا –مگر خیالات ایک ہی جست میں کچھ برس آگے کے مناظر میں بھٹک رہے تھے جب جینی سولہ برس کی ہو چکی تھی ۔اس کی طبیعت کے باغیانہ پن کو وہ محسوس کر رہاتھا مگر خاموشی سے اس پر نظر رکھے ہوئے تھا- جینی نے اپنی ماں سے ایک بار کہاتھا کہ آپ رہنااس جہنم میں میں اٹھارہ کی ہوتے ہی یہاں سے چلی جاوں گی –پیٹر کو یہ بات سن کر غصہ تو بہت آیا، لیکن وہ وقت سے پہلے کسی بھی ردعمل کا اظہار کرنے کا قائل نہیِں تھا- بلکہ مناسب وقت کامنتظر تھا۔مگر اس کی نوبت ہی نہ آسکی –
اس نے جینی کو ایک اٹالین لڑکے کے ساتھ دیکھ لیا ان کے انداز میں گہری وابستگی جھک رہی تھی ۔پیٹر کا تعلق اس خاندان سے تھا، جو جرمنوں سے باہر دوست بھی نہیں بناتے اور شادی کےلیے لڑکے اور لڑکی کا ماں باپ کی طرف سے خالص جرمن ہونا ضروری تھا ۔
اس دن گھر میں ایسا طوفان اٹھا ،۔کہ جینی نے اپنے کمرے میں خود کو بند کر کے کیمکل پی لیا ۔کلاوڈیا کو اس کے کمرہ بند کرنے کے انداز سےگھبراہٹ ہوئی تو اس نے ڈپلیکٹ چابی سے دروازہ کھول لیا- اندر جینی کی حالت دیکھ کر،اس نے پیٹر کو آوازیں دیں وہ کمرے میں آیا ایک نظر جینی کو دیکھا اور واپس اپنے کمرے میں چلا گیا -اسے جینی سے اس بچگانہ پن کی امید نہ تھی وہ شدید غصے میں تھا –
ہمسایوں کی مدد سے جینی کو ہسپتال لے جایا گیا وہ تین دن وہاں رہی ،پیٹر اسے دیکھنے جانا چاہتا تھامگر پھر اس نے سوچا کہ اس طرح تو وہ اپنی کوئی بھی بات منوانے کے لیے آئیندہ بھی ایسا ہی کرتی رہے گی ایک بار میں ہی اگر وہ اپنا رویہ بے لچک رکھے گا تو آئیندہ وہ ایسا نہیں کرے گی–
لیکن کلاوڈیا نے علیحدگی کا فیصلہ سنا دیا–
“اس قدر جذباتی فیصلے کی کیا ضرورت ہے ؟” پیٹر نے اس کا فیصلہ سن کر پوچھا –
“اپنی ذات تک تو میں سب کچھ برداشت کرتی رہی، مگر اپنے بچوں کے لیے اب مجھے کسی فیصلے پر پہنچنا ہی ہے اور میں اس کا فیصلہ کر چکی ہوں-”
“ایسی کون سی زیادتی کر رہا ہوں میں ان کے ساتھ ؟
“تم ان سے ان کے زندہ رہنے کی امنگ جینے کی وجہ چھین رہے ہو ”
وہ ناسمجھ ہیں اپنا اچھا برا نہیں جانتے اور نہ ہی تم ان کی اچھی رہنمائی کر رہی ہو ،بہر حال یہ تمہارا فیصلہ ہے -”
پیٹر کو اپنی بیوی سے ہوئی آخری ملاقات یاد آئی -اس کے چہرے پر ہلکی سی اداسی تو تھی مگر اپنے فیصلے پر افسوس یا ملال کا شائبہ تک نہیں تھا-یہی وجہ تھی کہ وہ ایک پل کے لیے ان تینوں کے پاس رکا،
” اچھا ہوا تم نے خود ہی فیصلہ کر لیا تم جیسی بد سلیقہ اور بد انتظام عورت کے ساتھ رہنا کسی عذاب سے کم نہیں تھا، اس پر تمہاری اولاد بھی تمہاری طرح ہی نکلی تم سب ایک دوسرے کے ساتھ ہی ٹھیک ہو ” یہ کہہ کروہ وہاں سے چلا آیاتھا–
دور تک تنی ہوئی برف کی سفید چادر پر چاندنی کی کرنیں عجیب سا ہی منظر پیش کررہی تھیں جیسے کوئی سر سے پائوں تک کفن لپیٹے سو رہا ہو ،اس خیال سے اسے اس منظر سے وحشت سی ہوئی حالانکہ آج سے پہلے تک اس کے لیے یہ منظر ہمیشہ ہی بہت پسندیدہ رہاتھا- کرسمس کے دن سے لیکر برس کی پہلی صبح تک اگر برف باری سے سب کچھ ڈھک نہ جاتا تو اسے یہ دن ادھورے سے لگتے لیکن آج !
“وہ مجھے بھول رہی ہے ”
کفن کا خیال آتے ہی آج دیکھی گئی فلم کا مکالمہ اس کے ذہن میں گونجا -اس نے سر جھٹک کر اپنے قدم تیز کر دیئے–
گھر پہنچ کر حسب معمول اس نے جوتے باہر جھاڑ کر سٹینڈ پر رکھے دروازے کو چابی لگا کر اندر داخل ہوا اور دروازے کی بائیں جانب لگی کھونٹی پر اپنا لانگ کوٹ لٹکایا- پھر باورچی خانے میں جاکر کافی مشین میں فلٹر، کافی اور پانی ڈال کر اس کا بٹن دبایا اور خود اپنے کمرے میں جاکر لباس تبدیل کرنے لگا- کافی تیار ہوئی تو بھاپ اڑاتی کافی کا مگ پکڑ کر کھڑکی میں جا کھڑا ہوا سامنے بنے ہوئے گھروں کی قطار میں اوپر تلے ہر گھر کی کھڑکیوں میں مختلف اشکال اور رنگوں کی روشنیاں جگمگا رہی تھیں -کئی گھروں کی کھڑکیوں کے باہر سانتا کلاز یوں لٹک رہے تھے، جیسے کھڑکی کے راستے اندر پہنچنے کی کوشش میں ہوں تاکہ اندر رہنے والے مکینوں کو ان کے تحائف پہنچا سکیں – ہر طرف خاموشی تھی -ابھی نئے سال کے استقبال کی چہل پہل شروع نہیں ہوئی تھی – سب گھروں کے دروازے بند تھے – کوئی ذی روح نہ اس وقت سڑک پر نظر آرہا تھا نہ ان گھروں کے اندر باہر ،اس خاموش منظر کو دیکھ کر اسے شہر خموشاں کا گماں گزرا جہاں بہت سی قبروں پر چراغاں کیا گیا ہو –
اس نے اپنی سوچوں سے جھنجھلا کر کافی کی چسکی لی اس کا ذائقہ روزانہ سے زیادہ تلخ محسوس ہوا –
اس نے کافی کا مگ میز پر رکھا–
“نہیں مجھے کمزور نہیں پڑنا ہے، جو کچھ بھی ہوا اس میں میری کوئی غلطی نہیں تھی- میں اپنے آباءو اجداد کے کچھ سنہری اصول آنے والی نئی نسل میں منتقل کرنا چاہتا تھا، یہی وہ نظم و ضبط اور اصول تھے جن کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہوا بلکہ تیزی سے ہر میدان میں ترقی بھی کی ،
نئی نسل کو تو سب کچھ تیار شدہ مل گیا وہ ان صعوبتوں سے کہاں واقف ہے جو ہم نے جھیلیں -“اس کا ذہن خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا مگر اس کے قدم ___
غیر محسوس انداز سے سامنے پڑے ٹیلفون سٹینڈ کی طرف بڑھ رہے تھے –
“نہیں میِں کمزور نہیں ہوں!” اس نے فون کی طرف بڑھا ہوا ہاتھ کھینچا مگر دوسرے ہی پل اس فون میں برسوں سے محفوظ ایسے نمبر کو دبایا جس پر اس نے کبھی رابطہ نہیں کیا تھا
نمبر ملتے ہی آٹومیٹک میسج چلنا شروع ہوا کہ آپ کا ملایا ہوا نمبرغلط ہے یا موجود نہیں- صحیح نمبر کے لیے ایکسچینج سے رابطہ کریں ۔اس نے بند کر کے دوبارہ ملایا ،پھر ملایا ،مگر ہر بار ایک ہی ریکارڈنگ چل رہی تھی- یا تو ان لوگوں نے نمبر بدل دیا ہے یا وہ گھر چھوڑ چکے ہیں۔
وہ خالی فون ہاتھ میں پکڑے اسے دیکھ رہا تھا –
“اور سب نے مجھے بھلا دیا ؟ “اس نے خود سے سوال کیا –
کافی کا مگ پکڑے وہ پھر سے کھڑکی میں آکھڑا ہوا –
“ابدی موت !”
سامنے والے گھر میں آتش دان میں سلگتی لکڑیوں پر اس کی نظر پڑی تووہ زیر لب بڑبڑایا –
“مگرکس کی ؟”
راکھ ہوکر بکھرتے وجودوں کا منظر اس کی آنکھوں میں ٹھہر چکا تھا

ہما فلک

ہما فلک

ہمافلک کا اصل نام ہمامالنی وائیں ہے وہ اٹھائیس دسمبر کو پیدا ہوئیں ایم اے پولیٹیکل سائینس کیا اور اب ایک گھریلو خاتون کے طور پر زندگی گزار رہی ہیں لکھنا پڑھنا ان کی دلچسپی بھی ہے اور مشغلہ بھی – ہما کا پہلا مطبوعہ افسانہ تھا “ہلدی والی” اور سال 2018 میں ان کی افسانوں کی کتاب “روح دیکھی ہے کبھی” کے نام سے منظر عام پر آ چکی ہے ان کے نمائیندہ افسانوں ہلدی والی، ‏دی ونش فے، ابدی موت اور ببول شامل ہیں اب تک ان کے افسانے ثالث مدیر اقبال حسن آزاد ، زبان وادب بہار اکیڈمی انڈیا ، بیسویں صدی مدیر شمع افروززیدی، قلم کی روشنی مدیر ظفر اقبال ہاشمی، ندائے وقت مدیر قاری ساجد نعیم اور انہماک انٹرنیشنل مدیر سید تحسین گیلانی۔ کے علاوہ بہت سے دیگر ادبی رسالوں میں شائع ہوچکے ہیں – ہما کی ایک افسانوں کی کتاب “روح دیکھی ہے کبھی ” چھپ کر شائقین افسانہ کے ساتھ ساتھ ناقدین سے بھی داد پا چکی ہے سر دست ایک مزید افسانوی مجموعے کے مسودے پر کام جاری ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button