- Advertisement -

جگر کو خون کئے دل کو بے قرار ابھی

افروز عالم کی ایک اردو غزل

جگر کو خون کئے دل کو بے قرار ابھی

بھٹک رہے ہیں ترے عشق میں ہزار ابھی

اسی لئے تو یہ دنیا دھلی دھلی سی لگے

ترے فراق میں روئے ہیں زار زار ابھی

ادائے خار سے گلشن کی بڑھ گئی زینت

اگرچہ پھولوں کے دامن ہیں تار تار ابھی

سیاہ بخت فضاؤں میں دل ہوا بد ظن

تری زبان کے تیور ہیں آب دار ابھی

ابھی نہ نکلے گا حاصل ہماری باتوں کا

تمہارے سر پہ ہے سایہ کوئی سوار ابھی

یہ دیکھتے ہیں کہ کل رنگ صبح کیا ہوگا

کہ آفتاب کا عالمؔ ہے انتظار ابھی

افروز عالم

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
افروز عالم کی ایک اردو غزل